Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, August 7, 2019

لمحوں کی خطا کی ۔۔۔۔۔!!

از/عزیز احمد جے این یو۔۔۔دہلی/صداٸے وقت۔
=========================
غلطیاں لمحوں میں ہوا کرتی ہیں, اور اس کی سزا صدیوں بھگتنی پڑتی ہے, کچھ یہی کشمیر میں ہوا ہے, کسی نے تو غلطی کی تھی, شاید پڑوسی ملک کے لیڈران نے, یا شاید اپنے ہی ملک کے قائدین نے, یا پھر خود کشمیریوں نے, ان کی سب سے بڑی غلطی تو یہی رہی کہ وہ کبھی متحدہ موقف پیش ہی نہیں کرپائے, کچھ پاکستان زندہ باد کے نعرے سے دل بہلاتے, تو کچھ لوگ ہندوستانی سرکاری مراعات سے مستفید ہوتے, انہیں ہندوستان ہی اچھا لگتا, کچھ ایسے بھی ہوتے جنہیں آزاد کشمیر چاہئےتھا, حالانکہ آزاد کشمیر محض ایک خواب تھا, ایک بھیانک خواب, جس کی تعبیر محض تباہی تھی, دونوں ملکوں میں سے کسی کی بھی خواہش نہیں کہ ایک اور ملک کا درد سر مول لیں, بہرحال آزادی کے متوالے تھے سو جوش اور جذبے کا کیا کہنا, ادھر مراعات سے فائدہ بھی اٹھاتے رہے, ادھر لڑتے بھی رہے.

حالات ہمیشہ یکساں کہاں رہتے ہیں,ہندوستان کے افق پر بی.جے.پی کا سورج دوبارہ چمکا, امت شاہ کو وزیر داخلہ بنایا گیا, دل نے کہا یہ بندہ کچھ تو الٹا سیدھا کرے گا, سو الیکشن کا وعدہ تھا, اس نے پورا کیا, مگر محض میجوریٹی کو خوش کرنے کے لئے, کشمیریوں کی کہاں پڑی تھی کہ کم سے کم مشورہ ہی لے لیا جاتا, جس طریقے سے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 A کو ختم کیا گیا ہے, کیا پتہ کل اسی پریزیڈنشیل آرڈر کا سہارا لے کر ملک کے قانون سے Secular, Democratic Republic کے لفظ کا خاتمہ کرکے "Hindu Rashtra" لکھ دیا جائے, اور یہ کوئی بعید بات نہیں, کہ جب آرٹیکل 70 کا خاتمہ کردیا گیا جس کے بارے میں لیگل ایکسپرٹ کہا کرتے تھے کہ یہ صرف بی.جے.پی کی بڑبول ہے, ورنہ اسے اتنی آسانی سے ختم نہیں کیا جاسکتا, اسے محض ایک گھنٹے کی سیشن میں بغیر ڈیبیٹ اور بغیر ڈسکشن کے ختم کردیا گیا, تو کیا بعید ہے کہ کل جو بولنے والے باقی بھی بچے ہیں ان کی گردن پر چھری رکھ کے بات منوا لی جائے, ہمارے وزیر داخلہ کو تو اس کا تجربہ بھی ہوچکا ہے.
