Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, August 9, 2019

فلسفہُ عید قرباں!!


شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی/صداٸے وقت۔
========================
اسلامی احکامات میں عمل قربانی بڑی عظیم عبادت ہے'، اسلام کے شعائر اور اس کی علامتوں میں اسے اہم حیثیت حاصل ہے،یہی وہ لمحہ جاں فزا ہے جو تکمیل اسلام کے بعد قدرت کی طرف سے اس کے بندوں کو بطور عید اور بصورت مہمانی عطا ہوا ہے کہ نویں ذی الحجہ کو یوم عرفہ میں ہی الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا (المائدہ) کی آخری آیت کے ذریعے عرفات کے میدان میں عالم گیر نظام حیات کی تکمیل کا اعلان ہوا تھا، 

اور یہی وہ ساعت ہے'جس میں خلاق عالم کے عظیم پیغمبر ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پروردگار عالم کے اشارے پر زندگی کی سب سے قیمتی متاع اور برسہا برس کی تمناؤں اور آرزوؤں کا ثمرہ جو لخت جگر کی صورت میں ان کے مستقبل کا سہارا تھا،قربان کرکے جاں نثاری اور فداکاری کا حیرت انگیز اور بے مثال کارنامہ انجام دیا تھا،
  اور یہی وہ تاریخ ہے'جس میں پیغمبر آخرالزماں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اس رسم بندگی اور نقش فداکاری کو عبادت کا درجہ دے کر قیامت تک کے لیے جاوداں کیا گیا،تاکہ اہل ایمان اس عمل قربانی کے ذریعے اطاعتِ الٰہی اور عبدیت الہی کے جذبات سے اپنے قلوب کو معمور کریں، زندگی کے سفر میں ہر قدم پر اسلامی تعلیمات کے آگے تسلیم ورضا کا ثبوت پیش کرسکیں،پروردگار عالم کے عشق میں اپنی مرضیات اپنی خواہشات،اپنی  آرزوؤں اور تمناؤں کو شریعت سے ہم آہنگ کرنے کا داعیہ ان کے دلوں میں پیدا ہو سکے، زندگی کے تمام سرمائے جو مال جان اور اولاد کی صورت میں ہوں انہیں راہ حق میں قربان کر نے کے جذبے سے ان کا وجود سرشار ہوجائے۔۔

  یہی وجہ ہے کہ رب دوجہاں نے اس عمل کو اسلام کی علامت قرار دے کر اہل اسلام پر وسعت کی شرط کے ساتھ لازم کردیا ہے،،اور لوگوں کو حج کے لیے اذن عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس دور دراز مقامات سے پیدل اور اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں تاکہ ان فوائد ومنافع کا مشاہدہ کریں جو یہاں ان کے لیے رکھے گئے ہیں اور چند مخصوص ایام میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو انہیں عطا کیا گیا ہے خود بھی کھائیں اور تنگ دستوں کی بھی امداد کریں (الحج 28)
اس کی اہمیت اور شعائر دین اسلام میں اس کی حیثیت کو مزید خداوند عالم نے اجاگر کرتے ہوئے اعلان فرمایا کہ،،اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لئے دین کی نشانیاں بنایا ہے'ان جانوروں میں تمہارے لئے سراسر فائدہ اور نفع ہے' پھر انہیں کھڑا کرکے اللہ کا نام لو اور جب وہ کروٹ کے بل گر پڑیں تو خود بھی کھاؤ اور قناعت پسند ضرورت مندوں کو بھی آسودہ کرو،ہم نے ان جانوروں کو اسی لیے تمہارے قابو میں کیا ہے'تاکہ تم شکریہ ادا کرو (الحج آیت نمبر 36) اس عمل کے