Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, August 27, 2019

بابری مسجد ملکیت مقدمہ۔۔۔۔سپریم کورٹ میں بحث جاری۔


   مسلمانوں کے مطابق بابر نے زمین وقف کی اور بابر کے حکم کے مطابق ہوئی تھی مسجد کی تعمیر۔
رام جنم بھومی سمیتی کے وکیل کا اعتراف، جمعیۃعلماء ہند کے وکیل نے اٹھایا نقش میں خامیاں ہونے کا سوال
نئی دہلی۔۲۷؍اگست۔۔۔صداٸے وقت۔۔ذراٸع۔
=========================
: بابری مسجد ملکیت مقدمہ کی سماعت کا آج سپریم کورٹ میں تیرہواں دن تھا جس کے دوان نرموہی اکھاڑہ کے وکیل ایس کے جین نے اپنی نامکمل بحث کا آغاز کرتے ہوئے پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بینچ کو بتایا کہ متنازعہ مقام پر 1934 سے نماز ادا نہیں کی گئی ہے جبکہ اس جگہ مندر موجود ہے جس کا متولی نرموہی اکھاڑہ ہے۔،کل بینچ نے سشیل کمار جین سے یہ پوچھا تھا اگر نرموہی اکھاڑہ سوٹ نمبر 5 کی مخالفت کرتاہے تو کیا اس سے اس کا اپنا مقدمہ کمزورنہیں پڑجائے گا، اس لئے سوٹ نمبر 5سے متعلق یعنی رام للا کے متعلق اپنا نظریہ صاف صاف بتاناچاہئے، اس پر سشیل کمارجین نے کہا کہ نرموہی اکھاڑہ سوٹ نمبر5جو کہ رام للابراجمان کی طرف سے ہے اس کی مخالفت نہیں کریگا بشرطیکہ سوٹ نمبر 5میں مدعی نرموہی اکھاڑہ کے متولی ہونے سے انکارنہیں کریں گے، اس بات پر جسٹس بھوشن نے سشیل کمارجین سے سوال کیا کہ سوٹ نمبر 5کو لیکر ان کانظریہ شرط کے ساتھ ہے اس بات کاایڈوکیٹ سشیل کمارجین نے تحریری جواب دیا کہ معاملہ برابری کا ہونا چاہئے اگرنرموہی اکھاڑہ سوٹ نمبر 5کی مخالفت نہیں کریگا تو سوٹ نمبر 5کے مدعی بھی نرموہی اکھاڑہ کی مخالفت نہیں کریں گے اس کے بعد جین نے بینچ کو یہ دکھانے کی کوشش کی کہ کم ازکم 1934کے بعد سے متنازعہ جگہ پر مسلمانوں نے نماز ادانہیں کی ہے انہوں نے بابری مسجد قضیہ کو تاریخ کے تین حصوں میں بانٹا پہلا 1855سے لیکر 1885تک، دوسرا 1885سے لیکر 1934تک، تیسرا 1934سے لیکر 1949تک، جین کا یہ کہنا تھا کہ حالانکہ  تاریخی دستاویزوں میں لفظ مسجد جنم استھان کا استعمال ہواہے لیکن دراصل وہ مسجدنہیں مندرہی ہے جین کا یہ بھی کہنا تھا کہ تاریخی دستاویزوں میں 1855 سے پہلے  مسجد کا کہیں کوئی ذکرنہیں آتا ا ور 1934کے بعد سے وہاں کوئی نماز ادانہیں کی گئی اس وجہ سے مسلمانوں کا کاز آف ایکشن کم ازکم 1934سے پہلے شروع ہونا تھا اس وجہ سے سوٹ نمبر 4قانونی دائرہ میں نہیں ہے، کیونکہ ٹائم لمٹ میں مقدمہ نہیں کیا گیا ہے، سینئر ایڈوکیٹ ایس کے جین نے عدالت کو مزید بتایاکہ الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں لکھاہے کہ متنازعہ مقام پر تالا لگا ہوا تھا اور اس کے اندر مورتیاں رکھی ہوئی تھیں نیز مسلمانوں کابھی یہ ماننا ہے کہ 1855 سے قبل اس مقام پر نماز ادا نہیں کی جاتی تھی ۔ اس معاملہ کی سماعت کرنے والی پانچ رکنی آئینی بینچ جس میں چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی، جسٹس اے ایس بوبڑے، جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس چندر چوڑ اور جسٹس عبدالنظیر شامل ہیں کو ایڈوکیٹ ایس کے جین نے مزید بتایا کہ جس مقام کو مسجد کہا جارہاہے وہ 1931 میں رام شرن داس کے قبضہ میں تھا جس کے بعد اس پر مہنت رگھوبر داس کا کنٹرول تھانیز 1934 میں ایودھیا میں فرقہ وارانہ فساد ہواتھا جس میں 