ہمیں یہ بات تسلیم کرنے میں اب کوئی عار نہیں ہونی چاہئے کہ کم سے کم شمالی ہند کا ہندو اب Polarize نہیں, بلکہ حد درجہ Radicalize ہوچکا ہے, مسلم دشمنی ہی اب اس کے لئے سب کچھ ہے, آر.ایس.ایس نے ہندو ذہن میں مسلمانوں کے تئیں جو نفرت بھر دی ہے, اب ہندو قوم اس نفرت کی بنیاد پر کسی بھی حد تک جاسکتی ہے, انہیں اب نہ ڈوپلمنٹ سے مطلب ہے, نہ ایمپلائمنٹ سے, نہ تعمیر و ترقی سے, اب اگر کوئی بھی پالیسی جو مسلمانوں کے خلاف ہے تو وہ ان کے لئے نیشنل ہِت میں ہے, اور یقین مانئے امت شاہ اور مودی نے اتنا بڑا جو فیصلہ لیا ہے, اس نے انہیں ہمیشہ کے لئے ہیرو بنا دیا, اب جو آوازیں مخالفت میں اٹھا کریں گی بھی, وہ ان کے ووٹ بینک کو ذرہ برابر بھی نقصان پہونچانے والی نہیں, تین طلاق کا فیصلہ عام ہندؤوں کے نزدیک بڑا تاریخی رہا ہے, اس وجہ سے نہیں کہ اس سے مسلم عورتوں کا فائدہ ہوگا, بلکہ اس سے وجہ سے کہ ملاؤں نے اس کی مخالفت کی تھی, اس کے باوجود مودی جی نے پرواہ نہ کرتے ہوئے اسے پاس کرادیا تھا, سو کشمیر کا معاملہ تو اسے بڑھ کر ہے اور جس طریقے سے چٹکیوں میں اسے حل کیا گیا ہے, اس نے ان دونوں کو ہمیشہ کے لئے ہندو قوم پرستوں کی نگاہ میں امر کردیا ہے.
ہندؤوں میں ایک بہت ہی کم تعداد باقی بچی ہے جو Constitutional Morality میں یقین رکھتی ہے, اور ایسے لوگ بھی مٹھی بھر ہیں, جنہیں انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے, اور ان کو بھی کب ڈرا دھمکا کر خاموش کردیا جائے یا وہ خود ہی پالا بدل لیں کچھ کہا نہیں جاسکتا, آخر کون کب تک مخالفت کرے گا, اسٹیبلشمنٹ سے تو ڈر ہر کسی کو لگتا ہے, ہم لوگ بھی ڈرتے ہیں, ہم کشمیر کے مسئلے پر صحیح سے کچھ لکھ بول نہیں سکتے, مقابلہ اس اسٹیبلشمنٹ سے ہے جس کے ٹرول جب جسے چاہیں اینٹی نیشنل قرار دے دیں, ہم چیخ چیخ کر نہیں کہہ سکتے کہ یہ جو فیصلہ لیا گیا ہے, یہ غیر جمہوری ہے, غیر اخلاقی ہے, Right to self-determination کا وعدہ کہاں گیا, جس بنیاد پر Accession ہوا تھا اسی کو کیوں ختم کردیا گیا؟ یہ فوجی بوٹ, یہ گلی نکڑ پر چمچماتی بندوقیں, کب تک رکھوگے ایسے؟ بھلا جذبوں کو بھی کبھی مارا جاسکتا ہے, کچھ لمحوں کے لئے انہیں ڈرا دھمکایا کر دبایا جاسکتا ہے, مگر ختم نہیں کیا جاسکتا ہے, جب بھی موقع ملنا ہے, ان جذبوں کو پھوٹ پڑنا ہے, وہ بھی اس شدت کے ساتھ کہ روکنا بس میں ہی نہ رہے. آج کشمیری ڈرے سہمے ہیں, خاموش ہیں, کل کو یہ خاموشی کسی طوفان میں بدل جائے تو کیا آپ کا انہیں ٹیررسٹ قرار دینا صحیح ہوگا؟ ہم یہ سب سوال اب نہیں پوچھ سکتے, کیونکہ اسے نیشنل سیکورٹی اور انٹیگرٹی سے جوڑ دیا گیا ہے, اور نیشنل سیکورٹی بھی کیا, محض ایک کانسیپٹ, جس کا استعمال اکثر اسٹیبلشمنٹ لوگوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے لئے ہی کرتی ہے, Integrity without Integration محض زمین کا چاہا جانا ہے, اہل زمین کو نہیں.