وجوب کے لئے حضرت ابو ہریرہ رضی  اللہ عنہ سے مروی اس روایت سے روشن اور کیا دلیل ہوسکتی ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وسعت اور فراخی کے باوجود بھی جو  شخص قربانی نہیں کرتا ہے تو اسے یہ حق نہیں ہے کہ ہماری عید گاہ میں قدم رکھے (سنن ابن ماجہ کتاب الاضاحی مسند احمد جلد2)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتی ہیں دسویں گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ کو اولاد آدم کا کوئی عمل قربانی کا خون بہانے سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ نہیں ہے

یوم حشر میں قربانی کا عمل پیش کرنے والا اپنے مذبوحہ جانوروں کے بالوں،سینگوں اور کھر کے ساتھ آئے گا اور ان کے ذریعے ثواب حاصل کرے گا،
قربانی کے دوران جانور کا خون زمین پر گرنے سے قبل ہی بارگاہ عز و جل میں شرف قبولیت سے سرفراز ہوجاتاہے،لہذا تم خوش دلی اور مکمل نشاط کی حالت میں قربانی کرو (ترمذی کتاب الاضاحی)
حضرت زید ابن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دریافت کیا یارسول اللہ یہ قربانی کیا ہے'آپ نے فرمایا تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہےعرض کیا گیا یا رسول اللہ اس عمل میں ہمارے لئے کیا فائدہ ہے ارشاد ہوا ہر بال کے عوض ایک نیکی،عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر اون والے جانور ہوں تو۔۔۔ارشاد ہوا ہر اون کے بدلے بھی ایک نیکی حاصل ہوگی (ابن ماجہ کتاب الاضاحی)
قران کریم کی سورۃ الکوثر میں رب العالمین کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے امت مسلمہ کو،،فصل لربک وانحر کی صورت میں عید الاضحٰی کی نماز اور قربانی کا حکم ۔۔
ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق مدینہ منورہ کے دس سالہ قیام کے دوران رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پابندی کے ساتھ قربانی کا عمل،اور علی رضی اللہ عنہ کی روایت کی روشنی میں حجۃ الوداع میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سو اونٹوں کی قربانی،اور 63 اونٹوں کو بنفس نفیس ذبح کرنے پر مشتمل،تمام کرداروں کی روشنی میں چودہ صدیوں سے اساطین امت اور اسلاف امت کے علاوہ ملت اسلامیہ کی پوری جماعت  شعائر اسلام کی حیثیت سے اس عبادت کو انجام دیتی چلی آئی ہے' اور شریعت کا اہم حصہ اور عظیم رکن کے تصور میں آج تک اس پر عمل پیرا ہے،
مگر مادیت اور دنیا پرستی کے اس دور پر آشوب میں جہاں دین اسلام کے دیگر احکامات بندگان نفس اور غلامان ہوس کی فنتہ سامانیوں کا شکار ہیں وہیں شریعت کی اس عظیم الشان عبادت کو بھی  نام نہاد انسانیت کے علمبردار اور مغربی افکار و خیالات کے حاملین نے اپنی خواہشات کا نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے،اور  مختلف اعتراضات کے ذریعے اس کی اہمیت کو کم کرنے کی سعی نامسعود کی ہے'، اور یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ زمانے کے سلگتے ماحول میں عقل کا تقاضا ہے کہ قربانی کا عمل