Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, August 18, 2019

کشمیر کے حالات۔۔۔زندگی معمول پر آرہی ہے ۔۔۔۔۔۔حکومت ہند کا دعویٰ۔

از/نازش ہما قاسمی/صداٸے وقت۔
=========================
کشمیر میں رکاوٹیں ہٹنا شروع
انٹرنیٹ اور موبائل خدمات جزوی طور پر بحال، کل سے تمام سرکاری دفاتر، اسکول اور کالج بھی کھلیں گے، حکومت کا دعویٰ ’حالات معمول پر آرہے ہیں‘ ، قیام امن کےلیے چار نکاتی پروگرام پیش ،پتھر بازوں کی کونسلنگ، علماء پر نظر رکھی جائے گی .
...................................................
سری نگر۔ ۱۷؍اگست: جموں و کشمیر سے دفعہ 370 ہٹائے جانے کے اعلان سے ٹھیک پہلے وہاں فون اور انٹرنیٹ خدمات پر پابندی لگا دی گئی تھی، لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ اب حالات معمول پر آ رہے ہیں اس لیے ریاست میں لگائی گئی پابندیاں دھیرے دھیرے ہٹائی جا رہی ہیں۔ ہفتہ کے روز جموں و کشمیر کے 5 اضلاع میں 2 جی موبائل انٹرنیٹ خدمات بحال کر دی گئیں۔ جموں میں بھی 2 جی موبائل انٹرنیٹ سے اب عوام فیضیاب ہو سکیں گے۔ جموں کے علاوہ کٹھوا، سمبا، اودھم پور میں 2 جی اسپیڈ کے ساتھ انٹرنیٹ خدمات دوبارہ شروع کر دی گئی ہیں۔مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اب ریاست میں حالات بہتر ہو رہے ہیں اس لیے سبھی اسکول و کالج کے ساتھ ساتھ سرکاری دفاتر بھی پیر یعنی 19 اگست سے دوبارہ کھولنے کی ہدایت دے دی گئی ہے۔پریس کانفرس کے دوران کشمیر میں حکومت کی طرف سے رکاوٹوں اور بندشوں کے سلسلے میں نرمی کا اعلان کیا گیا۔کشمیر کے دفترِ اطلاعات کے مطابق علاقے سے رکاوٹیں ہٹانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔اگست کے اوائل سے کشمیر میں نافذ کیے جانے والے کرفیو اور ذرائع مواصلات کی 12 روزہ بندش کے بعد سنیچر کو ایک پریس ریلیز کے ذریعے حکومتی ترجمان نے بتایا کہ وادی میں مختلف پابندیاں آہستہ آہستہ ختم کی جا رہی ہیں۔اس کے علاوہ کشمیر کے حکومتی ترجمان اور پرنسپل سیکریٹری روحت کنسال نے سرینگر میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ 35 پولیس اسٹیشنوں سے رکاوٹیں ہٹا دی گئی ہیں اور مختلف علاقوں میں ٹیلی فون لینڈ لائن بحال کر دی گئی ہے۔

ترجمان نے بتایا کہ 17 ٹیلی فون ایکسچینج بحال کر دیے گئے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اتوار کی شام تک تمام نیٹ ورک بحال کر دیے جائیں گے۔انھوں نے مزید بتایا کہ جموں ڈویژن میں لینڈ لائن سروس معمول کے مطابق کام کر رہی ہے اور پانچ اضلاع میں موبائل فون سروس بھی بحال کر دی گئی ہیں۔بی بی سی کے نامہ نگاروں نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کشمیر کے چند علاقوں میں لینڈ لائن فون سروس اب استعمال کی جا سکتی ہے۔ تاہم وادی میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس اب بھی معطل ہے اور صرف کچھ علاقوں تک محدود ہے۔اگست کے اوائل سے کشمیر میں لینڈ لائن سروس کی بندش کے بعد اب اسے جزوی طور پر بحال کر دیا گیا ہے۔حکومتی ترجمان نے بتایا ہے کہ انتظامیہ اور سیکورٹی افواج باریکی سے موجودہ صورت حال کا جائزہ لے رہی ہے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔انھوں نے بتایا کہ سڑکوں پر معمول کے مطابق پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولیات ایک مثبت نشانی ہے اور اطلاعات کے مطابق ایسا دیہی علاقوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

