✍ محمد انور داؤدی، قاسمی،ایڈیٹر"روشنی"
اعظم گڈھ/صداٸے وقت۔
=============================
*قارئین کرام!*
آپ پچھلی قسط میں ہندوستان کا تعارف، اس کی پہلی آبادی اور رہن سہن کے بارے میں پڑھ چکے ہیں، بات یہاں تک آگئی تھی کہ سکندر کے حملے کے بعد ہندوستانیوں کو احساس ہوا کہ بیرونی طاقتوں سے حفاظت کے لئے ایک مشترکہ قومی حکومت کی شدید ضرورت ہے، چنانچہ چندر گپت موریا" نند خاندان "کے خلاف بغاوت کر کے سلطنت پر قابض ہوگیا یہی وہ بادشاہ ہے جس کی اب تک کی تاریخ میں سب سے مستحکم حکومت تھی محض 24/ سال کی حکمرانی میں اس نے ہندوستان کو ایک ناقابل تسخیر قوت بنادیا تھا، افغانستان سے کرناٹک تک اور بنگال سے گجرات تک اس کی دھاک جمی ہوئی تھی، اس کی فوجی طاقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ اس زمانے میں اس کے پاس چھ لاکھ پیادے تیس ہزار فوجی اور نو ہزار جنگی ہاتھی تھے۔
اعظم گڈھ/صداٸے وقت۔
=============================
*قارئین کرام!*
آپ پچھلی قسط میں ہندوستان کا تعارف، اس کی پہلی آبادی اور رہن سہن کے بارے میں پڑھ چکے ہیں، بات یہاں تک آگئی تھی کہ سکندر کے حملے کے بعد ہندوستانیوں کو احساس ہوا کہ بیرونی طاقتوں سے حفاظت کے لئے ایک مشترکہ قومی حکومت کی شدید ضرورت ہے، چنانچہ چندر گپت موریا" نند خاندان "کے خلاف بغاوت کر کے سلطنت پر قابض ہوگیا یہی وہ بادشاہ ہے جس کی اب تک کی تاریخ میں سب سے مستحکم حکومت تھی محض 24/ سال کی حکمرانی میں اس نے ہندوستان کو ایک ناقابل تسخیر قوت بنادیا تھا، افغانستان سے کرناٹک تک اور بنگال سے گجرات تک اس کی دھاک جمی ہوئی تھی، اس کی فوجی طاقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ اس زمانے میں اس کے پاس چھ لاکھ پیادے تیس ہزار فوجی اور نو ہزار جنگی ہاتھی تھے۔
چندر گپت کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا بندوسار سلطنت کا مالک بنا پھر بندوسار کا بیٹا اشوک۔
اشوک جسے اشوک اعظم بھی کہا جاتا ہے یہ چندر گپت کا پوتا اور موریا سلطنت کا تیسرا بادشاہ تھا۔
272 یا 273 ق م میں تخت نشیں ہوا مگر آپسی خانہ جنگی کی وجہ سے تاجپوشی کی رسم 269ق م میں انجام پائی۔
اشوک برہمنی مت کا متشدد پیروکار اور بدھ مت کا سخت دشمن تھا بدھ مت کے مبلغوں کو بے دردی سے قتل کرادیتا تھا، اسے ملک گیری کی ہوس تھی جنوبی ہند کی مشہور ریاست کو اپنی سلطنت میں شامل کرنے کے لئے کلنگ (اڑیسہ) پر چڑھائی کی انجام کے اعتبار سے اشوک نے جنگ تو جیت لی لیکن اس جنگ نے اس کی زندگی کی کایا پلٹ دی، کہتے ہیں کہ اس لڑائی میں ایک لاکھ لوگ مارے گئے اور ڈھیڑ لاکھ لوگ قید ہوئے اور ان سے زیادہ اپاہج اور ناکارہ ہوگئے، اس خون خرابے نے اس کا کلیجہ دہلا کے رکھ دیا، چنانچہ اس نے جنگ سے توبہ کرلی اور نہ صرف بدھ مت اختیار کرلیا بلکہ اس مذہب کا زبردست حامی اور پرجوش مبلغ بھی بن گیا، بدھ مذہب کو انفرادی اور سرکاری سطح پر خوب عام کیا۔
چالیس (40) سال تک شان سے حکومت کرنے والا یہ بادشاہ 232 ق م میں انتقال کر گیا۔
272 یا 273 ق م میں تخت نشیں ہوا مگر آپسی خانہ جنگی کی وجہ سے تاجپوشی کی رسم 269ق م میں انجام پائی۔
