Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, August 24, 2019

دیوبند سے وابستہ سنسنی خیز کہانی کا سچ۔۔


✏ فضیل احمد ناصری/صداٸے وقت۔
=========================
دو دنوں سے ایک اردو صحافی کی تحریر کئی ذرائع سے مجھ تک پہونچی۔ اس تحریر میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ دیوبند کے باشندے بے رحم، سفاک اور تہذیب و شائستگی سے بالکل عاری ہوتے ہیں۔ جناب کی تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ 10 اگست کو نظام الدین کے جماعتی مرکز سے دیوبند کو جانے والی بس اپنے مقررہ وقت پر رات آٹھ بجے کھلنے کو تیار تھی۔ اس میں 40 مسافر تھے۔ ایک لڑکی کا فون ڈرائیور کے پاس آیا کہ میں گڑگاؤں سے بذریعہ میٹرو آ رہی ہوں، بس تک پہونچنے میں مجھے دس منٹ لگیں گے، میرا انتظار کر لیں اور بس کو روانہ نہ کریں، لیکن ڈرائیور نے مسافرین کا رویہ دیکھ کر اس گزارش پر کوئی توجہ نہ دی اور یہ کہہ کر گاڑی چلا دی کہ مدر ڈیری کے پاس آؤ وہیں بس پر سوار ہونا، لیکن گاڑی پھر رکی نہیں اور لڑکی کے فون اور بار بار کی منت سماجت کو نظر انداز کر دیا گیا۔ لڑکی بالآخر بس نہ پا سکی ۔اب اللہ ہی جانتا ہے کہ اس لڑکی کا کیا ہوا؟ پھر جناب صحافی نے ڈرائیور سمیت سارے مسافروں کو سنگ دل اور نہ جانے کیا کیا کہا ہے اور مسافروں سے سوال کیا ہے کہ تمہیں 
اس رات نیند کیسے آئی؟

حالانکہ قصہ صرف اتنا ہے کہ ایک لڑکی کا فون ڈرائیور نہیں، بلکہ بس کے مالک جناب اسلم کے پاس آیا کہ گاڑی کو اپنے مقررہ وقت سے دس منٹ مزید روک لیں۔ میں گڑگاؤں سے آرہی ہوں۔ دس منٹ میں پہونچ جاؤں گی۔ گاڑی میں 40 نہیں، 35 مسافر تھے۔ نظام الدین اور دیوبند کو جوڑنے والی یہ بس ویسے بھی اپنے مقررہ وقت سے آدھا گھنٹہ تاخیر سے چلتی ہے۔ پھر لڑکی کی منت سماجت پر اسے مزید 35 منٹ روکا گیا، مگر اب بھی لڑکی نہ پہونچ سکی تو اس میں ڈرائیور سمیت کسی کا کیا قصور؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ غلطی سراسر لڑکی کی ہے، مگر صحافی صاحب نے ساری غلطی مسافروں کے سر ڈال دی۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ لڑکی کافی تاخیر سے نظام الدین پہونچی تو ڈائرکٹ مالکِ بس جناب اسلم صاحب کے پاس چلی گئی۔ انہوں نے اس لڑکی کو اپنی بیٹی کے گھر پہونچایا اور اس کی راحت و آرام کا پورا خیال رکھا گیا۔ پھر صبح کی بس سے اسے دیوبند روانہ کر دیا گیا۔
لگے ہاتھوں یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ خواتین کا بغیر کسی غیر محرم کے اتنا طویل سفر کرنا جائز نہیں۔ اس لڑکی کی کیا مجبوری تھی، اللہ جانے۔ مگر اس طرح نکلنے کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ وہ بھی اس وقت، جب کہ فتنہ اپنے پورے شباب پر ہے۔ یہ اللہ اور رسول کے احکام کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
صحافی صاحب نے اس پورے واقعہ کو جس رنگ میں پیش کیا ہے، اس سے مسلمانوں کا قسی القلب ہونا ثابت ہوتا ہے، جب کہ اس بس میں عموماً دین دار لوگ ہوتے ہیں۔ الیاسی تحریک کے افراد سمیت مدارس کے طلبہ اور مدرسین بھی ہوتے ہیں۔ اخلاقِ حسنہ کا درس دینے والے ایسے پتھر دل کیوں کر ہو سکتے ہیں کہ نازک حالات میں بھی ایک لڑکی کی فریاد تک سننے کو تیار نہ ہوں۔ جس وقت یہ تحریر میری نظر سے گزری، میں فوراً تاڑ گیا کہ یہ ساری داستان فرضی یا قریب قریب فرضی ہے، چناں چہ اولِ وہلہ میں ہی میں نے تحقیقات کے بغیر ہی اس کا رد کر دیا۔ اب جب کہ تحقیق بھی ہو چکی ہے تو میرا موقف درست نکلا۔ فالحمدللہ۔
میں اپنے قارئین سے ہمیشہ کہتا ہوں کہ مضمون نگار دیکھ کر ہی تحریر آگے کو بڑھائیں۔ آج کل ٹی آر پی کے لیے سنسنی خیز مضامین لکھے جا رہے ہیں، خدا کے واسطے ہر مضمون کو آگے نہ بھیجیں۔ قائد بننے کا ایک جدید طریقہ فرضی داستان سرائی اور اشتعال انگیز مضامین نویسی بھی ہے۔ ہم سب کو بہت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