Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, September 30, 2019

ٹیپو سلطان شہید ؒ کے شہر میں چند روز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قسط ہفتم (7ویں قسط).



✏ فضیل احمد ناصری /صدائے وقت
========================
*تصور میں ٹیپو*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لال باغ کی سیر اچھی طرح کر چکا تھا۔ مغرب کے بعد مسجد میں بیٹھ کر میں اس فضا میں کھو گیا جس میں ٹیپو مرحوم نے سانسیں لی تھیں۔ اپنے بچپن کے ایام، جوانی کے دن اور کہولت کے زمانے گزارے تھے۔ کیا کہا! کہولت! وہ اس عمر تک اچھی طرح پہونچے بھی کہاں تھے! 1750 میں پیدا ہوئے اور 1799 میں شہادت بھی پا گئے۔ ان کی ایک کاغذی تصویر میرے سامنے جب بھی گزری، بس ایک ہی گزری۔ چہرہ ڈراؤنا۔ شبیہ کفر زدہ۔ رعونت سے بھرپور ۔ نحوست سے عبارت۔ داڑھی مونڈی ہوئی اور مونچھیں کھڑی ہوئی اور بہت موٹی۔ سر پر بڑا سا پگڑ۔ ہیرے جواہرات سے جڑا ہوا۔ میں سوچا کرتا کہ جس آدمی کا یہ حلیہ ہو، اس سے محبت کیا وابستہ کرنا، لیکن جب انہیں پڑھا اور ان کے حالاتِ زندگی نگاہوں سے گزرے تو میری دنیائے تصور ہی زیر و زبر ہو گئی۔ دل نے فوراً کہا کہ یہ ضرور دشمنوں کی چلائی ہوئی تصویر ہے۔ ہمارا ٹیپو ایسا نہیں ہو سکتا۔ وہ تو اپنے دور کا گویا خلیفۂ راشد تھا۔ نبیﷺ کا عاشق۔ صحابہؓ کا دل دادہ۔ قرآن و حدیث کا رسیا۔ علومِ دینیہ کا شیدا۔ اردو کا دیوانہ۔ نمازوں پر مرنے والا۔ سکے جاری کیے تو حضور ﷺ اور صحابہؓ کے نام سے ۔ ایسا آدمی اس حلیے کا کیوں ہونے لگا! میں نے گوگل پر تلاش کی تو خوش قسمتی سے ایک تصویر ایسی بھی ملی، جو ان کی سیرتِ طیبہ سے خوب میل کھاتی ہے۔ ایک دبلا پتلا چھریرا سا سراپا۔ رنگ گہرا سانولا۔ علاقے کا نمائندہ۔ سر پر تاج کے بجائے سادہ سا عمامہ۔ رخِ انور ریشِ مبارک سے منور۔ جبینِ نیاز پر سجدے کی چمک۔ آہنی تن پر مسنون کرتا۔ پاجامہ بھی سیدھا سادا۔ شمشیر بدست۔ عزیمت و ایمان کا مجسمہ۔ یہی اصلی تصویر ہے، جو لندن کے برٹش میوزیم میں محفوظ ہے اور حالیہ دنوں میں اس نے جلوہ دکھایا۔ میں بہ نظرِ غائر ایک نظر اسے دیکھتا اور ایک نظر مزارِ ٹیپو کو۔

