Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, August 29, 2019

واقعہ غدیر خم اور اہل سنت کا موقف !

از/مولانا محمد اکرم خان قاسمی / صداٸے وقت۔
=========================
رسول ﷺ نے سن دس 10 ہجری میں آخری حج( حجۃ الوادع )ادا کیا اس حج میں ایک لاکھ سے زیادہ صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ کے ساتھ شریک حج رہے  چودہ ذوالحجہ کو فجر سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف وداع کیا اس کے فوراً بعد آپ نے مدینہ منورہ کی طرف سفر شروع کردیا اس دور میں عام طور سے اونٹ سے سفر کیا جاتا تھا عموماً مکہ مکرمہ  سے مدینہ منورہ پہنچنے میں دس دن لگتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کے آخری عشرے میں مدینہ طیبہ پہنچے محرم کا مہینہ گزار کر صفر کے مہینے سے آپ پر مرض الوفات شروع گیا اور 12 ربیع الاول 11 ہجری کو رسول ﷺ کا وصال ہوگیا؛
مولانا محمد اکرم خان قاسمی

دوران سفر.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
18 ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کے درمیان  میں ایک شہر پڑتا ہے جسکا نام رابغ ہے وہاں پر اکثر مکہ و مدینہ کے قافلے قیام کرتے تھے
اسکے قریب ایک جگہ ہے اسکا نام غدیر خم تھا وہاں ایک تالاب بھی تھا تالاب کو غدیر کہتے ہیں؛ رسول ﷺ نے غدیر خم پر قیام فرمایا قیام کے دوران ایک واقعہ پیش آیا؛ حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے
رسول ﷺ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شکایت کی جو کہ یمن میں  مال غنیمت کے تصرفات کے سلسلے میں تھی حضرت بریدہ کو یہ غلط فہمی ہوگئی تھی کہ حضرت علی نے مال غنیمت میں سے اپنے حق سے زیادہ تصرف کیا اسی کی شکایت انھوں نے رسول ﷺ سے کی تھی ؛  جبکہ اس مال میں حضرت علی کا اپنا حصہ بھی تھا اور اہل بیت ہونے کی وجہ سے خمس میں سے بھی انکا حصہ تھا تحقیق سے یہ بات معلوم ہوئی کہ حضرت علی نے اپنا پورا حق بھی نہیں لیا تھا جتنا تصرف کرنے کا انکو حق تھا 

تو رسول ﷺ نے حضرت بریدہ سے پوچھا کیا تم علی سے بغض رکھتے ہو صحابہ سیدھے سادھے صاف گو تھے انھوں نے کہا جی ہاں اور وجہ بھی بغض کی بتادی یمن کے مال غنیمت میں بیجا تصرفات کی وجہ سے بغض ہے
اس وقت رسول ﷺ نے حضرت بریدہ سے کہا علی سے بغض نہ رکھنا انھوں نے اس مال غنیمت میں جتنا انکو لینے حق ہے اس سے کم ہی لیا ہے جبکہ اس سے زیادہ  لے سکتے تھے
اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں پر خطبہ دیا  حضرت علی اور اہل بیت کے مناقب  بیان کئے اور اپنے اہل بیت کے بارے میں ڈرا یا کہ انکا خیال رکھیں عزت کریں اور انکی پیروی کریں فرمایا کہ میں تمھارے درمیان دوبھاری بھرکم چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں دو نوں سے محبت کرنا اور انکی  پیروی کرنا ایک تو قرآن دوسرے میرے اہل بیت؛ خطبہ کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا  من کنت مولاہ فعلی مولاہ
میں جسکا دوست ہوں علی بھی اسکے دوست ہیں
یعنی مجھ سے محبت علی سے محبت کی نشانی ہے
اور علی سے دشمنی کا مطلب مجھ سے دشمنی کی پہچان ہے
یہ رسول ﷺ نے حضرت علی کی اہمیت و فضیلت کو  اور خود سے غایت درجہ تعلق کو بتانے کیلئے کہا تھا
یہاں یہ بات سمجھ میں آئی کہ رسول ﷺ لوگوں کو یہ خوف دلانا چاہ رہے تھے کہ اہل بیت کی اور خصوصاََ حضرت علی کی پیروی کرنی چاہیے اسکے خلاف نہیں کرنا چاہئے
جو چیز  حضرت علی یا اہل بیت نے پسند کریں  وہ ہمیں بھی پسند کرنا چاہئے اسکے خلاف نہیں کرنا چاہئے
رسول اللہ کے خطبہ کے بعد حضرت ابو بکر اور حضرت عمر اور بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس بات پر حضرت علی کو مبارک باد دی لیکن کسی نے بھی اس وقت حضرت علی کو رسول ﷺ کے بعد خلافت یا جانشینی کی مبارکباد نہیں دی
کیونکہ مولا خلافت کے معنی میں کہیں بھی استعمال نہیں کیا گیا ہے
یہ واضح رہے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت  علی کی خلافت کا اعلان کرنا ہوتا تو آپ کھلے لفظوں میں اعلان فرماتے؛ اور یہ اعلان رسول ﷺ حجۃ الوادع کے خطبے میں فرماتے جہاں تمام صحابہ موجود تھے نہ کہ غدیر خم کی چھوٹی سی جگہ پر اتنا بڑا اعلان کرتے
آپ کے من کنت مولاہ فعلی مولاہ فرمانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ حضرت علی سے محبت کی جائے اور انکی پیروی کی جائے
یہ بھی واضح رہے کہ مولا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو بھی کہا ہے
رسول ﷺ نے حضرت زید سے فرمایا انت اخونا و مولانا
زید تم میرے بھائی اور دوست ہو
اس یہ معلوم ہوا کہ مولا سے خلافت یا جانشینی مراد لینا غلط ہے
مولا کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان سے محبت کی جائے اور انکی پیروی کی جائے
حضرت علی کی اور اہل بیت پیروی کی جائے
حضرت علی نے اور اہل بیت نے کھلے دل سے شیخین اور حضرت عثمان کی خلافت کو تسلیم کرلیا
ہمیں بھی انکی پیروی کرتے ہوئے ان سے محبت کے تقاضہ کی بنا پر شیخین اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کو بلا چوں و چرا خلیفہ برحق تسلیم کرنا چاہئے جیسا کہ حضرت علی نے اور اہل بیت اطہار نے تسلیم کیا
اسکے خلاف کرنا اہل بیت اور حضرت علی سے محبت نہیں دشمنی ہے..