Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, May 25, 2019

بیسواں روزہ۔۔۔۔۔۔بیسواں سبق۔رمضان المبارک کے موقع پر سلسلے وار تحریر۔

روزہ دار میں خصوصیات۔۔۔۔۔۔۔. .  ۔۔
صدائے وقت/ ماخوذ/ عاصم طاہر اعظمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
صدقِ دل اور اخلا ص و للہیت کے سا تھ روزہ رکھنے والے ،رمضا ن کے اس مہینہ میں بہت سی خو بیو ں کے مالک بن جاتے ہیں ، ان کے دل میں عا جزی وانکسا ری پیدا ہو تی ہے، جذبۂ شفقت ومحبت میں اضا فہ ہو تا ہے، روزہ دار کی شفقت ومہربانی کے سب سے زیا دہ حقدار اس کے اعزا ء واقرباء ہو تے ہیں ، رمضان ہر مسلما ن کو ہر طر ح کے رشتو ں کی یا د تا زہ کرا تا ہے، خواہ وہ رشتے قر یب کے ہوں ، یا دور کے ، ہر مسلما ن کو چا ہیے کہ اس مبا رک ماہ میں اپنے رشتہ دا روں سے ربط و تعلق پیدا کرے ، ان کے سا تھ اظہا رِ محبت کر ے ، صلہ رحمی میں کوئی کمی نہ ہو نے دے ؛کیوں کہ رمضا ن تو بجا ئے خود نیکیو ں کا مو سمِ بہارہے، مزیدبرآں نزدیک اور دور ہر طرح کے رشتوں کاخیال: ’’ نورٌ علی نور‘‘ہے۔

لیکن جو لو گ صلہ رحمی کے بجا ئے قطع رحمی ، ربط وتعلق کے بجا ئے دوری واجتناب کا پہلو اپنا تے ہیں ، وہ اللہ کے نزدیک نا پسند یدہ اور غیر مقبو ل ہیں ، بڑے سخت لہجے میں اللہ ایسے لو گو ں پر لعنت بھیجتے ہیں ، فرما تے ہیں!: ’’فَہَلْ عَسَیْتُمْ إِنْ تُفْسِدُوْا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوْا أَرْحَامَکُمْ، أُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فَأَصَمَّہُمْ وَأَعْمٰی أَبْصَارَہُمْ‘‘ (محمد: ۲۲، ۲۳)یقیناقطع رحمی اور رشتہ دا روں سے دور ی انتہا ئی ناپسندیدہ حر کت ہے، بہت بڑا گنا ہ اور قا بل لعنت جرم ہے، جب کہ صلہ رحمی بہت بڑی نیکی اور اعما ل صا لحہ میں بلند مقا م کی حا مل ہے، ایک حکیم عر بی شا عر کا کہنا ہے کہ :میرے اور میرے رشتہ داروں کے آپسی تعلقا ت بہت مختلف ہیں ، ان کا حا ل یہ ہے کہ وہ میری عزت پامال کرتے ہیں اور میں ان کی عزت ونا مو س کا محا فظ اور پاسدا ر ہوں ، وہ میری شرافت و بزرگی کی عما رت منہدم کر تے ہیں اور میں ان کی شرافت وبزرگی کی عما رت تعمیر کرتا ہوں ، میںان کے تئیں کسی قسم کا کوئی کینہ اور حسد نہیں رکھتا ، جب کہ ان کا عمل اس کے بر خلا ف ہے، بھلا قوم کا سر دار وہ شخص کیسے بن سکتا ہے ، جس کے دل میں اپنی ہی قو م کے تئیں کینہ اور حسد بھرا ہو ا ہو ۔
قطع رحمی کر نے والوں کے تعلق سے اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم كا پیغام
