Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, May 26, 2019

مودی جیت گئیے! دیش ہار گیا!!مودی کی زبردست فتح پر ایک قابل غور تجزیہ۔


اس پر پورے ملک کے عوام حیران ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 23مئی کو بی جے پی کے دفتر کے باہر جشن تو منایا گیا لیکن ملک میں عوامی سطح پر کہیں کوئی جشن نہیں منایا گیا۔ کیونکہ لوگ جانتے ہیں کہ انہیں ٹھگا گیا ہے۔
م. افضل/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
________________________
آخرش وہی نتیجہ سامنے آیا جو شاید پہلے سے طے تھا۔ 23مئی کو زیادہ کچھ نہیں ہوا بس اس کا اعلان کردیا گیا۔ ہوسکتا ہے بہت سے سیاسی تجزیہ کار میری اس بات سے اتفاق نہ کریں لیکن تلخ سچائی یہی ہے۔ اب اس کامیابی کو جمہوریت کی کامیابی کا نام دیا جارہا ہے، کہا جارہا ہے کہ لوگوں کو اندازہ لگانے میں غلط فہمی ہوئی، راہل اور پرینکا کے آگے پیچھے جو بھیڑ نظر آرہی تھی، وہ ایک دھوکہ اور سراب تھا۔ ورنہ ابتدا ہی سے عوام میں مودی کے حق میں ایک زیریں لہر موجزن تھی جس کا احساس عام لوگ نہیں کرسکے، البتہ میڈیا کو اس کا احساس ہوگیا تھا جس کا اظہار اس نے ایگزٹ پول کی صورت میں کردیا 
تھا۔

پورے الیکشن کی سرگرمیوں کا آپ باریک بینی سے تجزیہ کریں اور خود فیصلہ کریں کہ اب جو کچھ تاویل کے طور پر کہا جارہا ہے کیا صحیح ہے؟ راہل گاندھی، پرینکا گاندھی، اکھلیش یادو اور تیجسوی یادو وغیرہ کی عوامی ریلیوں کو دیکھیں اور مودی جی وامت شاہ کی ریلیوں سے اس کا موازنہ کریں۔ ان تمام لوگوں کی ریلیوں میں جہاں بنا بلائے لوگ اکٹھا ہو رہے تھے وہیں مودی جی اور امت شاہ کی ریلیوں کے لئے بھاڑے کی بھیڑ جمع کی جاتی رہی۔ اس کے ثبوت میں ایسے کئی ویڈیو سوشل میڈیا پر اب بھی پڑے ہوں گے، انہیں دیکھاجاسکتا ہے مگر اب350 کے آس پاس سیٹوں پر بی جے پی کی کامیابی کے بعد پوری طاقت سے کہا جارہا ہے کہ الیکشن کے دوران مودی کے حق میں ایک نادیدہ لہر چل رہی تھی، اس لئے لوگ ہوا کے رخ کا اندازہ نہیں کرسکے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مودی کے حق میں کوئی نادیدہ لہر تھی تو وہ انتخابی مہم کے دوران نظرکیوں نہیں آئی؟ مودی جی اور امت شاہ کو اپنی ریلیوں کے لئے کرایہ کی بھیڑ کا انتظام کیوں کرنا پڑا؟
23 مئی کو جو نتیجہ آیا، اصولی طورپر اسے تمام سیاسی پارٹیوں نے قبول کرلیا اور مودی جی کو جیت کی مبارکباد بھی پیش کردی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ نتائج اور ای وی ایم کو لے کر جو شکوک وشبہات لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہیں وہ دور ہوگئے۔ الیکشن کمیشن کا کردار بدستور شک کے دائرہ میں ہے۔ اس کا رول غیر جانبدارانہ نہیں تھا۔ 

ووٹنگ کے بعد پورے ملک میں ای وی ایم مشینوں کی لوٹ اور دھاندلی کی خبریں عام ہوئیں، ای وی ایم سے بھری پرائیویٹ گاڑیاں پکڑی گئیں۔ اسٹرانگ روم سے ای وی ایم مشین نکال کر باہر لے جاتے ہوئے لوگ پکڑے گئے مگر الیکشن کمیشن خاموش رہا، آخری دنوں میں یہ صفائی اس نے ضرور پیش کی کہ تمام ای وی ایم مشین محفوظ ہیں۔ 20لاکھ ای وی ایم مشینوں کے غائب ہونے کے معاملے پر بھی اس نے کوئی صفائی نہیں دی، قابل غور ہے کہ ایک آرٹی آئی کے جواب میں الیکشن کمیشن نے اعتراف کیا ہے کہ 20لاکھ ای وی ایم مشینیں غائب ہیں۔ اس کا انکشاف انگریزی رسالہ ’فرنٹ لائن‘ نے کیا تھا۔ 
امیٹھی۔۔ای  وی ایم کی چوری۔۔فوٹو وائرل