پریس کانفرنس میں موجود آئی جی کشمیر پولیس سوائم پرکاش پانی نے کہا کہ انتظامیہ کشمیر کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لے رہی ہے جس کے پیشِ نظر آہستہ آہستہ رکاوٹیں ہٹائی جائیں گی۔آئی جی کشمیر نے کہا کہ شمالی، جنوبی اور مرکزی کشمیر کے 35 پولیس اسٹیشنوں سے رکاوٹیں ہٹائی جا چکی ہیں۔کشمیر میں پابندی ہٹائے جانے کے بعد حکومت کے لیے چیلنج کم نہیں ہوگا، اسی کو دھیان میں رکھتے ہوئے مودی حکومت نے جموں کشمیر میں عام زندگی کی بحالی کےلیے چار نکاتی پروگرام ترتیب دیا ہے جس میں فوج سے لے کر مولانا تک شامل ہوںگے۔ ذرائع کے مطابق سب سے پہلے جموں کشمیر کے لیڈروں کی نظر بندی مکمل طو رپر ختم نہیں کرے گی، پلان کے مطابق حکومت وقت اور ضرورت کے حساب سے آگے بھی حریت اور اہم لیڈروں کو نظر بند کرتی رہے گی، حکومت کو خوف ہے کہ لیڈران عوام کو مشتعل کرسکتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ حکومت پتھر بازوں اور پرتشد مظاہرین پر قابو پانے کےلیے ’کمیونٹی بانڈ ‘کے تحت کام کرے گی اس میں عموماً ۱۵ سے ۱۶؍سال کے بچے شامل ہوتے ہیں، اس کمیونٹی بانڈ کے تحت پتھر بازوں کو گرفتار نہیں کیاجائے گا بلکہ ان کے اہل خانہ اور رشتہ داروں سے ایک ’عہدنامہ‘ پر دستخط لیا جائے گا جس سے وہ انہیں سمجھا سکیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ پھر سے پتھر بازی میں شامل نہیں ہوںگے۔ چارنکاتی پروگرام میں تیسرا اور سب سے ہم نکتہ سرحد پار سے آنے والے دہشت گردوں پر لگام کسنا ہے، اس کےلیے حکومت نے طے کیا ہے کہ سرحد اور لائن آف کنٹرول جہاں سے پاکستانی دہشت گرد وں کی کشمیر میں داخل ہونے کا امکان ہوتا ہے وہاں پر آرمی بڑے پیمانے پر مورچہ سنبھالے گی اس کے ساتھ ہی حکومت پنجاب اور جموں میںبھی سرحدی گھیرا بندی کا پروگرام بنارہی ہے۔ چوتھا نکتہ یہ ہے کہ ان علماء کی شناخت اور نگرانی کرے گی جو تشدد اور کشیدگی پھیلا سکتے ہیں پولس افسران ایسے کسی بھی شخص کے ساتھ سختی سے پیش آئی گی اور انہیں فوراً گرفتار کرے گی۔ یاد رہے کہ جمعہ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد ہندوستان کے ترجمان سعید اکبرالدین نے کہا تھا کہ کشمیر میں آہستہ آہستہ بندشیں ختم کی جائیں گی۔جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے آرٹیکل 370 کے خاتمے پر کرفیو کے باوجود مختلف علاقوں میں مظاہرے کیے گئے۔ کشمیر کے متعدد سیاسی رہنماؤں کو نظر بند رکھا گیا ہے۔ایک روز قبل سرینگر میں موجود بی بی سی کے نمائندے عامر پیرزادہ نے جمعہ کو شہر کے علاقے صورہ کا دورہ کیا جہاں گذشتہ جمعہ کو بڑے پیمانے پر مظاہرے دیکھنے میں آئے تھے اور مظاہرین پر حکام کی جانب سے چھرے فائر کیے گئے جس سے کئی افراد زخمی ہو گئے تھے۔حکومت نے ان واقعات کی تردید کی تھی لیکن چند روز بعد انھوں نے اعتراف کر لیا تھا کہ مظاہرے ہوئے تھے۔اسی مقام پر موجود عامر پیرزادہ نے بتایا کہ اس بار بھی وہ اور ان کی ٹیم نے صورہ میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن تمام سڑکیں، گلیاں اور رستے خاردار باڑوں سے بند تھی اور وہاں رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی تھیں جبکہ سکیورٹی حکام کی بڑی تعداد وہاں موجود تھی۔انھوں نے مزید بتایا کہ 16 اگست کو جمعہ کی نماز کی بعد ایک بار بڑی تعداد میں مظاہرین باہر نکلے اور انھو ں نے پر امن طریقے سے اپنا احتجاج کیا جس کی تکمیل کے بعد تمام لوگ روانہ ہو گئے۔البتہ قریبی علاقوں سے کہیں کہیں پر چھرے فائر کرنے اور آنسو گیس فائر کرنے کی بھی آواز سنائی دے رہی تھی جبکہ چند مقامات پر پاکستانی گانوں کی آواز آ رہی تھی جو کشمیر کی آزادی کے حوالے سے ترانے تھے۔بی بی سی کے نمائندے نے بتایاکہ چند مقامات پر لاؤڈ سپیکر سے لوگوں کو مظاہروں میں شرکت کرنے کے پیغامات دیے جا رہے تھے۔انھوں نے کہا کہ حالات ایسے نظر آ رہے ہیں جہاں لوگوں کے جذبات ڈر و خوف کے بجائے غصے میں تبدیل ہو رہے ہیں اور اس میں صرف اضافہ ہو رہا ہے۔