قطع رحمی کر نے والوں کے تعلق سے اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت وا ضح الفا ظ میں یہ اعلا ن ہے، ’’لا یدخل الجنۃ قاطع رحم ‘‘یعنی ایسا شخص جنت میں داخل نہ ہو سکے گا ، عقل بھی کہتی ہے کہ ،اللہ کسی چیز کو اتنی اہمیت دیں کہ اس کو جوڑنے کا حکم دیں اورانسان اس کو تو ڑے، بھلا ایسا شخص کیو ں کر جنت میںداخل ہو گا ؟صلہ رحمی کی اہمیت واضح کر تے ہوئے اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم مزید ارشا د فرماتے ہیں!: ’’لَمَّا خَلَقَ اللّٰہُ الرَّحِمَ تَعَلَّقَتْ بِالْعَرْشِ فَقَالَتْ ہٰذَا مَقَامُ الْعَائِذِ بِکَ مِنَ الْقَطِعَۃِ قَالَ: اٰلاَ تَرْضَیْنَ أَنْ أَصِلَ مَنْ وَصَلَکِ وَأَقْطَعَ مَنْ قَطَعَکِ قَالَتْ: بَلٰی، قَالَ: فَذٰلِکَ لَکِ ‘‘یعنی اللہ نے رشتہ داری کوپیدا فرمانے کے بعد اس سے ایک سوال کیا : کہ کیا تجھے یہ نا پسند ہے کہ میں اس شخص سے ربط رکھوں جو تجھ سے ربط رکھے اور اس سے قطع تعلق کرو ں جوتجھ سے قطع تعلق کرے تو’’ رشتہ داری ‘‘نے اس پر رضامندی کا اظہا ر کیا ۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س آئے اور بو لے ، اے اللہ کے رسول ﷺ :میرے کچھ ایسے رشتہ دا رہیں کہ میں ان سے ربط و تعلق رکھنا چا ہتا ہوں؛ لیکن وہ مجھ سے قطع تعلق کرتے ہیں ، میں ان کے سا تھ حسن سلو ک کرتا ہوں وہ میرے سا تھ بد سلو کی کرتے ہیں، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوابا ًارشا د فرما یا !کہ اگرمعاملہ ایسا ہی ہے، توان کا یہ عمل خو د انہیں کے لیے باعث تکلیف ہو گا ، تم بے فکر رہو ، اللہ تمہا را معا ون ہے، چنا ں چہ ہر مسلمان کو چا ہیے کہ اس سلسلے میں وہ خود اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطا لعہ کرے ، کیا آپﷺ کے رشتہ داروںنے آپ کو گھر سے نہیں نکالا ؟آپ کو تکلیف نہیں پہنچا ئی ، مصیبتو ں اور اذیتو ں کے پہا ڑ نہیں تو ڑے ؟یا آپؐ سے جنگ نہیں کی ؟؛لیکن اللہ نے جب آپ کو ان پر غلبہ دیا ، آپ کو قو ت عطاء فرمائی تو آپؐنے یکلخت ان کے لیے معا فی کا اعلا ن کردیا، انتقا م وسزاکے متعلق آپ کی زبان مبارک سے ایک جملہ بھی صا در نہ ہوا۔
الغرض :صلہ رحمی :عمر میں اضا فہ اور بر کت کا سبب ہے، اس کی وجہ سے زندگی بڑی پا کیزہ ہو جا تی ہے؛نیز اجروثو اب میں کثرت بھی ہو تی ہے، صلہ رحمی کمال ِایمان ، خشیت الہی ،اور اطا عت ِقرآن کاجذبہ پیدا کر تی ہے، صلہ رحمی: ہر انسا ن کوبری جگہوں سے دوررکھتی ہے، دنیا وآخر ت میں رسو ائی ؛نیز انجام ِبد سے محفو ظ بھی رکھتی ہے۔
ایک حدیث میں ہے، اللہ کے رسو ل ارشا د فرماتے ہیں: ’’إِنَّ اللّٰہَ أَمَرَنِيْ أَنْ أَصِلَ مَنْ قَطَعْنِي، وَأَنْ أَعْفُوْا عَمَّنْ ظَلَمَنِيْ، وَأَنْ أُعْطِيَ مَنْ حَرَمَنِيْ ‘‘یعنی اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ قطع تعلق کرنے والو ں کے ساتھ ربط وتعلق رکھوں، ظالموں کو معا ف کروں اور نہ دینے والوں کے ساتھ عطا ء وبخشش کا معاملہ کروں‘‘انسا ن کی صلہ رحمی کے سب سے بڑے مظہر اس کے والدین ہیں ، ان کے ساتھ شفقت ومحبت سے پیش آنا ،ان کا اعزازواکرا