Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, September 8, 2019

برادران وطن کتنی باریکی سے ہمارا جاٸزہ لتے ہیں!!!

از/ محمد أسامہ فلاحی/صداٸے وقت۔
=========================
طلب علم کی خاطر کئی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا اور ہر یونیورسٹی سے بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملا، ادیان و مذاھب سے دلچسپی کی وجہ سے دیگر مذاھب سے کے لوگوں سے بہت سارے موضوعات پر گفتگو بھی ہوئیں۔۔۔۔۔جس کے ذریعے انکی سوچ و فکر کو عملی طور پر قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا۔
پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ میں برادران وطن کی ایک بڑی تعداد سکھوں سے قریب ہونے کا خوب موقع ملا۔ اس یونیورسٹی میں ابھی شاید مدرسے کا پڑھا ہوا اکیلا طالب علم میں ہی ہوں،اس وجہ سکھ برادران سے روزانہ تقریباً کسی نہ کسی موضوع پر ضرور بحث ہوتی ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اب تک مجھے کوئی بحث شروع کرنے کا کم ہی موقع ملا ہے،اکثر سوالات لیکر دوسرے ڈپارٹمنٹ کے طلبہ ہی آتے ہیں اور گھنٹہ دو گھنٹہ گفتگو ہوتی ہے۔کبھی، Law کے طلبہ آجاتے ہیں اور طلاق کے موضوع پر بحث کرتے ہیں اور حقیقی صورتحال جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔کبھی تاریخ کے طلبہ آتے ہیں اور مغل بادشاہوں اور سکھ گروؤں کے بیچ ہوئی لڑائیوں پر بحث کرتے ہیں،ایک دو دفعہ معاشیات کے طلبہ بھی سود پر اسلام کے نقطہء نظر کو جاننے کے لیے آئے ہیں۔۔۔
اسی طرح برادران وطن مسلمانوں کی عملی زندگی کا کتنی باریکی سے مشاہدہ کرتے ہیں اس کا اندازہ آج انگریزی ڈپارٹمنٹ کے ایک طالب علم کے ان دو سوالات سے کرسکتے ہیں جو اس نے آج مجھ سے پوچھے۔۔
اس کا پہلا سوال۔۔۔
آپ کو میں کافی دن سے دیکھ رہا ہوں کہ کرتے پاجامے میں ہوتے ہیں یا ٹراؤزر ٹی شرٹ میں،ہمیشہ پاجامہ یا ٹراؤزر ٹخنے سے اوپر کیوں رکھتے ہیں۔۔۔؟
دوسرا سوال۔۔۔۔۔۔
آپ کے یہاں لڑکیاں اپنے بھووں سے چھیڑ چھاڑ کیوں نہیں کرتیں،اسی طرح ٹینٹو وغیرہ سے بھی بچتی ہیں،پبلک میں رہتے ہوئے میک وغیرہ نہیں کرتیں۔
کیا یہ سب اسلام میں منع ہے؟
میں نے ان سوالات کے جوابات اپنے علم کے مطابق دے تو دیا لیکن ابھی تک ذہن میں یہ بات گھوم رہی ہے کہ کتنی باریکی سے ہماری عملی زندگی پر برادران وطن کی نظر ہوتی ہے۔۔۔۔
مدارس کے طلبہ ساتھی یونیورسٹیوں میں انقلاب کے نوید بن جائیں،اگر انہیں جدید چیلنجز کا ادراک ہو جائے اور دیگر ادیان و مذاھب اور نظریات کے بارے میں بنیادی معلومات ہوجائیں۔
محمد اسامہ فلاحی۔
پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ۔
                     08/09/10