Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, May 20, 2019

خودی کو کر بلند اتنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!


از: وقار احمد غالب پوری/ صدائے وقت/ بذریعہ عاصم طاہر اعظمی۔
mohdwaqarakhtar@gmail.com
20/05/2019۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ بات تو بالکل عیاں ہے کہ ہر بندہ خود میں خاص ہوتا ہے، کچھ نہ کچھ خصوصیت کسی نہ کسی میں ضرور ہوتی ہے؛ اگر چہ اسے اس کا علم نہ ہو؛ اس لیے ہر انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کو پہچانے کہ وہ ہے کیا اور اس کی حیثیت کیا ہے۔

انسان جب تک خود کو نہیں پہچانے گا ، اسے کسی بھی عمل کے کرنے میں دشواری محسوس ہوتی رہے گی اور جس نے خود کی شناخت کرلی ، اسے مشکل سے مشکل کام کے انجام دینے میں دشواری نام کی کسی شے کا سامنا نہیں ہوگا
در حقیقت کام کوئی بھی ہو دشوار نہیں ہوتا اور نہ ہی مشکل ہوتا ہے؛ البتہ نہ کرنے کے ہزار بہانے ہوتے ہیں ، جن کی ایک لمبی فہرست سامنے موجود ہوتی ہے اور اسی کام کے کرنے والے کے لیے صرف کوئی ایک وجہ ہوتی ہے، جس کی بنیاد پر وہ اپنا کام کرجاتا ہے اور پے در پے بلندیوں کے منازل طے کرتا چلا جاتا ہے۔
ہمارے ایک استاذ کہا کرتے تھے : " کام کوئی بھی ہو : اگر اسے مشکل سمجھ لیا جاتا ہے، تو واقعی ایسے واقعات رونما ہوجاتے ہیں کہ وہ مشکل معلوم ہونے لگتا ہے؛ لیکن اگر اسے سہل اور آسان سمجھ لیا جائے، تو آسانیاں قدم چومنے لگتی ہیں اور وہ عمل آسانی سے مکمل ہوجاتا ہے"۔
ان تمام میں سب سے اہم بات یہ ہے اگر کوئی شخص کسی عمل کا ارادہ کرتا ہے ، تو اسے چاہیے کہ وہ اس عمل میں اللہ کی رحمت وبرکت کی دعا کرتا رہے اور صدق دل سے کامیابی کی بھی دعا کرے۔ نیز دعاؤں کی قبولیت کی امید بھی رکھے ۔ تفصیل میں نہ جاکر اتنا کہنا کافی معلوم ہوتا ہے کہ ہر بندہ کی دعا قبول ہوتی ہے : کبھی کوئی دعا جلدی قبول ہوجاتی ہے، تو کبھی کوئی دعا تاخیر سے قبول ہوتی ہے۔ مثلا:
ایک چھوٹا بچہ ہے ، والدہ سے چھڑی مانگتا ہے ؛ لیکن والدہ چھڑی دینے سے انکار کردیتی ہے کہ شاید بچہ خود کو اس سے زخم پہونچالے گا اور واضح یا پوشیدہ الفاظ میں یہ کہہ دیتی ہے کہ بیٹا ابھی تم چھڑی کو سنبھال نہیں سکتے ،ذرا بڑے ہوجاؤ ، اس کے بعد چھڑی وغیرہ استعمال کرنا؛ اس لیے کہ ابھی یہ تمہارے کسی کام کی نہیں اور تمہارا جسم اس سے زخمی بھی ہوسکتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ والدہ چھڑی کی جگہ کوئی دوسری چیز بچے کے لیے محیا کردیتی ہے، تاکہ بچے کی ضرورت ( کھیلنا کودنا وغیرہ) پوری ہوجائے ۔
ایسے ہی دعاؤں کا مسئلہ ہے: اللہ تبارک وتعالی ہر ایک کے بارے میں جانتا ہے کہ اس کی ضرورت کیا ہے ، جیسی ضرورت ہوتی ، ویسی اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے مدد ہوتی رہتی ہے۔ کبھی کسی دعا کے بدلہ کوئی حوادث وغیرہ رونما ہونے سے رک جاتے ہیں اور وہ دعا انسانوں کی حفاظت کا سبب بن جاتی ہے۔ چناں چہ کبھی دعاؤں کی قبولیت میں تاخیر ہوجائے ، تو غلط باتیں زبان سے نہیں ادا کرنی چاہئیں اور خود کو لعن وطعن سے بچانا چاہیے۔
انسان اگر کوئی کام کرنا چاہے ، تو کیوں نہیں کرسکتا ؟ بالکل کر سکتا ہے، صرف ہمت اور عزم مصمم کی ضرورت ہے۔ انسان جس ذہن ومزاج مں اپنے آپ کو ڈھالنا چاہے ڈھال سکتا ہے اور اس اعتبار سے اپنی زندگی کی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔ البتہ ہزاروں افراد ایسے ہوتے ہیں ، جو یہ کہنے والے ہوتے ہیں کہ بھائی آپ یہ کام مت کرو، آپ نہیں کرسکتے ، تو برایے مہربانی ایسے لوگوں سے صرف ایک سوال پوچھا جائے کہ بھائی کیوں نہیں کرسکتا؟ یقینا کسی کے پاس اس کا جواب نہیں ہوگا ، سب خاموش بیٹھ جائیں گے ؛ الا یہ کہ چند ہوں گے ، جو جواب دیں گے اور ان کا جواب سننے کے لائق بھی ہوگا ؛ کیوں کہ وہ چند لوگ تجربہ کی روشنی میں بات کر 
رہے ہوں گے۔

