Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, August 9, 2019

مجدد تھانوی کے دیار میں۔۔۔۔۔۔۔قسط 4.

✏ فضیل احمد ناصری/صداٸے وقت۔
=========================
*دوسرے تاریخی حجروں کی زیارت*
محدث تھانویؒ کی نشست گاہ اور مجدد تھانویؒ کے تعمیر کردہ پانچ کمروں کی زیارت کر کے ہم شمال کی طرف بڑھے۔ یہاں دالان میں داخل ہوتے ہی بالکل دہانے پر ایک قبر نظر آئی، جس پر بہت معمولی جالی تھی، جس سے سمجھ میں آ رہا تھا کہ یہ قبر ہے۔ مولانا سید حذیفہ نجم صاحب نے بتایا کہ یہ مشہور علمی کتاب *کشافُ اصطلاحات الفنون* کے مصنف قاضی محمد اعلیٰ صاحب کا مدفن ہے، جو مفتی الہی بخش کاندھلویؒ کے ہم عصر تھے۔ ان کے حالات مجھے معلوم نہ ہو سکے۔ مغرب کی طرف تھوڑا آگے بڑھے تو ایک حجرے پر لکھا تھا: *خلوت گاہ حضرت حافظ محمد ضامن شہید تھانویؒ* ۔ میری مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ یہ وہ بزرگ ہیں جن کے حالات طالب علمی کے دور سے ہی پڑھتا اور سنتا آ رہا تھا ۔ یہ کاروانِ حریت کے مشہور ترین رکن تھے۔ حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ، شیخ محمد محدث تھانویؒ کے خواجہ تاش اور  میاں جی نور محمد جھنجھانویؒ کے خلیفۂ 
اجل ۔ تھانہ بھون کے ہی تھے۔ 

اپنے دونوں پیر بھائیوں کے ساتھ مسجد پیر محمد میں خیمہ زن۔ عمر میں ان سے دو چار سال بڑے۔ سنِ پیدائش محفوظ نہیں ۔ اندازہ یہی ہے کہ 1225ھ سے 1230ھ کے درمیان کی ولادت ہے۔ سرفروش مجاہد تھے۔ 1857 عیسوی میں ہوئی شاملی کی تاریخی جنگ میں خوب دادِ شجاعت دی۔ مجاہدین کے ساتھ انگریزوں کو ایسا دوڑایا کہ تحصیل کے قلعے میں بند ہو گئے اور کاروانِ آزادی میدان میں ان کا منتظر تھا۔ اس دوران دشمن کی تابڑ توڑ گولیوں سے مسلمانوں کو جانوں کا کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ حافظ ضامن صاحب آگے بڑھے۔ کسی طرح دروازہ کھولا اور قلعے کے اندر گھس گئے۔ پھر تو انگریزوں پر وہ وار کئے کہ سیکڑوں کو جہنم رسید کر دیا۔
شہادت کا اندازہ انہیں چند ماہ پہلے ہی ہو چکا تھا۔ ایک دن اپنے مرید حکیم ضیاء الدین رامپوریؒ سے کہنے لگے:
*دیکھو! حوریں پیالے لیے مکانوں کے منڈیروں پر کھڑی ہیں، جس کا جی چاہے لے لے* ۔ حضرت گنگوہیؒ کو وصیت تھی کہ میری وفات کے وقت موجود رہیں۔

