Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, September 14, 2019

اورنگ زیب عالمگیر کون تھے ؟؟


✏ فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
=============================
شاہ جہاں کے فرزندوں میں ایک نمایاں نام عالم گیرؒ کا ہے۔ یہ اپنے خاندانی مغلیہ سلطنت کے سب سے بہتر بادشاہ تھے۔ دین دار اور علم دوست۔ تقویٰ اور طہارت میں مثالی۔ اصل نام ابوالمظفر محی الدین تھا۔ لقب اورنگ زیب۔ مگر نام سے زیادہ لقب سے شہرت پائی۔ آج سے چار سو سال قبل 1618 میں پیدا ہوئے اور 1707 میں وفات پائی۔ ولادت گجرات کے داہود میں ہے اور انتقال مہاراشٹر کے احمد نگر میں۔ تدفین اورنگ آباد کے قریب خلد آباد میں ہوئی ۔

اورنگ زیب رحمہ اللہ نے اس ملک پر پچاس برس حکومت کی۔ اس وقت کا ہندوستان آج کا ہندوستان نہ تھا۔ پاکستان اسی کا حصہ تھا اور بنگلہ دیش بھی۔ اورنگ زیب نے نظامِ سلطنت جس چابک دستی سے چلایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان کی بہت سی یادگاریں آج بھی زندہ ہیں۔
وہ مدارس کے بڑے شوقین تھے۔ ان کے عہد میں بے شمار تعلیم گاہیں کھلیں۔ دہلی کا جامعہ رحیمیہ انہیں کے دور کی یادگار ہے۔ ان کے بڑے کارناموں میں سے ایک *فتاویٰ عالمگیری* بھی ہے۔ فقہ و فتاویٰ پر مشتمل یہ کتاب انہیں کی سرپرستی میں تیار ہوئی۔ اس کی ترتیب کے لیے ملک کے طول و عرض سے پچاس سے زیادہ جید علما نے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ اورنگ زیب عالمگیر نے اس کا ہر ہر جز باقاعدہ سنا ہے اور ضروری پڑا تو اس میں ترمیم بھی کی ہے۔ یہ کتاب جہاں ان کی محبتِ دینی کا منہ بولتا ثبوت ہے، وہیں ان کی علمی شان و شوکت اور فقیہانہ بصیرت کی بھی غمازی کرتی ہے۔
وہ بہترین خوش نویس بھی تھے اور یہی خوش نویسی ان کا ذریعۂ معاش بھی تھی۔ اپنے ہاتھ سے قرآن لکھتے اور اس کے ہدیے سے گزر اوقات کرتے۔ دارالعلوم دیوبند میں ان کے ہاتھ کے لکھے قرآن کے چند پارے آج بھی موجود ہیں۔ گزر اوقات کے لیے ایک دوسرا مشغلہ ٹوپی کی بنائی بھی تھی۔
اورنگ زیبؒ نے انتہائی فقیرانہ اور سادہ زندگی گزاری۔ حاکمِ وقت ہو کر بھی کبھی تنخواہ نہیں لی۔ کھانا پینا بھی انتہائی سادہ ہوتا۔ اس سلسلے کا یہ واقعہ ضرور پڑھنا چاہیے:
عالم گیرؒ کے ذاتی مطبخ کا باورچی ٹکتا نہیں تھا۔ چند دن کے بعد اپنا تبادلہ لنگر خانے میں کرا لیتا تھا۔ ایک من چلا باورچی تھا، اس نے سوچا: کیا بات ہے کوئی باورچی بادشاہ کے یہاں ٹکتا نہیں؟ میں دیکھوں گا۔ اس نے درخواست دی: حضور! میں آپ کا کھانا پکانا چاہتا ہوں۔ عالم گیر نے فرمایا: ہمارے یہاں کوئی باورچی ٹکتا نہیں، تو بھی چند دن میں بھاگ جائے گا۔ اس نے وعدہ کیا کہ میں ہرگز نہیں جاؤں گا۔ چناں چہ بادشاہ نے اس کو رکھ لیا۔ اس نے دیکھا کہ نپا تلا کھانا پکتا ہے۔ آدھا گھر میں چلا جاتا ہے اور آدھا بادشاہ کے سامنے۔ دیگچی میں کچھ نہیں بچتا۔ جب روز کا یہ معمول دیکھا تو تنگ آ گیا، مگر وہ یہ تو نہیں کہہ سکتا تھا کہ میرا تبادلہ لنگر خانے میں کر دیا جائے۔ اس نے سوچا کہ بادشاہ کو پریشان کرو تاکہ وہ ناراض ہو کر بھگا دے۔ بادشاہ کے یہاں شام کو ایک سیر کھچڑی پکتی تھی۔ آدھی گھر میں جاتی تھی اور آدھی بادشاہ کے سامنے۔ ایک دن اس نے کھچڑی میں نمک نہیں ڈالا۔ بادشاہ نے جب لقمہ لیا تو باورچی کی طرف دیکھا، مگر کچھ نہیں کہا۔ نمک بھی نہیں مانگا۔ پھیکی کھچڑی کھا لی۔ باورچی نے سوچا: بادشاہ کو پھیکی کھچڑی اچھی لگتی ہے۔ اور جو پھیکا کھا سکتا ہے وہ تیز نمک والا نہیں کھا سکتا۔ چناں چہ اگلے دن ڈبل نمک ڈال دیا۔ بادشاہ نے ایک لقمہ کھا کر پھر باورچی کو دیکھا اور کچھ نہیں کہا۔ کھچڑی کھا لی ۔ جب باورچی برتن اٹھانے آیا تو اس سے کہا: کل ڈیڑھ سیر کھچڑی پکانا! اور جتنی گھر میں جاتی ہے اتنی گھر میں بھیجنا، باقی میرے پاس لانا۔ بادشاہ نے حسبِ معمول آدھی کھچڑی کھائی اور آدھی بچ گئی۔ جب باورچی برتن اٹھانے آیا تو اس سے کہا: یہ ہمارا بچا ہوا تبرک ہے، اس کے نو حصے کرو اور ہمارے نو رتنوں (وزیروں) کو ہدیہ پہونچاؤ! باورچی نے اس تبرک کے نو حصے کیے اور خوب سجائے۔ وزیروں کو جب معلوم ہوا کہ آج بادشاہ کا بچا ہوا کھانا ہدیہ آ رہا ہے تو ہر وزیر نے آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا اور باورچی کو ایک ایک لاکھ روپیہ ہدیہ دیا۔ جب باورچی فارغ ہو گیا تو بادشاہ نے پوچھا: ارے ہمارے وزیروں نے تجھے کچھ دیا بھی؟ اس نے کہا: حضور! اتنا دیا ہے کہ میری سات پشتوں تک کے لیے کافی ہے۔ عالم گیرؒ نے فرمایا: پھر نمک ٹھیک ڈالا کرو۔ (تحفۃ الالمعی، ج 5،ص 192،93)
ملا جیون کا یہ شاگرد، یہ مردِ قلندر، یہ جسور و غیور مسلمان، سلطانی میں فقیری کرنے والا یہ البیلا انسان اب خلد آباد مہاراشٹر میں ابدی نیند سوتا ہے۔
مقبرہ عالمگير اورنگزیب

 احقر نے ان کی قبر پر حاضری دی ہے۔ مزارِ مبارک وہی سادہ اور فقیرانہ ہے، جس میں ان کی فقیر منش سلطانی آخر دم تک چلی۔
رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