مسجد کو نقصان پہنچایا گیا تھا، 

مسلمانوں نے مسجد کی تزئین کاری کرائی تھی اس کا ثبوت انہوں نے عدالت میں پیش کیاہے لیکن اس سے ان کے اس متنازعہ اراضی پر ملکیت کے دعوے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ایڈوکیٹ ایس کے جین نے کمشنر کی جانب سے 1934 کے فساد کے تناظرمیں تیار کی ہوئی رپورٹ عدالت میں پڑھ کر سنائی جس کے مطابق اس وقت نماز نہیں ادا کی جارہی تھی اور جب بھی نماز ادا کرنے کی کوشش کی جاتی انہیں روک دیا جاتا تھا لیکن اسی درمیان جسٹس نظیر نے کہا کہ رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ اس دن عشاء کی نماز دا کی گئی تھی، اسی درمیان جسٹس بوبڑے نے ایڈوکیٹ ایس کے جین سے پوچھا کہ عشاء کی نماز کیا ہوتی ہے؟ جس پر عدالت میں موجود جمعیۃ علماء ہند کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے جسٹس بوبڑے اور دیگر ججوں کو بتایا کہ عشاء کی نماز دن کی آخری نماز ہوتی ہے۔ اسی درمیان ایڈوکیٹ ایس کے جین کی بحث کا اختتام ہوا جس کے بعد سینئر ایڈوکیٹ پی این مشرا بحث کرنے کھڑے ہوئے جو سوٹ نمبر 4میں مدعا علیہ ہیں،ایڈوکیٹ پی این مشرا رام جنم بھومی سمیتی کی نمائندگی کررہے ہیں۔ایڈوکیٹ پی این مشراء نے عدالت کو نقشہ بتاتے ہوئے اپنی بحث شروع کی اور ان علاقوں کی نشاندہی کرنا چاہی جہاں کبھی پوجا ہوا کرتی تھی لیکن اسی درمیان جمعیۃعلماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کو بتایا کہ نقشہ میں بہت خامیاں ہیں اور ابتک کی بحث میں متضاد باتیں نقشہ میں بتائی گئیں ہیں۔ڈاکٹر راجیو دھون کے اعتراض پر جسٹس بوبڑے نے کہا کہ وہ بحث کے دوران عدالت کی توجہ اس جانب مبذول کراسکتے ہیں فی الحال پی این مشراء کو بولنے دیا جائے، اپنی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے ایڈوکیٹ مشرانے کہا کہ متنازعہ جگہ پر کبھی کوئی مسجد نہیں رہی ہے ہمیشہ سے وہاں مندرہی تھا اس دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے مشرانے پرانوں کا حوالہ دیا سب سے پہلے انہوں نے بتایا کہ بالمیکی رامائن میں رام کی پیدائش ایودھیامیں ہونے کا ذکر ہے دوسراحوالہ انہوں اسکندپران کا حوالہ دیا اور یہ بتایا کہ اسکندپران میں رام جنم بھومی پر پوجاکرنے کا ذکر ہے اسکندپران کو دکھاکر مشرانے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ جو جگہ اسکندپران میں لکھی ہوئی ہے وہی جگہ آج بھی ہندوپوجتے ہیں، اسکندپران میں رام کی پیدائش کی جگہ پر پوجاکرنے کا طریقہ لکھا ہوا ہے اس میں سریوندی میں ڈبکی کے بعد اور بھی مندروں پر جانے کا ذکر ہے مشرانے کہا کہ ان مندروں کو جو اسکندپران میں لکھی ہوئی ہے وہی رام جنم بھومی ہے جس میں آج کل پوجاہوتی ہے اس کے بعد مشرانے بہت تفصیل کے ساتھ سوامی روی مکتیشورنندسرسوتی جو کے جگت گروشنکراچاریہ کے چیلے تھے ان کا بیان پڑھا، سوامی سرسوتی ایودھیامیں رام جنم بھومی کے آس پاس انہی مندروں اورجگہوں کے ہونے کا ذکر کیا ہے جن کا ذکر اسکندپران میں میں ہے اس کے علاوہ ایک اور مذہبی کتاب رودریامل کا بھی ذکر کیا، سرسوتی کابیان سن کے بعد جسٹس چندچورنے مشراسے یہ کہا کہ بیان دیتے وقت سوامی سرسوتی کی عمرصرف 36سال تھی اس وجہ سے ان کی مذہبی تعلیم اور بیان میں جوباتیں کہی گئی ہے ان کی عمر کو بھی مدنظررکھ کر دیکھا جاسکتاہے، مشرانے کہا کہ بابرکبھی ایودھیانہیں آئے تھے نہ ہی انہوں نے مسجد بنائی اور یہ بھی کہا کہ مسجد میں جو نقش پائے گئے ہیں جن کے حوالوں سے مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ مسجد 1528میں بابرنے بنائی تھی وہ نقش غلط ہے اور تاریخی نہیں ہے اس ایشو پر ہائی کورٹ کے جسٹس سدھیراگروال کے فیصلہ کے  اس پیراگراف کو پڑھا جن میں ان نقش اور اس کے ترجمہ پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے مشراکایہ بھی کہنا تھا کہ 1855تک یہ نقش مسجد میں موجودنہیں تھے ۔پہلی باراس کا ذکر 1888 میں E.Fouhrer کی کتاب شاریخی آرکیٹکچر آف جون پور میں ہوا ہے اس کے بعد مسٹر بیوریج نے بابر نامہ کے ترجمہ میں ان نقش کا ذکر کیا ہے مشرانے بینچ کو یہ بتایا کہE. Fouhrer اور بیوریج کے ترجمہ میں تین الگ الگ تاریخ نکل کر آئی ہیں جنہیں انہوں نے مسجدکی تعمیر کی تاریخ کہا ہے ایک 923ہجری دو930ہجری تین 935ہجری،۔ حالانکہ 1964میں آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا کی کتاب میں ان دونوں کے ترجمہ کو ٹھیک کیا گیا ہے اور مسجد کی تعمیر کی اصل تاریخ 935ہجری بتائی گئی ہے مشراکا یہ کہنا تھا کہ 1964کی اس کتاب کو لکھتے وقت جنہوں نے اس کو لکھاتھا ان کے پاس اصل نقش موجودنہیں تھے انہوں نے کسی اورسے لئے ہوئے خاکہ کے دم پر یہ کتاب لکھی ہے انہوں نے اس متعلق ہائی کورٹ کے فیصلہ کو سنایا اور کہا کہ یہ نقش صحیح نہیں ہے ایڈوکیٹ پی این مشراء نے کہا کہ انہیں اس بحث سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کہ بابر یا اورنگ زیب نے مسجد کی تعمیر کرائی یا کوئی میر باقی نام کا بھی شخص تھا جس نے مسجد کی تعمیر کرائی تھی بلکہ ان کا کہنا ہے کہ مندر کو منہدم کرکے مسجد کی تعمیر کی گئی تھی کیونکہ کھدائی کے دوران زمین کے اندر سے ستون  نکلے تھے جن پر سنسکرت زبان میں کچھ تحریر تھا جو ہندومذہب کے اشلوک تھے۔پی این مشرا نے عدالت کو مزید بتایا کہ کسی بھی اراضی کو وقف کرنے کے لیئے سب سے پہلے واقف کو اس جگہ کا مالک ہونا چاہئے اس کے بعد ہی پراپرٹی وقف ہوسکتی ہے،جسٹس بوبڑے نے پی این مشرا سے پوچھا کہ اس اراضی کو کس نے وقف کیا تھا جس پر پی این مشرانے کہا کہ کسی نے بھی نہیں جس پر جسٹس بوبڑے نے کہا کہ آپ کے مطابق نہیں یا مسلم فریق کے مطابق جس پر پی این مشرا نے اعتراف کیا کہ مسلمانوں کے مطابق بابر نے وقف کیا تھا اور بابر کے حکم کے مطابق مسجد کی تعمیر کی گئی تھی۔ ایڈوکیٹ پی این مشراء کی بحث کے درمیان جسٹس بوبڑے نے کہاکہ آپ کے مطابق بابر نے نہ تو مسجد کی تعمیر کرائی اور نہ ہی اس نے مندر منہدم کیا؟  جس پر پی ایم مشرانے کہا کہ یہ بات صحح ہے جس پر جسٹس چندرچوڑ نے کہا کہ آپ کی بحث کدھر جارہی ہے؟آج پی این مشراء کی بحث نا مکمل رہی جس کے  بعد عدالت نے اپنی کارروائی کل تک کے لیئے ملتوی کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے۔ بابری مسجد کی ملکیت کے تنازعہ کو لیکر سپریم کورٹ آف انڈیا میں زیر سماعت لیڈمیٹرسول پٹیشن نمبر10866-10867/2010 پر بحث کے دوران جمعیۃ علماء ہندکی جانب سے سینئر وکیل ڈاکٹر راجیودھون کی معاونت کے لیئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ کنورادتیہ سنگھ، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قرۃ العین، ایڈوکیٹ سدھی پاڈیاو دیگر موجود تھے۔