Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, May 25, 2019

مسلمانوں پر چھایا ہوا خوف اور اس کا لائحہ عمل۔

از/عبید اللہ عبدا لرحمٰن قاسمی۔/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
    ٢٠١٩ الیکشن کے نتاٸج آنے کے بعد مسلمانوں میں برپا  اضطراب وبےچینی مایو سی کا زمر معلوم ہوتا ہے۔  اسکو سوچ کرمستقبل کی خوفناکی ،قتل وفساد کی دہشت ،ہجومی حملوں کی وحشت ، بلا سبب قید وبند کی وارداتوں،عزت وآبرو پر دست درازیوں لو جہاد اورگھر واپسی  کے سانحات  مسلم بچیوں کے ارتدادی واقعات کا مہیب ویاس آمیز منظر نامہ آنکھوں کے سامنے ناچنے لگتا ہے ۔ اورایسا لگتا ہے کہ گذشتہ پانچ سالوں میں مسلمانوں سے لیکر اسلامی احکامات پر ہاتھ ڈالنے  کی جو کوششیں ہوٸیں تھیں ان انکے بارآور ہونے کا وقت آچکا ہے۔

اور ایساہونے کی امکانی صورت سیاسی مفاد سے عملی مفادبالا تر ہے  اس لیۓ کہ آر ایس ایس برہمن واد ی راشٹرواد کا محاذ اور یہودکی فکری یلغار کا آمیزہ ہے۔ آر ایس ایس اپنے مقاصد کے لیۓ روزاول سےتگ ودو کر رہی ہے ۔اوراس کا ایک بڑا نصب العین  اپنے صد سالہ جشن کو ملکی حکمرانی کے ساتھ منانا ہے سو وہ ٢٠٢٣ ع میں اپنے خواب کو تعبیری شکل دینے میں پر عزم ہے ۔
    ان تمام حقاٸق کے باوجود مسلمانوں کا خدشات اور اندیشے سے بڑھکر مایوس ہوجانا یہ خدا بیزاری کا عندیہ ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلم سماج پر پہلی بار کوٸی مصیبت آٸی ہو  ۔
قرآن وسیرت اور اسلامی تاریخ ایسے واقعات بھری پڑی ہیں۔ موسی علیہ السلام اور فرعون کی پوری داستان ,رسول اللہ ﷺ  اور صحابہ کرام کا مکی دور، ہجرت کا دلخراش واقعہ، بدروخندق کی جانکی کا عالم  پھر سقوطِ بغداد وغرناطہ  سقوط ِ خلافت عثمانیہ اور آخر میں  ہندوستان سے نو سو سالہ مسلمانوں کی حکمرانی کا خاتمہ  یہ سب ہمارے اوپر آنے والےمصاٸب والام سے بڑھکر ہیں ۔ لیکن ان واقعات کے نتاٸج  ہرایک سے جداگانہ ہیں ۔مکی دورمیں  اسلام پر دوام و استقامت مقصد تھا پھر ان سے نبرد آزماٸی کی خاطر ہجرت کے بعد آپ ﷺ نے ایک لاٸحہ عمل تیار کیا  مہاجرین وانصار کے مابین مواخات کراٸی اوس و خزرج کی  قومی عصبیت کو ایک اکاٸی میں سمو دیا  انکا ایک ایک سردار طے فرمایا پھر  مدینہ کو خانگی جنگ سے بچانے اور اسکی حفاظت کے تٸیں  یہودہوں سے کٸی غیر جانبدارانہ معاھدے کیۓ۔  سب کی صلاح وفلاح کے لیۓ  شوراٸی نظام قاٸم کیا اور مسلمانوں کی تجارتی استحکام اور مدنی ریاست کی سرحدوں کی حفاظت کے پیشِ نظر الگ الگ ٹکڑیاں تجویز کیں ۔ بدر وحنین کے پر آشوب ماحول میں حالات کے تناظر میں نیۓ نیۓ لاٸحہ عمل کے مفید تجربے  فرماۓ  جس کے نتیجہ میں اسلامی پوزیشن مکہ پھر ویاں سے قیصر وکسری کے ایوانوں  سے ہوتے ہوۓ پوری دنیاتک پہنچ گٸ۔
الغرض آپ ﷺ اور صحا بہ کرام نے حالات کی سنگیی پر صبر کرتے ہوۓ  لاٸحہ عمل اور اقدام عمل طے کیا نتیجة وہاں کے حالات نہ صرف سازگار ہوۓ بلکہ وہاں کی باگ وڈوربھی انکے ہاتھوں میں آگیٸ۔
