Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, May 24, 2019

انیسواں روزہ۔۔۔انیسواں سبق۔۔۔۔۔رمضان المبارک کے موقع پر سلسلے وار تحریر۔

انیسواں روزہ انیسواں سبق:⇙صدائے وقت/ ماخوذ عاصم طاہر اعظمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
انیسواں سبق۔۔۔۔۔بیجا اسراف سے اجتناب و معافی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  
اسرا ف اسلا م میں ممنو ع ہے ، اس کے با وجو د بہت سی قو میں اس کاشکا ر ہو ئیں اور آج ایسے لو گو ں کی کمی نہیں جن کی کو ئی بھی نقل وحرکت اسرا ف کے بغیر مکمل نہیں ہو تی ہے، اللہ رب العزت اسرا ف سے منع کر تے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ’’وَلاَ تُسْرِفُوْا إِنَّہٗ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ‘‘ (الأعراف: ۳۱) اسراف ان لو گو ں کا کا م ہو تا ہے، جن کے نزدیک خدا ئی انعا مات کا اعزا ز و اکرام نہیںہو تا ، اللہ کی نعمتیں جن کے یہاں بےحیثیت ہوتی ہیں،اسی لیےفرمایا: ’’وَلاَ تُبَذِّرُ تَبْذِیْرًا، إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا إِخْوَانَ الشَّیَاطِیْنَ وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا‘‘ (الاسرائ: ۲۶، ۲۷) آج امت میں اسراف کی کثر ت کا یہ عا لم ہے کہ لو گ رمضا ن جیسے مقدس مہینہ میں اسراف کو اسراف نہیں بلکہ کا رخیر سمجھتے ہیں، ان کا ذہن اس جا نب منتقل ہی نہیں ہوتا، ہمارا موجو دہ معا شرہ اسراف کی مختلف شکلو ں کا شکا ر ہے، طرح طرح سے لوگ اسراف کرتے ہیں، ذیل میں اس کی کچھ شکلیں مختصرا ً نقل کی جا رہی ہیں تاکہ ہما رے لیے اس سے بچنا آسا ن ہوجا ئے ۔