اشوک برہمنی مت کا متشدد پیروکار اور بدھ مت کا سخت دشمن تھا بدھ مت کے مبلغوں کو بے دردی سے قتل کرادیتا تھا، اسے ملک گیری کی ہوس تھی جنوبی ہند کی مشہور ریاست کو اپنی سلطنت میں شامل کرنے کے لئے کلنگ (اڑیسہ) پر چڑھائی کی انجام کے اعتبار سے اشوک نے جنگ تو جیت لی لیکن اس جنگ نے اس کی زندگی کی کایا پلٹ دی، کہتے ہیں کہ اس لڑائی میں ایک لاکھ لوگ مارے گئے اور ڈھیڑ لاکھ لوگ قید ہوئے اور ان سے زیادہ اپاہج اور ناکارہ ہوگئے، اس خون خرابے نے اس کا کلیجہ دہلا کے رکھ دیا، چنانچہ اس نے جنگ سے توبہ کرلی اور نہ صرف بدھ مت اختیار کرلیا بلکہ اس مذہب کا زبردست حامی اور پرجوش مبلغ بھی بن گیا، بدھ مذہب کو انفرادی اور سرکاری سطح پر خوب عام کیا۔
چالیس (40) سال تک شان سے حکومت کرنے والا یہ بادشاہ 232 ق م میں انتقال کر گیا۔
*موریا سلطنت کا خاتمہ*
اشوک کے بعد خاندان موریا اختلاف کا شکار ہوگیا اس کے پوتے وغیرہ سلطنت کے وارث تو ہوئے لیکن کسی میں اتنی قابلیت اور لیاقت نہ تھی کہ سلطنت کے نظام کو مستحکم کرسکتے۔
اشوک کے بعد حالات تین سوسال کے بعد تک بھی بہت واضح نہیں ہیں، صحیح و تاریخی حقائق پردہ خفا میں ہیں، مانا جاتا ہے کہ یہ دور افراتفری کا دور تھا اور یہی وہ دور تھا جب عیسی علیہ السلام مبعوث ہوئے۔
خاندانی اختلاف اور حکمرانوں کی بے راہ روی نے بہت سے مفاسد کے دروازے کھول دیئے بر ہمنوں کو پنپنے کا موقع ملا، باہری قومیں حملے کا منصوبہ بنانے لگیں اور خود فوج میں بھی اپنے بادشاہ کے خلاف بغاوت کی لہر پھوٹنے لگی۔
چنانچہ 185ق م موریا سلطنت کے آخری بادشاہ برہدرتھ موریا کو اسی کی فوج کے سپہ سالار پُشی متر نے قتل کر دیا اور خود سلطنت پر قابض ہوگیا۔
اسی طرح 322 ق م تا 185 ق م
سلطنت موریا کا 137/ سالہ دورحکومت کا خاتمہ ہوگیا۔
اشوک کے بعد حالات تین سوسال کے بعد تک بھی بہت واضح نہیں ہیں، صحیح و تاریخی حقائق پردہ خفا میں ہیں، مانا جاتا ہے کہ یہ دور افراتفری کا دور تھا اور یہی وہ دور تھا جب عیسی علیہ السلام مبعوث ہوئے۔
خاندانی اختلاف اور حکمرانوں کی بے راہ روی نے بہت سے مفاسد کے دروازے کھول دیئے بر ہمنوں کو پنپنے کا موقع ملا، باہری قومیں حملے کا منصوبہ بنانے لگیں اور خود فوج میں بھی اپنے بادشاہ کے خلاف بغاوت کی لہر پھوٹنے لگی۔
چنانچہ 185ق م موریا سلطنت کے آخری بادشاہ برہدرتھ موریا کو اسی کی فوج کے سپہ سالار پُشی متر نے قتل کر دیا اور خود سلطنت پر قابض ہوگیا۔
اسی طرح 322 ق م تا 185 ق م
سلطنت موریا کا 137/ سالہ دورحکومت کا خاتمہ ہوگیا۔
*سُنگ خاندان کا قبضہ*
موریا سلطنت کے آخری بادشاہ کو قتل کرنے والے پشی متر کا تعلق سنگ خاندان سے ہی تھا اور یہی سلطنت پر قابض بھی ہوا لہٰذا 185 ق م میں سنگ خاندان کی بنیاد اسی نے ڈالی پشی متر کی سلطنت کا دائرہ بھی کافی وسیع تھا اسی کے دور حکومت میں یونانیوں نے ایک بار پھر ہندوستان پر حملہ کیا سکندر کے بعد یونانیوں کا یہ دوسرا حملہ تھا۔
تقریباً 155 ق م
مینڈر نامی یونانی بادشاہ نے حملہ کیا تھا جو باختری بادشاہ (1)کے ساتھ تھا اس کا حملہ اتنا منظم اور شدید تھا کہ گنگا تک کا علاقہ اس نے فتح کر لیا تھا، لیکن پشی متر کے جوانوں نے بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا بالآخر مینڈر کو منھ کی کھانی پڑی اور واپس ہوا۔