        اس تناظر میں  امت مسلمہ کو در پیش مصاٸب میں جن قو موں نے لاٸحہ عمل اور دفاع کی اقدامی شکلوں پر  عمل کیا انہوں نے مصیبتوں کارخ موڑ دیا اور جن قوموں نے  اپنی ساکھ کو نہیں سدھارا وہ ذلت ونکبت کے ساتھ آخرت  کوسدھار گیۓ۔سقوط بغدادوغرناطہ کی ناکامی کی یہی وجہ ہے کہ وہ دوسروں کی امداد کے بھکاری اور  تقدیر پر عامل رہے۔
بہرحال خلافت عثمانیہ غیروں کی عیاری اور اپنوں کی سیاسی لالچ کے بنا ٕپر مسلمانوں کو شکست فاش ملی مگر جب سے تر ک دانا نے اسلامی سیاسی شعور کو اپنایا وہا ں اسلام اور مسلمان  پھر سےابھر رہے ہیں ۔
ھندوستان کی آزادی کے بعد سے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑنے  والی  قیامت خیزبلاٶں  کے دفاع میں امت نے کوٸی قابل ستاٸش اجتماعی اقدام نہیں کیا ۔ انھوں نے پارٹیوں کا ساتھ حتی کہ بنیادیں رکھیں لیکن اپنے مفاد سے اٹھ کر امت کے تٸیں نرم رویہ اختیار کر گیۓ الا یہ کہ چند لوگوں کا استثنا ٕ کیا جا سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے حالات ابتر سے بد تر ہوتے چلے گیۓ۔اس لیۓ اب مسلمانوں کو اپنا لاٸحہ ٕ عمل  مدنی دستور کے مطابق طے کرنا ہوگا۔ جن کی روشنی میں امت کا وقار و دھاک بحال ہوگا۔
جن کی تر یب حسب ذیل ہے۔
١۔ اسلام پر دوام واستقامت  اس  تعلق سے کوٸی مصالحت  ومفاہمت برداشت نہیں ۔
٢۔ مسلمانوں کامکمل اتحاد  اور ایک دوسرےکا کلی تعاون   جس کا نکتہ إرتکاز صرف اور صرف  مذہب اسلام ہوگا اس تعلق سے کسی بھی مسلک کی امتیازی حیثیت اتحادکے متصادم۔ہے البتہ  اوس وخزرج کی طرح اپنے اپنے مساٸل کاحل اپنے قاٸدین اورعلما ٕ سے کراٸیں۔ اورعلما ٕ صرف اپنوں کو مسٸلہ بتاٸیں دوسروں پر نہ تھونپیں ۔
٣۔ ملت کے تٸیں شوارٸی نظام ہو جس میں سب قوموں کی نماٸندگی ہو۔
٤۔ جب تک کمزور پوزیشن میں ہو تب تک کسی بھی پارٹی یاقوم سے غیرجانب دارانہ معاہدے کیۓ جاٸیں جیسا کہ آپ نے یہودیوں سے کیا ۔ لیکن اپنی پوزیشن کو استکام دینے کی کوشش جاری رکھیں ۔
٥۔ ہر ایک کام کےلیۓ الگ الگ ٹکڑیاں ہو ں جنکادار ومدار صلاحیت واستعداد پر موقوف ہوگا۔
٦۔جیسے  جیسےحالات میں تبدیلی ہو  ویسے ویسے  لاٸحہ عمل میں بھی تنوع ہو ایک کی طریقہ پر کار بندی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
٧۔یہ ضروری نہیں کہ ہر جگہ جیت ہماری ہوگی   پسپاٸی بھی ہمارا مقدر ہے لیکن ناکامی کے اسباب پر غور وخوض ناگزیر ہے۔۔غزوہ احد اسکی مثال ہے۔
٨۔ سب سے بڑی بات مسلمانوں میں ایک ایسی جماعت کھڑی ہوگی جس کے نظریات اسلام سے متصادم ہونگے  وہ اسلامی اور تعلیمی شکل میں ہوگی مگر وہ مدینہ کے منافق کی طرح  دشمن اسلام سےمربوط ہوگی ۔
٩۔ اس لیۓ اسکا حل نہ چشم پوشی سے کیا جاٸیگا اور نہ ہی  علی الاعلان اس کے باٸیکاٹ کرنے سےہوگا ۔ان کے نظریات کی کاٹ تلاش کی جاٸیگی۔
١٠۔  کچھ بھی ہوجاۓ اسلام کی خلاف ورزی  ناقابل تسلیم ہوگی ۔بے نیتی اور بدنیتی امت کو لے ڈوبے گی ۔  ہما را امیر سب کا نماٸندہ ہوگا  اور اس کے اندرسب کو ساتھ لیکر چلنے کی سننے کی اور صبر وبرداست کرنے کی  صلاحیت ہوناناگزی ہے۔    یہ چند تجاویز ہیں جن کے ذریعہ امت ان حالات سے نکل کر  اپنامقدر سنوار سکتی ہے۔ ان شإ اللہ
عبیداللہ عبدالرحمان قاسمی