اسرا ف:
کی ایک شکل تو یہ ہے کہ انسا ن ضرورت سے زیا دہ کھانا کھا بیٹھے، بعض لوگ زیا دہ کھا نے پینے کے عا دی ہو تے ہیں ، ایسے لوگ رمضا ن میں افطاری اورسحری میں قسم قسم کے لذیذ کھا نو ں کا اہتما م کر تے ہیں، طرُفہ تو یہ کہ دستر خو ان پر مو جو د سا ری چیزیں ضرورت سے زائد ہو تی ہیں ، نتیجتاً وہ بچتی ہیں ، پھر یو ں ہی پھینک دی جا تی ہیں ، ایسے ما لدارو ںاور کھا نے کے شو قین لو گو ں کو اسرا ف سے بچنا از حد ضروری ہے، مسلمانوں میں غریبوں ،مسکینوں اور ضرورت مندوں کی کمی نہیں ، ہو نا یہ چا ہیے کہ ضرورت سے زا ئد چیزیں انہیں غر یبوںکو دے دی جا ئیں  انفا ق ہمیشہ کثر ت کا سبب ہو تا ہے،یہ نیک عمل آخر ت کے لیے ذخیر ہ بنے گا ، اور اس وقت اس طر ح کا م آئے گا کہ انسا ن کواحسا س بھی نہ ہو سکے گا ،اللہ کو خرچ کرنے والے بندے بہت پسند ہیں: ’’وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَیَتِیْمًا وأَسِیْرًا، إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ، لاَ نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَائً وَلاَ شُکُوْرًا، إِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا‘‘ (الانسان: ۸، ۹، ۱۰) اس کے بر خلا ف خر چ نہ کر نے والوں کے متعلق حدیث میں وارد ہے کہ اللہ عزوجل روز محشر میں ان سے سوال کر یں گے کہ اے انسا ن !مجھے بھو ک لگی ؛لیکن تو نے مجھے کھانا نہ کھلا یا ، بندہ کہے گا ،خدایا !میں آپ کو کیسے کھلا تا ،آپ تو دنیا جہا ن کے پالنہا ر ہیں ، اللہ تعا لی فرمائیں گے !کیا تمہیں نہیں معلو م کہ میر ا فلا ں بندہ بھوکا تھا تم نے اس کو کھانا نہ دیا ، اگر تم اس کو کھلا تے تو آج میرے پاس تمہیں اس کا اجر ملتا۔
ضرورت سے زائد بطو ر خا ص دن میں سو نا بھی اسراف میں دا خل ہے ، بعض روزہ دار دن میں غفلت سے کام لیتے ہیں اور خو ب سو تے ہیں ، تعجب تو اس پر ہو تا ہے کہ رات کو بلا مقصد جا گتے ہیں ، ادھر ادھر کی گفتگو اور بکو اس میں رات ضا ئع کر تے ہیں، بعضے تو حر ام و مکروہ کی پر وا ہ کیے بغیر ایسے نا شا ئستہ کا م کر تے ہیں جو اللہ کی رضامندی کے بجا ئے نا راضگی کا سبب بنتے ہیں۔
عیدالفطر کی تیاری میں ضر ورت سے زا ئداہتمام کر نا ، کپڑوں ، کھیل کو د اور اِدھر اُدھر کے پروگراموں میں خوب پیسے خر چ کرنا بھی اسر اف کی ایک شکل ہے، کچھ لو گوں کا حا ل تو یہ ہوتا ہے کہ اس طرح کے فضول اور لا یعنی کاموںمیں خو ب دلچسپی لیتے ہیں، جب کہ خیر کے کا موں سے دور بھاگتے ہیں ، جن لو گوں کو اللہ نے مال ودولت سے نو ازا ہے، انہیں اپنے معا شر ے پر بھی نظر رکھنی چا ہیے ، ہما رے شہر اور گا ئوں میں یتیم بھی ہیں، پڑو س میں غریب اورمسکین بھی ہیں ، ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا کبھی کسی بھو کے کو کھانا کھلا تے ہیں ؟ضرورت مند کو کپڑے پہنا تے ہیں؟اللہ کے گھرکی تعمیر میں دلچسپی لیتے ہیں ؟قطع تعلق کر نے والو ں سے کبھی رابطہ کر نے کی کو شش کر تے ہیں ؟اور کیا کبھی کسی مصیبت زدہ کی مصیبت دور کرتے ہیں ؟ہم میں سے ہر ایک کو اپنی گریبا ن میں جھانک کر دیکھنے کی ضرورت ہے، آج روزداروں کا عالم یہ ہے کہ اِدھر ُادھر کی ملا قا ت میں خوب وقت ضائع کرتے ہیں ، بلا کسی مصلحت اور منفعت کے بکثر ت مجلسیں لگاتے ہیں، ایک دوسر ے سے ملا قا تیں کر تے ہیں، یاد رکھیں !کہ یہ بھی اسراف میں دا خل ہے، کیوں اس سے تو محض عمر کے قیمتی لمحا ت ضا ئع ہو تے ہیں ، رمضا ن المبا ر ک کی مبارک ساعتیں غفلت کا شکا ر ہو کر بے سو د ہو جا تی ہیں،جب کہ نتیجہ بجز حسر ت وندامت کے کچھ اور نہیں ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ جب ہو ش میں آئیں تو’’یَا حَسْرَتَنَا عَلٰی مَا فَرَّطْنَا فِیْہَا ‘‘ہما را وظیفہ بن چکا ہو۔
اسرا ف:
کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ انسا ن کھیل کو د میں سکو ن و اطمینا ن محسوس کرے ، ریا ضی کھیلو ں اور گیند وغیر ہ میں دلچسپی لے ، عبا دت ، ذکرو تلا وت ، حصو ل ِعلم، دعو ت و تبلیغ ، امر با لمعرو ف اور نہی عن المنکر کے اوقات ، سیر و تفر یح میں ضا ئع کر دے ، بعض لو گ تو ضیا ع وقت کے ایسے عا دی ہو جا تے ہیں کہ وقت کے ختم ہونے کا انہیں احسا س بھی نہیں ہو پا تا ، ان کی صو رت حال دیکھ کر تو یہ احسا س ہو تا ہے کہ قبر میں پہو نچ کر ہی انہیں ہو ش آئے گا ،اللہ ہم سب کی حفا ظت فرما ئے ۔آمین
اہل ایمان یا د رکھیں!
کہ اگر تقو ی و خشیت کا تو شہ ہمرا ہ نہ لیا اور مو ت کے بعد ایسے شخص سے ملا قا ت ہو ئیہے، جس کے ہاتھ میں خوف وخشیت اور خلو ص وللہیت کا زاد را ہ ہو تو اس وقت اس شخص پر خو ب رشک آئے گا اور ندامت وشر مندگی بھی ہو گی کہ کا ش ہم بھی اسی طرح یہا ں آنے سے پہلے ، آنے کی تیا ر ی کر لیتے ، ہم تو یہا ں بغیر تیا ر ی کے آگئے ۔
لو گو ں کے احوا ل واطوا ر کے پیشِ نظر اسرا ف کی شکلیں بھی مختلف ہو تی ہیں ، کچھ لو گ معا صی اور گناہوں میں اسر ا ف کر تے ہیں، یہ اسر ا ف با عث ہلا کت ؛بلکہ بہت زیا دہ مضر ہے اور اس سے آگے بڑھ کر یہ اسرا ف کی سب سے بد تر ین قسم ہے۔
کچھ لو گ وقت میں اسرا ف سے کام لیتے ہیں،اس کو اس طرح اڑاتے اور بکھیرتے ہیں کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلتا ، میدانِ محشر میں سب سے زیا دہ افسو س انہیں کو ہو گا ۔
کچھ لو گو ں کا یہ عالم ہے کہ انہیں کھانے ، پینے اور لبا س میں اسراف سے دلچسپی ہے ، جب کہ کچھ لو گ مبا ح کھیلو ں اور تفریح کے کا موں میں اسراف کرتے ہیں ، اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ حقیقی معنو ں میں ان کی عمریں ضا ئع ہو رہی ہیں ، بلکہ اپنا شیش محل اپنے ہاتھو ں سے خو د گرا رہے ہیں ، ’’اللہم لا تجعلنا منہم ‘‘۔
رمضان المبا رک کامہینہ ایک ٹریننگ کورس کی حیثیت رکھتاہے ، اگر انسان اس مہینہ میں کسی کا ر خیر کا عا دی ہو گیا تو ان شا ء اللہ بقیہ مہینوں میں بھی وہ اس سے نفع اٹھائے گا ، وہ چیز اس کی زندگی کا رخ تبدیل کر نے کے لیے کافی ہوگی، اگر اسراف کے ان پہلو ٔوںپر توجہ دیتے ہیں تو ہم خود دوسروں کے لیے نفع بخش ثا بت ہو ں گے اور دوسر ے بھی اپنی قو م اور اپنے پڑوسیوں کے لیے ۔
دعاء ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں ہر معا ملہ میں میانہ روی کاحا مل بنائے۔  آمین