اس لیے اگر کوئی کچھ کہتا ہے ، اس کی ضرور سنی جائے ، ہوسکتا ہے : کچھ کام کی ہی بات مل جائے؛ پر کسی کام کے انجام دینے سے گھبرانا نہیں چاہیے ؛ بلکہ جم کر انجام دینا چاہیے۔
ایک بہت ہی مشہور واقعہ ہے:
"ایک مرتبہ ایک بندہ صبح بغرض ورزش ہلکی دوڑ لگا رہا تھا ، اچانک اسے کتے کے بچے کے رونے کی آواز سنائی دی ، جیسے جیسے وہ آگے بڑھتا گیا ، آواز بھی تیز ہوتی گئی ، سامنے دیکھا کہ ایک کتے کا بچہ بیٹھا رو رہا ہے اور وہیں ایک بزرگ شخص بیٹھے ہوئے ہیں ، اس دوڑنے والے شخص نے اس بزرگ سے پوچھا : یہ کتے کا بچہ رو رہا ہے اور آپ اطمینان سے بیٹھے ہیں ، کم از کم اتنا تو دیکھنا چاہیے کہ اس کی تکلیف کیا ہے، بزرگ شخص نے کہا: بیٹا یہ جہاں بیٹھا وہاں ایک کیل ہے ، جو اس کے پیٹ میں چبھ رہی ہے۔ اس نے کہا : پھر آپ اس کی مدد کیوں نہیں کرتے؟ بزرگ شخص نے مسکراتے ہوئے کہا: بیٹا یہ تکلیف ابھی اس کی برداشت میں ہے؛ اس لیے وہ ہٹنے میں اپنی پوری کوشش نہیں لگا رہا ہے ، جب یہی تکلیف برداشت سے باہر ہوگی، تو وہ خودبخود وہاں سے ہٹ جائے گا"۔
بالکل ایسے ہی انسانوں کا معاملہ ہے ، جب سر پہ آتی ہے ، تو کچھ کرتے ہیں؛ ورنہ صرف بڑی باتیں، بڑی رقمیں ، بڑی گاڑیاں اور عالیشان بنگلوں و محلات کے خواب ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں ، کچھ کرتے نہیں۔
لہذا ایسا نہیں کرنا چاہیے ؛ بلکہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے آج کی دنیا میں عمل درکار ہے ، روزی وہی ملے گی ، جو اللہ نے متعین کر رکھی ہے، اس سے زیادہ ملنے والی نہیں۔ جب لکھی ہوگی زیادہ ملنا، تو زیادہ ملے گی، کوئی روک نہیں سکتا؛ اس لیے خوابوں کی زندگی چھوڑو اور حقیقی زندگی گزارو؛ اپنے ٹیلینٹ سے کام کرو ، جس چیز میں مہارت ہو، اسے اپنا اول مقصد بناؤ، دیگر کاموں میں بھی اللہ پہ بھروسہ رکھتے ہوئے اقدامات کرو ۔ اللہ ہر ایک کو روزی دیتا ہے۔ کم کمائی اور زیادہ کمائی ؛ یہ سب بیکار کی باتیں ہیں۔ اگر آپ ایماندار اور سچے ہیں، تو اللہ کی مدد ضرور آپ پر ہوگی ۔