ٹیپو سلطان کی حقیقی تصاویر۔۔۔۔لندن کے میوزیم میں


*سید صبغت اللہ صاحب کے حلقۂ ذکر میں شرکت*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر عشا کی نماز ہوئی اور نماز کے بعد عشائیہ۔ تھوڑی سی چہل قدمی، بعدہ آرام۔ اب رات کے سوا نو بج چکے تھے۔ حلقۂ ذکر کا اعلان ہوا اور ہم مجلس میں شریک ہو گئے۔ ذکر کی یہ مجلس جس جگہ منعقد ہوئی تھی، یہ وہی مقام تھا، جہاں ٹیپو شہید عموماً اپنی نمازیں ادا کرتے۔ سید صبغت اللہ صاحب کے مختصر حالات پہلے لکھ چکا ہوں۔ ان کا ایک اور جلوہ پھر دیکھنے کو ملا۔ بتیاں بجھا دی گئیں۔ مسجد پوری طرح اندھیری ہو گئی۔ ہاتھ کو ہاتھ دکھائی نہ دیتا۔ سید صاحب نے ذکر شروع کرایا۔ ساٹھ ستر لوگ بھی ہم آواز ہو گئے۔ دو گھنٹے لگاتار ذکر جاری رہا۔ عجیب و غریب۔ میں کئی مشائخ سے مربوط رہا ہوں۔ حضرت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ کی مجلس میں بھی باریاب رہا۔ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق ہردوئیؒ کا تو باقاعدہ مرید رہا۔ افسوس کہ ان کی عمر نے وفا نہ کی۔ استفادہ جیسا چاہیے تھا، نہ ہو سکا۔ بہار میں حضرت مولانا شمس الہدیٰ صاحب مدظلہ کے حلقے میں بھی کافی دنوں شریک رہا، مگر سید صاحب کی مجلس ان میں سب سے جدا۔ ذکر کراتے کراتے اچانک تقریر چل پڑتی۔ معرفتِ الہیہ کو مہمیز کرنے والی۔ دنیا سے بیزار کرنے والی۔ پھر اچانک ذکر۔ درود شریف اور آیاتِ قرآنیہ کا ورد ۔ اور پھر اچانک اسلاف کا ذکرِ خیر۔ علم و عرفان کا سنگم۔ پھر ذکر و انابت۔ موقع بہ موقع اشعار۔ عشق و مستی سے معمور۔ شرکا کی چیخیں نکل رہی تھیں۔ آہ و بکا سے پوری مسجد گونج رہی تھی۔ ہر بندہ اپنے گناہوں پر نادم۔ معاصی سے تائب۔ مستقبل میں نفس و شیطان سے بچنے کا عہد۔ میں خود کو بڑا خوش قسمت سمجھتا رہا اور دل دل میں کہتا رہا کہ میرا نامۂ اعمال اگرچہ سیاہ سہی، امید ہے کہ یہ بیٹھنا ہی ان شاءاللہ مغفرت کا سبب بن جائے گا۔ میں اسے اپنی زندگی کا حاصل باور کرتا رہا اور اب بھی ان حلقوں کو عالمِ جاوید کا سب سے بڑا بازار تصور کرتا ہوں۔ دو گھنٹے کیسے نکل گئے، پتہ ہی نہ چلا۔ پھر چائے کا وقفہ ہوا۔ تھوڑی استراحت اور اس کے بعد پھر حلقۂ ذکر۔ رات بھر یہ سلسلہ چلا۔ تہجد کے وقت توفیق مندوں نے ہشت گانے ادا کیے۔ نمازِ فجر ہوئی۔ پھر 11 بجے تک آرام کیا۔

*حضرت ٹیپو سلطان شہیدؒ ریسرچ سینٹر*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آرام کے لیے جس عمارت کا انتخاب ہوا اس کی زیارت میرے لیے خوش گوار حیرت کا سبب تھی۔ یہ سلطان شہیدؒ کی یاد میں قائم *حضرت ٹیپو سلطان
ٹیپو سلطان میوزیم

شہیدؒ ریسرچ سینٹر* کی عمارت تھی۔ عمارت کوئی زیادہ وسیع و عریض تو نہ تھی، مگر زمین کا دامن طول و عرض میں دور تک پھیلا ہوا۔ ناریل کے درختوں سے آباد۔ دل فریب پھولوں اور نظر نواز پھلواریوں سے آباد۔ اس سینٹر کی بنیاد مفکرِ اسلام حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کے ہاتھوں 1997 میں پڑی۔ اس کی تعمیر مکمل ہوئی تو افتتاح 1999 میں علی میاںؒ کے خلیفہ مولانا عبدالکریم پاریکھؒ کے ہاتھوں ہوا۔ یہاں فضلائے مدارس کے لیے عصری علوم کا بہترین نظم ہے۔ ٹیپو شہید نے بھی جامع الامور نام کی ایک یونیورسٹی بنائی تھی۔ افسوس کہ ان کی شہادت کے بعد اس کا سراغ بھی نہیں ملتا۔۔ خدا کرے یہ سینٹر گزرتے دنوں کیساتھ جماع الامور کی جگہ
لےلے
( اگلی قسط میں پڑھیں ٹیپو سلطان کی شہادت گاہ کی زیارت )