پشی متر اس کے بعد تقریبا 5/ سال اور زندہ رہ کر مرگیا، پشی متر آرین تھا اس نے بھی بدھوں پر بہت ظلم کیا ، پھر اس کے جانشیں آتے رہے لیکن ان میں بڑی افرا تفری، اور سازش رہی نتیجۃً اس خاندان کے آخری اور دسویں بادشاہ
دیو بھوتی یا
دیو بھومی کو خود اسی کے برہمن وزیر بسو دیو نے قتل کردیا اس طرح 185ق م تا 73 ق م 112سال کی سنگ سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔
تقریباً 155 ق م
مینڈر نامی یونانی بادشاہ نے حملہ کیا تھا جو باختری بادشاہ (1)کے ساتھ تھا اس کا حملہ اتنا منظم اور شدید تھا کہ گنگا تک کا علاقہ اس نے فتح کر لیا تھا، لیکن پشی متر کے جوانوں نے بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا بالآخر مینڈر کو منھ کی کھانی پڑی اور واپس ہوا۔
پشی متر اس کے بعد تقریبا 5/ سال اور زندہ رہ کر مرگیا، پشی متر آرین تھا اس نے بھی بدھوں پر بہت ظلم کیا ، پھر اس کے جانشیں آتے رہے لیکن ان میں بڑی افرا تفری، اور سازش رہی نتیجۃً اس خاندان کے آخری اور دسویں بادشاہ
دیو بھوتی یا
دیو بھومی کو خود اسی کے برہمن وزیر بسو دیو نے قتل کردیا اس طرح 185ق م تا 73 ق م 112سال کی سنگ سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔
*کانو یا کنوا خاندان*
73 ق م میں سنگ خاندان کے آخری راجہ کو جس برہمن وزیر نے قتل کر کے تخت پر قبضہ کیا تھا اس کا تعلق چونکہ کانو، کَنوا خاندان سے تھا اس لئے اس سلطنت کا نام کانو خاندان پڑگیا اور
بسو دیو کانو خاندان کا پہلا راجہ ہوا، اس خاندان میں کل چار راجہ ہوئے اور 73ق م تا 27 ق م، 45سال میں ہی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔
بسو دیو کانو خاندان کا پہلا راجہ ہوا، اس خاندان میں کل چار راجہ ہوئے اور 73ق م تا 27 ق م، 45سال میں ہی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔
*اَندھر خاندان*
کانو خاندان کے آخری راجہ کو 27 ق م میں اندھر، اندھیر یا اندھیرا کے راجہ نے قتل کر کے خود پوری سلطنت پر قبضہ کرلیا۔(2)
پھر ان میں بھی جانشینی کو لے کر کھینچا تانی شروع ہوئی اور بغاوتیں ہونے لگیں اور باہری قوتوں کو بھی حملہ کرنے کا موقع مل گیا، سلطنت کے بعض حصے پر
ست داہن نے قبضہ کرلیا اور بعض پر باختری یونانی بادشاہوں کے ماتحت چَھتراپ بھی اپنے آقا کے خلاف بغاوت کر کے اندھر خاندان پر خود غالب آگئے۔
پھر ان میں بھی جانشینی کو لے کر کھینچا تانی شروع ہوئی اور بغاوتیں ہونے لگیں اور باہری قوتوں کو بھی حملہ کرنے کا موقع مل گیا، سلطنت کے بعض حصے پر
ست داہن نے قبضہ کرلیا اور بعض پر باختری یونانی بادشاہوں کے ماتحت چَھتراپ بھی اپنے آقا کے خلاف بغاوت کر کے اندھر خاندان پر خود غالب آگئے۔
*تاتاری (یوچی) کا حملہ*
اندھر خاندان کے گمنامی میں چلے جانے کے بعد ملک کے مختلف حصے میں الگ الگ سلطنتیں قائم رہیں یہی دور ایران کے عروج اور یونان کے زوال کا تھا، ایک خانہ بدوش قوم یوچی تھی جو وسط ایشیا (چین اور ایران کے مابین) رہائش پذیر تھی جو اپنے حریف سے شکست کھا کر بھاگی