*شہادت سے ایک ہفتہ قبل*
حافظ ضامن صاحب کو اپنی شہادت کا اس درجہ یقین تھا کہ شہادت سے آٹھ دس روز قبل اپنے مرید حکیم ضیاء الدین رامپوری کو ملاقات کے لیے بلایا تو اپنے قلم سے جو خط لکھا، اس کے الفاظ یہ تھے:
*بعدِ سلام واضح رائے ہو کہ تمہاری تحریر کے موافق دل میرا متمنئ ملاقات ہوا۔ لازم کہ بفور مطالعہ اس خط کے اپنے تئیں یہاں پہونچاؤ، ایسا نہ ہو کہ توقف میں حسرت ملاقات کی دل میں رہ جائے ۔ عاقل کو اشارہ کافی ہے۔ باقی حال بر وقت بیان کیا جائے گا* (مونسِ مہجوراں، بہ حوالہ شہیدِ راہِ حق، ص 11)
*شہادت کی تیاری*
چناں چہ جہادِ شاملی میں حصہ لیا تو اس شان سے گئے گویا لڑکی لانے جا رہے ہوں۔ پوری طرح بن ٹھن کر۔ شہیدِ راہِ حق میں اسی مونسِ مہجوراں کے حوالے سے لکھا ہے کہ:
*جس وقت ارادہ معرکہ کا کیا، غسل فرما کر سب لباس نیا زیبِ بدن شریف فرمایا اور یہ لباس بہت روز پیش تر سے رکھ چھوڑا تھا، حالانکہ ان کے بعد کے کپڑے بنائے ہوئے استعمال فرمائے اور وہ لباس اس دن کام آیا۔ نعلین شریفین کچھ بوسیدہ نہ تھیں، مگر وہ بھی نئی منگوا کر زیبِ پا کیں ۔ اور یہاں تلک سامانِ لباس وغیرہ کا اہتمام کیا تھا کہ خوشبو مَلی اور سرمہ لگایا۔ دستار پیچ دار۔ سپاہیانہ وضع۔ شمشیر لے کر شربتِ دیدار کی تمنا میں علَمِ جواں مردی اٹھا کر مردانہ اور مشتاقانہ بر سرِ معرکہ جاں بحق تسلیم فرمائی۔ جیسا کہ کسی نے کہا ہے:
در کوئے تو عاشقاں چناں جاں بہ دہند
کانجا ملک الموت نہ گنجد ہرگز
*حافظ صاحب کی شہادت*
اس شان سے میدانِ کارزار میں صرف وہی جا سکتا ہے جس کا دل نورِ ایمان سے معمور، شہادت کے لیے بے چین اور جنت کی طلب میں بے قرار ہو۔ 24 محرم 1274ھ مطابق 14 ستمبر 1857 کی تاریخ تھی۔ قلعے میں گھس کر انگریزوں پر صف شکن حملے کیے اور ان کے کشتوں کے پشتے لگائے تو فرنگیوں نے بھی گولیاں برسانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی، ایک گولی ان کی ناف کے نیچے لگی ۔ خون کا فوارہ بہہ پڑا۔ پورا کپڑا لہولہان ۔ حضرت گنگوہیؒ حسبِ وصیت موجود تھے، انہوں نے لپک کر کاندھے پر اٹھا لیا اور قریب کی مسجد میں لے آئے۔ ان کا سر اپنے زانو پر رکھا اور خود اشک بار آنکھوں کے ساتھ تلاوتِ قرآن میں مشغول ہو گئے۔ کچھ ہی پل میں یہ جنتی دولہا بھی حوروں کی طرف جا چکا تھا۔
شہادت کے بعد حضرت گنگوہیؒ ان کا جسدِ خاکی اٹھا کر جنگل کے راستے شاملی سے تھانہ بھون کی طرف چلے اور 18 کلومیٹر کا فاصلہ پیدل ہی طے کیا۔ پھر راتوں رات انہیں لحد کے سپرد کر دیا۔
شہادت کے وقت ان کی عمر 40 سے کچھ متجاوز تھی۔ اس الم ناک شہادت پر مرزا غالب دہلوی کے شاگرد مولوی عبدالسمیع بیدل رامپوری نے جو اشعار لکھے ہیں، انہیں پڑھ کر شہادت کا یہ غم آج بھی تازہ ہو جاتا ہے:
شہید ہو گئے ضامن علیِ پاک نہاد
جواب جن کا نہ تھا کوئی نسلِ آدم میں
ہوئے شہید، مگر اک تماشہ دکھلا کر
لہولہان کیا دشمنوں کو اک دم میں
نہ چھوڑی نام کو گردن کہیں نصاریٰ کی
گلو بریدہ ہے سکہ بھی ان کا درہم میں
جو مارے تیر تو لگتے ہی جا لیا گوشہ
ہزاروں کافرِ بد کیش نے جہنم میں
خدا کو پیارے ہوئے، آخرش شہید ہوئے
نہ دل میں تاب ہے باقی، نہ کچھ تواں ہم میں
جو پوچھا سنِ شہادت، کہا فلک نے کہ ہائے
ہوئے شہید وہ شاہِ جری محرم میں
حافظ ضامن صاحب نصابی عالم نہ تھے، مگر علمِ لدنی سے خوب مالا مال ۔ ان کے حجرے میں داخل ہوا تو نہایت چھوٹا تھا، بالکل قبر کے سائز کا۔ یہی ان کی خلوت گاہ تھی اور یہی معرفت کدہ۔ فی الواقع بڑے خدا رسیدہ تھے، مگر ظاہرِ حال سے کسی کو پتہ لگنے نہ دیتے۔ اسی شہیدِ راہِ حق میں ہے:
*اخفائے حال اور ظرافت کا مادہ تھا۔ خانقاہ تھانہ بھون، جو مسجد پیر محمد میں واقع ہے، اور ایک وقت میں وہ دکانِ معرفت کہلاتی تھی، وہاں حضرت حاجی صاحب، حضرت حافظ صاحب اور حضرت مولانا شیخ محمد تھانویؒ یہ تینوں بزرگ ایک وقت میں جمع رہتے تھے۔ حافظ صاحب شہید کو حقہ نوشی کا شوق تھا، خانقاہ کے باہر کبھی حقہ نوشی فرماتے ہوئے کوئی ملاقات کے لیے آتا تو ظرافتِ طبع کی رو سے فرمایا کرتے: بھائی! اگر بیعت ہونا ہے تو حاجی صاحب کے پاس جاؤ، وہ اندر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اور کوئی مسئلہ دریافت کرنا ہے تو شیخ محمدؒ سے پوچھو! اور حقہ پینا ہے تو یاروں کے پاس بیٹھ جاؤ* (ص، 5)
[اگلی قسط میں پڑھیں: حاجی امداداللہ کا حجرہ وغیرہ]