سوال یہ ہے کہ اگر یہ بات درست ہے تو اتنی بڑی تعداد میں مشینیں کس نے غائب کیں اور اگر غائب ہوئیں تو اس کے بارے میں الیکشن کمیشن نے کوئی قانونی کارروائی کیوں نہیں کی؟
جہاں تک ای وی ایم میں چھیڑ چھاڑ اور دھاندلی کا تعلق ہے، اس پر بہت کچھ کہا جاچکا ہے۔ ماہرین بھی اس پر اپنی رائے دے چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2009 میں ہار کے بعد سب سے پہلے بی جے پی نے ای وی ایم کی معتبریت پر سوال اٹھایا تھا۔ جی وی ایل نرسمہا راؤنے اس کو لے کر باقاعدہ طورپر ایک کتاب لکھی تھی جس کا پیش لفظ ایل کے اڈوانی نے تحریر کیا تھا۔ سبرامنیم سوامی اس معاملے کو لے کر عدالت گئے تھے۔ انہوں نے ان مشینوں کے تعلق سے جن خدشات کا اظہار کیا تھا، سپریم کورٹ نے بڑی حد تک اسے درست مانا تھا اور اپنے 2013 کے فیصلہ میں اس نے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی تھی کہ تمام ای وی ایم مشینوں کے لئے وی وی پیٹ کا انتظام کیاجائے۔ یہ لڑائی آگے بڑھتی اس سے پہلے سبرامنیم سوامی کو2014 میں راجیہ سبھا دے دی گئی اور جی وی ایل نرسمہاراؤ بی جے پی کے ترجمان بن گئے۔ تاہم اس لڑائی کو بعد 
میں کچھ دوسروں نے لڑا۔ 
وائرل فوٹو۔۔۔ای وی ایم سے بھری ٹرک پکڑی گئی

اگرچہ 50 فیصد وی وی 
پیٹ پرچیوں کے ملان کا مطالبہ عدالت سے کیا جا رہا تھا مگر اس نے ہر اسمبلی حلقے کے ایک مرکز کی پرچیوں کے ملان کی ہدایت کی تھی۔
22مئی کو اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران نے آخری کوشش کے طور پر الیکشن کمشنر سے ملاقات کی اور ایک بار پھر 50فیصد پرچیوں کے ملان کا مطالبہ کیا جسے مسترد کردیا گیا۔ اس پر ان لوگوں نے دوسرا مطالبہ کیا کہ کاؤنٹنگ سے قبل سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق ہر اسمبلی حلقہ کے ایک مرکز کی پرچیوں کا ملان پہلے کرلیاجائے مگر اس مطالبہ کو بھی نظرانداز کردیاگیا اور دوسرے دن یعنی23 مئی کو کاؤنٹنگ شروع ہوگئی۔ 24 مئی کے انگریزی رزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ میں چھپی ایک رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ کمیشن نے عدالت کی ہدایت کی روشنی میں وی وی پیٹ پرچیوں کی ملان کا عمل بھی مکمل کرلیا۔ سب کچھ درست پایا گیا البتہ آندھرا میں ایک مرکز کی پرچیوں میں کچھ گڑبڑی ضرور پائی گئی جس کو کمیشن کے حکام نے انسانی غلطی سے تعبیر کرتے ہوئے اپنی فرض شناسی کی مہر لگادی اور کاغذی کارروائی مکمل کرلی۔ سوال یہ ہے کہ پرچیوں کا ملان گپ چپ طریقے سے کیوں کیا گیا؟ اور ملان کے وقت کیا دوسری پارٹیوں کے امیدواروں کے نمائندے وہاں 
موجود تھے؟