اور ہندوستان کا رخ کیا راستے میں کئی قوموں سے ان کا مقابلہ بھی ہوا مگر یوچی لوگ بڑے لڑاکو تھے اور مقدار میں بھی زیادہ تھے اس لئے سب پر غالب ہوتے رہے اور دھیرے دھیرے باختری یونانی اور ہندی پارتھی بادشاہوں کا بھی خاتمہ ہوگیا اور پنجاب وغیرہ پر تاتاریوں کا قبضہ ہوگیا۔
پھر ان یوچی تاتاریوں میں بھی تقسیم ہوگئی اور ان کے مختلف قبائل الگ الگ حصے پر قابض ہوگئے۔
اور ہندوستان کا رخ کیا راستے میں کئی قوموں سے ان کا مقابلہ بھی ہوا مگر یوچی لوگ بڑے لڑاکو تھے اور مقدار میں بھی زیادہ تھے اس لئے سب پر غالب ہوتے رہے اور دھیرے دھیرے باختری یونانی اور ہندی پارتھی بادشاہوں کا بھی خاتمہ ہوگیا اور پنجاب وغیرہ پر تاتاریوں کا قبضہ ہوگیا۔
پھر ان یوچی تاتاریوں میں بھی تقسیم ہوگئی اور ان کے مختلف قبائل الگ الگ حصے پر قابض ہوگئے۔
*راجہ کنِشک*
یوچی تاتاری قبائل میں ”کِشن یا کشان“ خاندان سب سے بڑا تھا اس میں ایک راجہ کنشک گزرا ہے جو
کڈ فائسس دوم کا جانشین بنا78 سے 123ء تک اس نے سلطنت کو خوب مضبوط اور وسیع کیا۔
پرشپو موجودہ پشاور اس کی سلطنت کا پایہ تخت تھا، کابل، کشمیر، بلکہ تمام ہندوستان سے نربد تک کا حکمراں تھا۔
آخر میں مذہب بدل کر بدھ کا حامی ہو گیا تھا اشوک کے بعد راجہ کنشک کا نام بدھ مذہب کی تشہیر و تبلیغ کے لئے بڑا اہم ہے۔
لیکن کہتے ہیں کہ جب خدا کی دی ہوئی طاقت کا غلط استعمال ہونے لگے اور طاقت کے غرور میں کمزوروں پر ظلم ہونےلگے تو ذلت مقدر ہوتی ہے برہمنیت کے ظلم و
بے جا رسموں سے تنگ آکر اس کی اصلاح کے لئے بدھ مت کا وجود ہوا تھا لیکن اس کے پیروکار خود گوتم بدھ کے اصولوں سے منحرف ہوگئے لوگوں کو بدھ مت کی مورتی کو پوجنے پر مجبور کرنے لگے، دوسرے عقائد کے لوگوں کوپریشان کیا جانے لگا نتیجہ واضح تھا سماج میں بگاڑ ہونے لگا
بے اخلاقی جنم لینے لگی آخر اللہ کی پکڑ آئی اور ان سے اقتدار چھین کر پھر برہمنوں کے حوالے کردیا۔
اور کشان خاندان کے آخری بادشاہ بسو دیو یاداسو دیو کی حکمرانی کے ساتھ 320ء میں اس عظیم سلطنت کو زوال آگیا۔
(جاری …………)
Mdanwardaudi@gmail.com
16/09/019
کڈ فائسس دوم کا جانشین بنا78 سے 123ء تک اس نے سلطنت کو خوب مضبوط اور وسیع کیا۔
پرشپو موجودہ پشاور اس کی سلطنت کا پایہ تخت تھا، کابل، کشمیر، بلکہ تمام ہندوستان سے نربد تک کا حکمراں تھا۔
آخر میں مذہب بدل کر بدھ کا حامی ہو گیا تھا اشوک کے بعد راجہ کنشک کا نام بدھ مذہب کی تشہیر و تبلیغ کے لئے بڑا اہم ہے۔
لیکن کہتے ہیں کہ جب خدا کی دی ہوئی طاقت کا غلط استعمال ہونے لگے اور طاقت کے غرور میں کمزوروں پر ظلم ہونےلگے تو ذلت مقدر ہوتی ہے برہمنیت کے ظلم و
بے جا رسموں سے تنگ آکر اس کی اصلاح کے لئے بدھ مت کا وجود ہوا تھا لیکن اس کے پیروکار خود گوتم بدھ کے اصولوں سے منحرف ہوگئے لوگوں کو بدھ مت کی مورتی کو پوجنے پر مجبور کرنے لگے، دوسرے عقائد کے لوگوں کوپریشان کیا جانے لگا نتیجہ واضح تھا سماج میں بگاڑ ہونے لگا
بے اخلاقی جنم لینے لگی آخر اللہ کی پکڑ آئی اور ان سے اقتدار چھین کر پھر برہمنوں کے حوالے کردیا۔
اور کشان خاندان کے آخری بادشاہ بسو دیو یاداسو دیو کی حکمرانی کے ساتھ 320ء میں اس عظیم سلطنت کو زوال آگیا۔
(جاری …………)
Mdanwardaudi@gmail.com
16/09/019