کشمیر الگ ہوجائے یا پاکستان سے مل جائے, اس کی حمایت میں میں کبھی نہیں تھا, ہاں یہ میں ضرور چاہتا تھا اور چاہتا ہوں کہ کشمیر ہندوستان کا ہی حصہ رہے, مگر ایسے نہیں, فیصلے کا حق انہیں دیا جائے, اور اس کے لئے لازمی تھا کہ گورنمنٹ ناراض کشمیریوں سے قریب ہو, انہیں اپنے قریب لائے, گلے لگائے, ان کے غم اور غصہ کو سمجھنے کی کوشش کرے, مگر یہ سب کچھ نہ کرکے آرٹیکل 370 کا خاتمہ اس Accession پر حملہ ہے جس کی بنیاد پر کشمیر ہندوستان کے ساتھ تھا, 26 اکتوبر 1947 کا یہ الحاق دو ملکوں کا الحاق تھا, یہ ایسے ہی تھا جیسے دو ملک اپنی آئیڈنٹی کو Preserve کرتے ہوئے ساتھ کام کرنے پر راضی ہوجائیں, اسی لئے تو کشمیر کے جھنڈے کو بھی باقی رکھنے کا وعدہ ہوا تھا, اور کشمیر کے کانسٹیٹیوشن کو بھی, ہندوستانی قانون میں بھلے ہی اسے Temporary لکھا گیا تھا, مگر اس کے خاتمے کے لئے کشمیری حکومت کی منظوری ضروری قرار دی گئی تھی, جسے ہماری گورنمنٹ نے محض گورنر کی منظوری سمجھا, حالانکہ دو دن پہلے گورنر کو خود نہیں معلوم تھا کہ کیا فیصلہ لیا جانے والا ہے, وہ اپنے انٹرویوز میں فرما رہے تھے کہ یہ نئے فوجیوں کی آمد محض روٹین ہے اور اس کا آرٹیکل 370 سے کوئی لینا دینا, اور پھر گورنر کی منظوری حکومت کی منظوری کب سے ہونے لگی سمجھ سے پرے ہے,گورنر خود حکومت اپانئنٹ کرتی ہے, اور فیصلہ لینے کے لئے اپنے ہی ایمپلائی کی منظوری کو عوام کی منظوری سمجھنا محض ہنسنے کا سبب ہوسکتا ہے, قانون نہیں.
بہرحال اب تو جو ہونا تھا ہوچکا, اور بہت ممکن ہے کہ سرحدوں پر حالات کشیدہ ہوجائیں, ایسی صورتحال میں کشمیریوں کا رد عمل کیا ہوتا ہے نہیں معلوم, لیکن یہ تو ہے کہ ہندوستانی حکومت کشمیر میں ان آوازوں کو کھونے والی ہے جو کبھی ہندوستان کے ساتھ جڑے رہنے کے فوائد گناتے تھے, اس جلد بازی کے فیصلے سے حکومت نے کشمیریوں کی نظر میں مین اسٹریم پولیٹیکل لیڈرز کو مجرم بنا دیا ہے جو اپنی قوم کو یقین دلاتے ہوئے نہیں تھکتے تھے کہ ہم ہندوستانی ہیں, اب وہ کس منہ سے اپنے عوام کا سامنا کریں گے, اور بہت ممکن ہے کہ وہ بھی اپنے خیالات بدل لیں, جو کہیں نہ کہیں ہندوستان کے لئے نقصاندہ ہی ہے.
اس فیصلے سے نکل کر کیا آتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا, لیکن سردست کشمیریوں سے یہی گزارش ہے کہ وہ اپنی زمینیں بیچنے کی غلطی نہ کریں گے, کہیں نہ کہیں آرٹیکل 35 کو ختم کرنے کے پیچھے مقصد ڈیموگرافی کی تبدیلی ہی ہے تاکہ ہمیشہ کے لئے ایک مسلم میجوریٹی والے اسٹیٹ کے سر درد سے چھٹی مل جائے, ویسے خدا کی ذات پر اس قدر بھروسہ ہے کہ بار بار میرے ذہن میں پاک پروردگار کا وہ فرمان آرہا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے لئے بہتر ہو, تو غالب گمان ہے کہ ذات باری تعالی نے کچھ اور پلان کررکھا ہے, لوگ چالیں چلتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ سب سے بہتر چال چلنے والا بس اوپر والا ہی ہے.
عزیر احمد، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، دہلی