*بانگِ کہن، سلسلہ 53*
✏ فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
=============================
=============================
وہی اب مسلماں کو یاد آ رہے ہیں
جو بڑھ چڑھ کےامت کو تڑپا رہے ہیں
جو بڑھ چڑھ کےامت کو تڑپا رہے ہیں
ادھر سارے بت خانے خنجر بکف ہیں
ادھر ہم کہ آرام فرما رہے ہیں
ادھر ہم کہ آرام فرما رہے ہیں
وطن کو خدائی کا درجہ دلا کر
خدا کے پرستار مرجھا رہے ہیں
خدا کے پرستار مرجھا رہے ہیں
جنہیں زندگی کا سلیقہ نہیں ہے
وہ جینے کا فن ہم کو سمجھا رہے ہیں
وہ جینے کا فن ہم کو سمجھا رہے ہیں
نہ چھوڑا ہمیں مصلحت نے کہیں کا
غضب یہ ہوا سے بھی گھبرا رہے ہیں
غضب یہ ہوا سے بھی گھبرا رہے ہیں
ہوئے شیخ یوں ہم نوا بَرْہَمن کے
نہ پچھتا رہے ہیں، نہ شرما رہے ہیں
نہ پچھتا رہے ہیں، نہ شرما رہے ہیں
شجاعت کہاں قومِ مسلم میں آئے
اذاں دینے والے بھجن گا رہے ہیں
اذاں دینے والے بھجن گا رہے ہیں
مروت ، نہ غیرت ، نہ الفت، نہ غیرت
نہ جانے وہاں لوگ کیوں جا رہے ہیں
نہ جانے وہاں لوگ کیوں جا رہے ہیں
عجب ہو گئے رہ نمایانِ مسلم
عدو سے ملے ہیں تو اترا رہے ہیں
عدو سے ملے ہیں تو اترا رہے ہیں