منسوخ کرکے اس میں خرچ ہونے والی رقوم سے آسمانی آفات یا زمینی حوادثات کے نتیجے میں ہونے والے متاثرین کی امداد کی جائے، قوم کےمفلسوں کی خبر گیری کی جائے، مستقبل کی صحت کے لئے اسکول اور ہاسپٹل کھولے جائیں اور دیگر رفاہی کاموں میں خرچ کرکے ان رقوم کو کارآمد بنایا جائے،اس لئے کہ بے شمار جانوروں کی بیک وقت قربانی سے جہاں مال کا ضیاع ہے وہیں جانوروں کی نسلوں کے ناپید ہونے کے قوی امکانات بھی ہیں،
   اوپر ذکر کردہ قران کریم کی آیتوں ،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تاکیدی وتہدیدی فرامین اور قربانی کے عمل پر آپ کی مواظبت کی روشنی میں مقتضائے شریعت کی تصویر بالکل نمایاں اور آفتاب نصف النہار کی طرح اس کے مطلوب کی مکمل وضاحت ہوجاتی ہے'کہ شریعت میں عین قربانی
   اپنی مکمل ہیئت اور شکل کے ساتھ امت مسلمہ پر واجب ہے،اس میں کسی طرح کی ترمیم وتبدیل،اور شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے ،
تاہم مغربی تصورات سے مستعار  ان ملحدانہ افکار نظریات کے استردادی جوابات فکر ونظر اور عقل و فہم کے لحاظ سےاس لیے ناگزیر ہیں'کہ انسانی حقوق اور سماجی خدمات کے نام سے اعتراضات کے برگ و بار عقل وخرد ہی کی بنجر زمینوں سے پیدا ہوئے ہیں۔
سو،قربانی کا وجوب اپنی عین شکل وصورت کے اعتبار سے فطرت اور عقل کے مطابق اس لیے ہے'کہ یہ عمل حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اتباع میں انسانوں کے جان کا فدیہ اور بدل ہے'اور اصولی اعتبار سے بدل کا مزید بدل نہیں ہوا کرتا۔
دوسری وجہ کائینات کے أصول کے مطابق خلاق عالم نے تمام اشیاء حیوانات نباتات اور جمادات کو دو اجزاء کے ساتھ تخلیق کیا ہے'،ایک صورت اور دوسری اس کی روح،کائنات کی کوئ چیز ان دونوں کے اتحاد کے بغیر باقی نہیں رہ سکتی،روح کے بغیر جسم اور صورت محض صورت اور لاشہ ہے'اسی طرح جسم کے بغیر روح کا قیام بھی ناممکن اور محال ہے اور جس طرح پورے جسم کے لئے روح کا مجموعہ ہے اسی طرح ہر ہر جز کے لئے مستقل روح ہے'درخت کی ایک شاخ کاٹ دی جائے تو اس کی قوت حیات دوسری شاخوں میں منتقل نہیں ہوسکتی انسان کے ایک حصے کو مثلاً ہاتھ کو بدن سے علیحدہ کردیا جائے تو اس کی روح اور طاقت آنکھ میں یا آنکھ کو الگ کر دینے سے بینائی کی روح ناک یا کان میں نہیں آسکتی حاصل یہ کہ کائنات کی تمام مخلوقات روح اور جسم کے اتحاد ہی سے قائم ہیں'ان دونوں کا اتحاد زندگی اور انتشار موت ہے'،ٹھیک یہی اصول اور سسٹم تشریعی معاملات میں بھی ہے'کہ ہر عبادت اور ہر عمل کی ایک صورت ہے اور ایک اس کی حقیقت اور روح ہے'، روح کے بغیر عبادت بے مقصد رسم اور عمل کی صورت کے بغیر روح کا تحقق محال اور ناممکن۔
مثلاً مخصوص ہیئت وافعال کا عمل ایک صورت اور جسم ہے'جو وضو کی پہچان کا ذریعہ ہے اور طہارت و پاکیزگی اس کی روح ہے'، نماز اپنے تمام ظاہری افعال کے ساتھ ایک صورت اور جسم ہے'اور اظہار عبدیت اور قرب الہٰی اس کی روح، زکاۃ اپنے انفاق کے فعل کے ساتھ صورت اور جذبہ سخاوت اس کی روح،حج مخصوص افعال کے ساتھ صورت اور عشق وارفتگی کی کیفیت اس کی روح،
