Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, August 13, 2019

قربانی انسانیت کی تکمیل کی پہلی منزل۔

از/محمد سالم ابوالکلام شکیل آزاد/ صداٸے وقت۔
=========================
عید قربان اور تقریب حج حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی دعوت اور ان کے پیغام حق کی بنیاد کو سمجھنے اور ان کی یاد تازہ کرنے کا بہترین موقع فراہم کرتی ہیں عید قربان حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کے ایک بے مثال اسوہ حسنہ کی یاد گار ہے جو خدائے تعالی کے ان خاص بندوں نے بنی نوع انسانی کے سامنے پیش کیا باپ بیٹے دونوں قلب و روح کی تمام اطمینان بخشیوں کے ساتھ رضاء الہی کے سامنے جھک گئے اللہ تعالی کو ان بندوں کی یہ ادائے دل نواز کچھ ایسی پسند آئی کہ اس کو رہتی دنیا تک یاد گار بنادیا قرآن پاک نے صبرو رضا بندگی وسپردگی کے اس ایمان افروز منظر کا نقشہ بہت ہی بلیغانہ انداز میں کھینچا ہے جب اسماعیل علیہ السلام اپنے باپ کا ہاتھ بٹانے کے لائق ہوئے تو آپ کوبذریعہ خواب  یہ حکم دیا جاتا ہے کہ اپنے لخت جگر اسماعیل کو راہ خدا وندی میں قربان کردیں ابراہیم علیہ السلام نے خواب کو حقیقت پر محمول کرتے ہوئے اس کا تذکرہ فرزند ارجمند اسما عیل سے کیا کہ بیٹا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں بتاو تمہاری کیا رائے ہے اطاعت گذار باپ کے اطاعت گذار فرزند نے فورا جواب دیا اے ابا جان جو حکم ہوا ہے اسے بجا لا ئیے انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والے میں سے پائیں گے آخر باپ نے خداوندی کو بجا لانے کے لئے ہاتھ میں چھڑی لئے آنکھوں پر پٹی باندھے اور اپنے لخت جگر کو پیٹھ کے بل لٹا دیئے اور ذبح کرنے کی کوشش کی کہ فورا غیب سے ندا آئی اے ابراہیم رک جا کہ تونے خواب سچ کر دکھایا مقصود اسما عیل کے سر کو تن سے جدا کرنا نہیں بلکہ تمہاری آزمائش مقصود تھی پھر اللہ کے حکم سے جنت کا ایک دنبہ آیا جسے ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں سے ذبح کیا آپ کا یہ عمل اللہ تعالی کو پسند آیا کہ اللہ تعالی نے رہتی دنیا تک کے لئے اس قربانی کو سنت قرار دیا بلکہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمادیا جس شخص کو قربانی دینے کی طاقت ہو اور وہ قربانی نہ دے تو چاہئے کہ وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے لیکن افسوس آج جب ہم اپنے معاشعرے کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو وسعت رکھنے کے باوجود قربانی نہیں کرتے ان کے علاوہ کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو صرف ریا نمود کے لئے قربانی کرتے ہیں اور گاوں شہر کے چودھری اور مالدار لوگ قربانی اس لئے کرتے ہیں کہ لوگ انہیں حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھیں مالدار سونچتے ہیں کہ اگر ہم قربانی نہیں کریں گے تو لوگ ہمیں بخیل اور کنجوس کہیں گے اور طرح طرح کے برے القاب سے بات کریں گے آخر کار حرام کی کمائی ہوئی دولت سے جانور خرید کر قربانی کر دیتے ہیں ان کے علاوہ کچھ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو غیراللہ کے نام پر جانور ذبح کرتے ہیں اور نذرو نیاز چڑھاتے ہیں اس کے سامنے سجدے کرتے ہیں اور اس سے منت و اولادیں  مانگتے ہیں اس کو حاجت رواں مشکل کشاسمجھتے ہیں اور میری نماز میری قربانی میرا مرنا میرا جینا سب اللہ رب العا لمین کے لئے ہے حالانکہ نہ وہ کبھی نماز پڑھتے ہیں اور نہ کبھی مسجد کا رخ کرتے ہیں ان کی پیشانیاں بتوں کے سامنے سجدے کرتے کرتے گھس گئی ہوتی ہیں نہ ان کا کھانا حلال نہ ان کا کپٹرا حلال بلکہ ان کی پوری زندگی حرام کی کمائی ہوئی دولت سے گذر تی ہے کیا یہ اللہ تعالی سے دغابازی فریب و مکاری دھوکا بازی نہیں میرے اسلا می بھائیو قربانی کا مقصد گوشت خوری نہیں بلکہ قربانی کا مقصد تقوی اور پرہیز گاری ہے جیسا کہ اللہ تبارک تعالی کو نہ قربانی کے گوشت پہو نچتےاور نہ ہی ان کا خون بلکہ اسے تمہارے دل کی پرہیز گاری پہو نچتی ہے 

یارب امت مسلمہ کو قربانی کے آداب و شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ قربانی پیش کرنے کی توفیق مرحمت فر ما ئیں آمین
مضمون نگار
محمد سالم ابوالکلام شکیل آزاد
استاد مدرسہ اصلاح ایمان و عمل
مولانا ابوالکلام آزاد نگر
بھوارہ مدھوبنی