سچ یہ ہے کہ اس طرح کے معاملے’میڈیا‘ نہیں اٹھاتا۔ صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا گیا ہے اور اگر ستون ہی کمزور ہو تو پھر کسی عمارت کی مضبوطی کا دعویٰ کیوں کر کیا جاسکتا ہے۔ ’میڈیا‘ ایماندارانہ رپورٹنگ کی جگہ پروپیگنڈوں کو ہوا دینے کا ایک ذریعہ بن کر رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن کا ایماندارانہ تجزیہ کرنے کی جگہ وہ اس کامیابی کو اپنے اول جلول دلائل سے حق بہ جانب ٹھہرانے کی دن رات کوشش میں مصروف ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مودی سرکار میں عوامی مفاد کی جو اسکیمیں چلائی گئیں ان کا لوگوں نے زبردست اثرقبول کیا اس لئے مودی کی قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے انہوں نے آنکھ بند کرکے دوبارہ ان کے حق میں ووٹنگ کردی۔ میڈیا یہ بتانے کی زحمت بالکل نہیں کررہا کہ آخر وہ عوامی اسکیمیں ہیں کیا؟
اب کچھ لوگ راہل گاندھی کی صلاحیت پر سوال کھڑے کر رہے ہیں، جبکہ سچائی یہ ہے جو سب نے دیکھی بھی کہ انہوں نے اس الیکشن میں اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مودی اور امت شاہ جیسے لوگوں کی اشتعال انگیزیوں اور فرقہ پرستی کی سیاست کے مقابلہ انہوں نے نظریاتی لڑائی لڑی اور مضبوطی سے لڑی اور یہ لڑائی بھی اشوز پر مبنی لڑائی تھی۔ انہوں نے عوام کے مسائل کی نشاندہی کی اور ان کے حل کا خاکہ بھی پیش کیا۔ اپنے انتخابی منشور میں انہوں نے جہاں جی ایس ٹی کو نرم کرنے اور22 لاکھ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا وہیں ملک سے غریبی کے خاتمہ کے لئے نیائے اسکیم کا اعلان بھی کیا۔ نیا کاروبار شروع کرنے کے لئے کسی بھی قانونی بندش سے آزادی کی بات بھی کہی۔ راہل گاندھی کا وژن بالکل واضح تھا، اس کے برعکس بی جے پی کے انتخابی منشور میں مستقبل کے لئے کوئی خاکہ موجود نہیں تھا۔ انتخابی مہم کے دوران راہل گاندھی کو عوامی سطح پر جو پذیرائی مل رہی تھی وہ اس بات کا اظہار تھا کہ لوگ ان کے وژن کو سمجھ رہے ہیں اب اگر اس کے بعد بھی ایسے نتائج آتے ہیں تو فطری طورپر شکوک پیدا ہوتے ہیں اور ان شکوک کو مسترد بھی نہیں کیاجاسکتا۔ کچھ لوگ تو جوش میں اسے راشٹرواد کی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا نے بھی اسے راشٹر واد کی کامیابی سے تعبیر کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بعض نے خطرناک نوعیت کے خدشات کا بھی اظہار کیا ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ اب ہندوستان کو ایک جمہوری ملک کی جگہ ہندوراشٹر کے طورپر جانا جائے گا۔
مودی کی اس کامیابی سے ملک کا وہ طبقہ خاص طورپر بہت مایوس نظر آرہا ہے جو سیکولرازم کا حامی ہے اور اپنے بچوں کے لئے ایک بہتر مستقبل کا خواہش مند ہے۔ بہت سے اندھ بھکت تو سوشل میڈیا پر یہ بھی لکھ رہے ہیں کہ اب کوئی طاقت مودی کو ہرا نہیں سکتی۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو تاریخ سے کوئی علاقہ نہیں ہے۔ ایسے لوگ قدرت کے اس مسلمہ اصول کو بھی بھول جاتے ہیں کہ ہر عروج کوآخر زوال ہے۔ اگرچہ یہ کامیابی کئی طرح کے سوال کھڑی کرتی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ (چاہے جس طرح جیتا) بی جے پی کے حصے میں 352نشستیں آچکی ہیں۔ لیکن اسے تاریخی کامیابی ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ آزادی کے بعد 1951 میں ہوئے پہلے الیکشن میں پنڈت نہرو کی قیادت میں کانگریس نے 489 میں سے 369 نشستیں جیتی تھیں۔ 1971 میں آنجہانی اندراگاندھی کو بھی اسی طرح کامیابی حاصل ہوئی تھی جب انہوں نے 518 میں سے 352 سیٹیں جیتی تھیں۔ 1980 میں دوبارہ انہوں نے اس طرح کی کامیابی حاصل کی تھی، لیکن 1984 میں راجیوگاندھی کو آزادی کے بعد سب سے بڑی اکثریت حاصل ہوئی تھی جب کانگریس کو 514 میں 404 سیٹوں پر کامیابی ملی تھی۔
2019 کا الیکشن آزادی کے بعد کی تاریخ کا ایک بدترین الیکشن تھا جس میں اخلاق وضوابط کی کھلے عام دھجیاں اڑائی گئیں اور مودی جی و ان کے ساتھیوں نے ذاتیات پر حملے کئے، یہاں تک کہ مرے ہوئے لوگوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ بی جے پی کے لوگ کامیابی سے اس قدر مسرور ہیں کہ انہیں یہ نظر نہیں آتا کہ جو نتائج آئے ہیں، اس پر پورے ملک کے عوام حیران ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 23مئی کو بی جے پی کے دفتر کے باہر جشن تو منایاگیا لیکن ملک میں عوامی سطح پر کہیں کوئی جشن نہیں منایاگیا۔ کیونکہ لوگ جانتے ہیں کہ انہیں ٹھگا گیا ہے اس لئے یہ راہل گاندھی کی ہار نہیں دیش کی ہار ہے، جمہوریت کی ہار ہے۔ مودی جی جیت ضرور گئے ہیں مگر پورا ملک سنّاٹے میں ہے۔