م کرنا، ان کی اطاعت وفرماں بر داری کرنااور ان کے لیے دعا کر نا انسا ن پر واجب ہے، اسی لیے قرآن نے بڑے پیا رے اندا ز مین والدین کے متعلق اولا د کو یہ نصیحت کی ہے! ’’وَقَضٰی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوْا إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا، إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلاَہُمَا فَلاَ تَقُلْ لَہُمَا أُفٍّ وَلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْمًا وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّجْمَۃِ، وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِيْ صَغِیْرًا‘‘ (الإسرائ: ۲۳، ۲۴) ایک صحا بی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س آئے اور دریا فت کیا :اے اللہ کے رسول!میرے حسن سلو ک کا سب سے زیادہ حقدا ر کو ن ہے؟آپؐ نے فرما یا ! تمہا ری والدہ:انہوں نے پھرپوچھا کہ اس کے بعد کون ہے؟آپؐ نے فرما یا :تمہا ری والدہ : انہوں نے پھر پو چھا کہ اس کے بعد کو ن؟آپؐ نے پھر فرمایا :کہ تمہا ری والدہ انہوں نے پھر وہی سو ال کیا تو آپ نے فرمایا :تمہا ر ے والد‘‘۔
اسی طرح ذیل کا یہ واقعہ ہمارے لیے اپنے دا من میں عبرت وموعظت کا سا ما ن رکھتا ہے کہ ایک نا فر ما ن لڑکا تھا اس نے اپنے والدکے سا تھ ظلم کیا ، ان کی تو ہین کی ، ان کے احسا نا ت کا انکا ر کیا ، والد روپڑے اوراشعا ر میں اپنے بیٹے کوجوا ب دیا ؛میر ے بیٹے !تو بچہ تھا ، میں نے تجھے کھا نا کھلا یا ، تو بیما ر تھا میں نے تیرا علا ج کیا ،ایک رات کا واقعہ ہے! تو بیما ری سے تڑپ رہا تھا ، اور میں محض تیری بیماری کی وجہ سے پو ری را ت بے چین رہا ، مجھے نیند نہ آسکی ، آج تم عمر کے جس مر حلے میں ہو ، مجھے اپنے سا تھ تمہارے اس رویہ کی قطعی امید نہ تھی ، تم نے میرے احسا نا ت کا بدلہ سختی سے دیا ، یو ں معلوم ہو تا ہے کہ انعام واحسا ن کی باگ ڈو ر تمہارے ہی ہاتھ میں ہے ۔
روزہ: حسن سلو ک کاایک عظیم مظہر ہے، روزہ: صلہ رحمی کا درس دیتاہے،روزہ : عمدگی ٔاخلا ق کا با عث ہے، رحمت ومہربانی کے لیے معا ون ہے، محبت کی رسی ہے، روزہ رکھنے والے کی روح پاکیزہ ہو جا تی ہے، دل صا ف و شفا ف ہو جا تا ہے، احساسات وجذبا ت میں رقت اور فطرت وطبیعت میں نر می پیدا ہو تی ہے، صلہ رحمی کے حوالے سے قرآن وحدیث کی سا بقہ تعلیمات پر عمل کی ضرورت ہے، بطور خا ص رمضا ن کے اس مہینہ میں ہمیں اپنے قرابت داروںکے سا تھ شفقت ومحبت کامعاملہ کرناچاہیے، ان سے ملا قا ت بھی ہو نی چا ہیے، ان کے لیے دعا ئیں بھی کر نی چا ہیے !اللہ کبھی کسی کے نیک عمل کا اجر ضائع نہیں کرتا ، خدایا !ہمیں دین پر استقا مت نصیب فر ما !۔۔۔۔۔۔۔نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا پیرو بنا! ۔۔۔۔۔۔ صر اط مستقیم پر گامزن فرما! ۔۔۔۔۔۔آمین