ٹھیک اسی طرح قربانی کا عمل بھی دو اجزاء سے ہی متحقق ہوتاہے جانور کے ذبح کا عمل اؤر قربانی کا فعل اس کی صورت اور تقرب الی اللہ اور ایثار نفس اس کی روح اور حقیقت ہے'جس طرح تکوینی نظام میں ایک روح دوسرے حصے میں منتقل نہیں ہوسکتی اسی طرح یہاں بھی ایثار نفس کی روح دوسری عبادات وہ صدقہ کی صورت میں ہو یا کسی دوسری شکل وجسم میں منتقل نہیں ہوسکتی،
اس اصول کے حوالے سے اور عقل وفہم کی روشنی میں یہ بات اظہر من الشمس ہوگئی کہ شریعت کی تمام عبادتیں اپنے جسم اور روح کے ساتھ مستقل طور پر اسلام کو مطلوب ہیں'، ان کی صورت یاروح کو الگ کر دینے سے وہ عبادت ہی نہیں رہیں گی اور جب عبادت نہیں رہیں گی تو ان پر اجر وثواب کی امید بھی بے معنیٰ ہے،
دوسرے یہ کہ تمام اعمال شرعیہ کا مقصود تقوی ہے'جو مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتاہے مثلاً نماز سے عاجزی وانکساری کی صورت میں،روزے میں تزکیۂ نفس کی شکل میں،جہاد میں شجاعت کی صورت میں،صدقہ میں انفاق مال کی صورت میں،اور قربانی سے فدائت وجاں نثاری کی صفت میں پیدا ہوتاہے اور قلوب پر اثر انداز ہوتا ہے،تقوی کی صورت میں مذکور ہ اوصاف ہر عبادت کے ساتھ مخصوص ہیں'جو انہیں کو اختیار کرنے سے حاصل ہوسکتے ہیں'،پس جس طرح نماز کی عبادت سے انفاق مال کا تقویٰ اور روح نہیں مل سکتی اسی طرح زکاۃ اور صدقۃ سے فداکاری اور ایثار نفس کی صورت میں قربانی کا تقویٰ اور روح کا حصول عقل و خرد سے متوازی  اور شرعی اصولوں کے خلاف ہے'
اب اگر کسی نے قربانی نہ کرکے صدقہ کیا تو یہ فریضہ بدستور اس پر باقی رہے گا روزہ نہ رکھ کر نماز پڑھا تو روزے کا فریضہ علی حالہ اس پر موجود رہے گا اور قیامت کے روز ترک روزہ اور ترک قربانی پر مؤاخذہ ہوگا
جس طرح کسی شخص نے کھانا پکانے کے لئے ملازم رکھا مگر اس ملازم نے کھانا نہ پکا کر گھر کی بہترین صفائی کی اور دوسری اچھی خدمات پیش کیں،اب اگر مالک یہ دیکھ کر کہ دوسری تمام خدمات تو موجود ہیں مگر کھانا نہیں تیار کیا گیا ہے تو یقیناً مالک اس سے باز پرس کرے گا،اور اس باز پرس پر ملازم اگر جواب میں کہے کہ میں نے گھر کی صفائی اور دیگر اچھے اور معیاری کاموں کو انجام دے دیا ہے'تو ظاہر ہے عقل کے لحاظ سے اس عمل کو حماقت کے خانے میں رکھا جائے گا اور جواب کو دیوانگی کے دائرے میں۔۔
ہر چند گھر کے دوسرے امور کی انجام دہی ایک بہترین عمل تھا لیکن مالک کو وہ مطلوب نہیں تھا، قربانی کے مرحلے میں بھی اس ضابطے کے علاوہ اور اس فلسفہ کے علاوہ دوسرا کوئی اصول نہیں ہے جس کی بنیاد پر عمل قربانی کی لاش پر نام نہاد صدقات کی عمارت کھڑی کی جائے،
اگر اسلام میں قربانی کی جگہ صدقہ کی ذرا بھی گنجائش ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسانیت نواز اس پر خود عمل کیوں نہ کرتا جب کہ اس وقت مدینہ منورہ میں عام طور پر مفلوک الحالی ہرسو پھیلی ہوئی تھی اقتصادی معاملات بہت مظبوط ومستحکم نہیں تھے آپ کے ساتھ ساتھ آپ کے اصحاب کی زندگیوں میں فاقوں کی حالت میں راتوں کا گذر جانا غیر معمولی واقعہ نہیں تھا لیکن باوجود اس کے احادیث وسیر کے اوراق بتارہے ہیں'کہ
