Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, August 6, 2019

مجدد تھانوی کے دیار میں۔۔۔۔۔۔۔۔قسط 2.

*مجدد تھانویؒ کے دیار میں*
قسط ⑵
✏ فضیل احمد ناصری/صداٸے وقت۔
========================
*خانقاہِ امدادیہ اشرفیہ کے اندرونی مناظر*
....................................................
ہم گاڑی سے اتر کر ایک بڑے کمرے میں گئے۔ یہ مدرسہ امداد العلوم خانقاہِ امدادیہ اشرفیہ کا دارالاہتمام تھا۔ جدھر ہماری پشت تھی، اس طرف ایک بڑا قدِ آدم اشتہار تھا، جس پر نہایت جلی قلم میں یہ عبارت درج تھی: *ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ، تھانہ بھون* ۔ کمرے کے اندر سے ہی ایک زینہ اوپر کو جا رہا تھا، وہاں گئے تو ایک بڑی سی لائبریری میرے سامنے تھی، 

جس میں مجدد تھانویؒ کی نادر و نایاب تالیفات سمیت دستیاب تصنیفات بھی تھیں۔ ایک ایک کتاب کی پشت پر سرسری نظر ڈالی تو مجدد مرحوم کی کئی ایسی کتابیں تازہ طبع شدہ سامنے آئیں جن کا نام بھی پہلے میرے کان میں نہیں پڑا تھا، بلکہ شاید بہت سے اہلِ ذوق بھی ان سے آگاہ نہ ہوں۔ تھانوی مرحوم کی کتب کے علاوہ دیگر قدیم ترین مصنفین کی بھی کتابیں کئی کئی جلدوں میں یہاں جلوہ افروز تھیں۔ کتابوں کی زیارت کر کے نیچے اترا اور کمرے کی دیواروں کو دیکھا تو چاروں طرف تھانوی عہد کی یادگار تصویریں آویزاں تھیں۔ ان تصویروں کی اصل آج بھی محفوظ ہے، جیسا کہ آئندہ سطور میں پیش کروں گا۔ ان کے علاوہ خوفِ خدا پیدا کرنے والے اشعار، زندگی کو خوش گوار بنانے والی باتیں اور نفس کی رذالت کو ختم کرنے والے ملفوظات بھی تھے۔ عموماً مجدد تھانویؒ کے ملفوظات گز بھر سائز کے ہورڈنگ میں لگے ہوئے تھے۔ ایک اشتہار کا عنوان اس طرح تھا:
*ہر مسلمان کو رات دن اس طرح رہنا چاہیے*
اس کے بعد حضرت کے 40 قیمتی ملفوظات تھے، جن پر عمل ایک مسلمان کو کامل مسلمان بنانے میں مدد دیتا ہے ۔ ان میں سے دس ملفوظ درج ذیل ہیں:


*① ضرورت کا علمِ دین حاصل کرے، خواہ کتاب پڑھ کر، یا عالموں سے پوچھ پاچھ کر۔ ② سب گناہوں سے بچے۔ ③ اگر کوئی گناہ ہو جائے تو فوراً توبہ کرے۔ ④ مال کی محبت اور نام کی خواہش نہ رکھے، نہ بہت اچھے کھانے کپڑے کی فکر میں رہے ۔ ⑤ بغیر سخت ضرورت کے سفر نہ کرے، سفر میں بہت سی باتیں بے احتیاطی کی ہوتی ہیں۔ ⑥ زیادہ وقت تنہائی میں رہے۔ ⑦ اگر اوروں سے ملنا جلنا پڑے تو سب سے عاجز ہو کر رہے، سب کی خدمت کرے، بڑائی نہ جتلائے۔ ⑧ امیروں سے بہت ہی کم ملے۔ ⑨ بد دین آدمی سے دور بھاگے۔ (10) خدا کی تلاش میں بے چین رہے* ۔
دیوار کے ایک حصے میں حضرت مولانا حکیم محمد اختر پاکستانی کا یہ شعر بھی نہایت واضح عبارت میں فریم شدہ تھا:
*اہلِ دل کے دل سے نکلے آہ آہ*
*بس وہی اختر ہے اصلی خانقاہ*
سبق آموز دیواروں پر نظر دوڑانے کا سلسلہ جاری تھا، میں اس کمرے سے باہر نکلا تو برآمدہ کی دیواریں بھی کسی عارفِ رومیؒ سے کم نہ تھیں۔ یہاں بھی زریں اقوال اور سنہری باتیں ملیں۔ ایک بڑے اشتہار پر جا کر میری نظر جم گئی۔ یہ مجدد تھانوی کے خلیفۂ اجل حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندیؓ کے اشعار تھے، جو اسی خانقاہ کی شان میں الفاظ کا روپ لیے ہوئے تھے:

کبھی یہ جگہ منزلِ اولیا تھی
فرشتوں کی محفل تھی، بزمِ ہدیٰ تھی
یہ مسکن تھا اک دن حکیمِ امم کا
ہوا اس کی ہر اک مرض کی دوا تھی
یہ چھوٹی سی بستی، یہ چھوٹی سی مسجد
یہ چھوٹی سی مجلس خدا جانے کیا تھی
منور ہوا جس سے عالم دوبارہ
مجدد کی مجلس تھی، نورِ خدا تھی
میں نے یہ اشعار پڑھے تو مجھ پر ایک بجلی سی کوند گئی۔ میں ماضیِ مرحوم کے جلوؤں میں کھو گیا۔ یہ چھوٹی سی جگہ واقعی بڑی محیر العقول اور عجوبۂ روزگار تھی۔ عالمِ تصور میں میں ایسا کھویا کہ بس کھو ہی گیا۔ مجھے لگا کہ اس خانقاہ سے وابستہ سارے اکابر یہاں اس وقت جمع ہیں۔ مفتی الہی بخش کاندھلوی بھی ہیں، جنہوں نے مثنوی کی تکمیل یہیں کی۔ کشاف اصطلاحات الفنون کے مصنف قاضی محمد اعلیٰ بھی تشریف فرما ہیں۔ حافظ ضامن شہید اور حضرت محدث تھانوی بھی یہیں رونق افروز ہیں۔ غرض ستاروں کی ایک انجمن یہاں خیمہ زن ہے اور مجدد تھانوی ان سب میں نمایاں اور سب پر فائق۔ مجھے اپنے پردادا حضرت مولانا شاہ منور علی دربھنگویؒ بھی نظر آئے، جنہوں نے کئی دہائیاں سید الطائفہ حاجی امداداللہ مہاجر مکی کے ہاتھوں اسی میکدے میں جامِ معرفت نوش کیا اور بارگاہِ امدادی سے انہیں خلافت کا جوڑا عطا ہوا۔ مجھے میرے دادا مفتی محمود احمد ناصریؒ تلمیذِ علامہ کشمیریؒ کے قدموں کی آہٹ بھی سنائی دی، جو گاہے بگاہے مجدد تھانویؒ کی مجلسوں سے باریابی کے لیے یہاں آتے رہتے تھے ۔ عالمِ تصور سے نکلا تو مجھے لگا کہ یہ سارے اکابر یہیں کہیں چھپے ہیں اور اپنے اوراد و وظائف کا شغل فرما رہے ہیں۔

*مجدد تھانویؒ کا عکسِ تحریر*
دیوار کے ایک حصے پر مجدد تھانویؒ کا عکسِ تحریر بھی تھا، جس کے اخیر میں دستخط کے ساتھ 1358ھ کا سن بھی درج تھا:
*ضروری اطلاع: اس احتمال پر کہ شاید کوئی صاحب گزشتہ رمضانوں کے معمول پر قیاس کر کے اس رمضان میں بھی ڈاک سے مکاتبت کرنے لگیں، اعلان کرتا ہوں کہ اب مجھ کو اس کا بھی تحمل نہیں، اس لیے ایسا ارادہ نہ کریں، وطن ہونچ کر حسبِ معمولِ سابق عمل در آمد کریں، اسی طرح صبح کی مجلس بھی موقوف رہے گی، جیسا کہ گزشتہ رمضان میں ایسا ہی ہوا تھا* ۔
یہ تو عکسِ تحریر تھا۔ مولانا سید حذیفہ نجم تھانوی نے مجھے اصل تحریر بھی دکھائی، میں اسے دیر تک دیکھتا رہا اور اس کے انوار و برکات سے مستفیض ہوتا رہا۔ خط نہایت صاف اور روشن تھا۔ اگرچہ مرورِ زمانہ نے اسے بھی کسی حد تک دھندلا دیا تھا، مگر اب بھی اسے پڑھا جا سکتا ہے۔ خانقاہ کے ذمے داروں نے اس کی حفاظت کے لیے اب پنی چڑھا دی ہے۔
[اگلی قسط میں پڑھیں: تاریخی حجروں کی زیارت وغیرہ ]