،،آپ نے ایک مرتبہ سفیان بجلی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جس نے اپنی قربانی عید کی نماز سے پہلے کی تو اس کا اعتبار نہیں ہے اس پر لازم ہے کہ عید کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد دوبارہ قربانی کرے (صحیح بخاری) ایسی صورت حال میں بھی قربانی کے اعادے کا حکم اس بات پر روشن دلیل ہے'کہ قربانی ایک مستقل وجوبی عبادت ہے'جو وقت اور حالات کے تغیرات کے باوجود کسی ترمیم یا کسی تنسیخ کے تصور سے یکسر خالی ہے۔
،ہر چند انفاق فی سبیل اللہ اسلام میں محمود ہے'مگر اس مخصوص وقت میں وہ مطلوب نہیں ہے ان ایام میں
صدقات و خیرات کے مظاہرے کے لیے یہ کیونکر ضروری ہوگیا کہ آفات ارضی وسماوی کے متاثرین اور خط افلاس کے نیچے زندگی گزارنے والی انسانی دنیا کی امداد
اسلام کے ایک عظیم الشان رکن کی لاش پر کی جائے اور اس کے لئے اسلام کی گردن پر چھری چلائی جائے اگر واقعی اسلام اور انسانیت کا درد وکرب اور اس کی ہمدردی ہے'تو اس ہمدردی اور تڑپ کا تقاضا ہے'کہ چھری بجائے اسلام کی گردن پر چلے اپنی خواہشات نفس پر چلنی چاہئے،زندگی کے معیار کی سطح کو نیچے لانا چاہیے، اپنے اخراجات میں کمی کرنی چاہیے فضول اخراجات کو ترک کرنا چاہیے تاکہ امداد وتعاون کی راہیں ہموار ہوں ،انسانیت سازی کا راستہ کھلے اور اسلامی صورت بھی اپنی حالت پر قائم رہے،اس کے بغیر انسانی تعاون کا دعویٰ اور اس کی طرف دعوت الحاد کے کھوکھلے نعروں کے سوا کچھ نہیں ہے،
رہا سوال قربانی کے باعث بے شمار جانوروں کے ضیاع کا تو عرض ہے'کہ اسی ملک میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جنہیں کبھی گوشت کی نعمت مفلسی کے باعث نصیب نہیں ہوتی، قربانی کے ذریعے ان کے چولھے آباد ہوجاتے ہیں'،قربانی کی کھالوں سے کتنے تنگ دستوں اور مفلسوں کی امداد ہوجاتی ہے اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا،دوسرے یہ کہ قربانی کے ایام میں لاکھوں کی تعداد میں وہ جانور جو بطور ذبیحہ کاٹے جاتے ہیں وہ بالکلیہ موقوف رہتے ہیں'اس اعتبار سے بنظر غائر دیکھا جائے تو عام دنوں اور قربانی کے ایام میں جانوروں کی تعداد میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے ایسی صورت میں یہ کہنا کہ یہ عمل مال وزر کی تباہی کا ذریعہ ہے حقائق سے صراحتاً روگردانی ہے'جو ذرا بھی قابل اعتنا نہیں ہے،
حاصل یہ ہے کہ قربانی کا عمل اپنی صورت اور حقیقت دونوں اعتبار سے شریعت کی نگاہ میں اہم ہے'اور ہر صاحب نصاب پر واجب ہے، یہ خدا کی راہ میں عبدیت فنائیت،اور جاں نثاری کا روشن مظہر ہے اس کی شکل وصورت کو نظر انداز کر کے اس کی جگہ دوسری عبادت کا تصور نہ ہی عقل کے مطابق ہے'اور نہ ہی اسلام میں اس کی گنجائش ہے'۔۔
شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
امام وخطیب مسجد انوار شواجی نگر گوونڈی ممبئی