Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, September 30, 2019

نظام عالم کی تبدیلی کا وقت ہے۔!!!!


ہندوستانی مسلمانوں کی موجودہ بدترین صورتحال پر مسلمانوں، علمائے کرام اور قائدین سے صاف صاف باتیں، چشم کشا اور بصیرت افروز راہ نمائی:

تلخیص خطاب:
عالمِ ربانی حضرت مولانا خلیل الرحمٰن سجّاد نعمانی مدظلہ

بقلم: سمیع اللّٰہ خان__صدائے وقت۔
======================
(محترم مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی صاحب، صف اول کے ان اکابر علمائے کرام میں سے ہیں جنہیں اللّٰہ رب العزت نے ایکطرف جہاں عالی مقام روحانی نسبتوں کا حامل بنایاہے وہیں انہیں علمی و فکری لحاظ سے بصیرت افروز پختگی عطاء کی ہے، اقوام عالم کے عروج و زوال اور تاریخِ دنیا کے اتار چڑھاﺅ پر ان کی گہری نظر رہتی ہے، علوم اسلامیہ، خاص طورپر تدبر فی القرآن اور فکر ولی اللہی پر مولانا کی خاص گرفت رہتی ہے، دعوتی میدان میں بھی انہیں ملکہ حاصل ہے، آج صبح مولانا کے ماہنامہ الفرقان والے حقیقت پسندانہ اداریے سے استفادہ کیا بعدازاں ابھی ان کے ماہانہ خانقاہی مجلس کی یہ چشم کشا تقریر دل پذیر موصول ہوئی، جس نے دل و دماغ کو جھنجھوڑ دیا، خطرات اور امکانات کی طرف متنبہ کیا، علمائے کرام، قائدین ملت اور مسلمانوں کی موجودہ روش اور سنگین غلطیوں پر ایسی صاف صاف اور دوٹوک گفتگو کے لیے حضرت مولانا پوری امت کی طرف سے شکریے کے مستحق ہیں، انہوں نے علمائے کرام کی موجودہ غلط بلکہ ملی اعتبارسے تباہ کن روش پر حدیث رسولﷺ کی روشنی میں نہایت ہی بلیغ، جامع اور حق ادا کردینے والی اثرپذیر نصیحت فرمائی ہے، پوری تقریر تقریباﹰ 40 منٹ کی ہے، ذیل میں راقم سطور اس کی تلخیص پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہاہے) : ✍ *#_سمیع_اللّٰہ_خان*

بسم اللّٰہ الرحمان الرحیم ________

میں نے جو آیت " و ان تتولوا یستبدل قوما غیرکم ثم لا یکونوا امثالکم " تلاوت کی ہے، اس میں اللّٰہ تعالی نے اولین ایمان والوں کو مخاطب کرکے فرمایاہے، تم اگر اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کروگے، تم اگر اپنی اجتماعی ذمہ داریوں سے منہ پھیر لوگے، تم اگر اپنے ذاتی مفاد کو انسانیت اور ملت کے مفاد پر ترجیح دوگے، تم اگر عہد وفا کو نبھانے کے بجائے بےوفائی کا راستہ اختیار کروگے، تو، تم کو ہٹا دیا جائےگا، تم کو معزول کردیا جائےگا، تم کو بدل دیا جائےگا اور تمہاری جگہ پر دوسروں کو لے آیا جائےگا، اور وہ ایسے ہوں گے کہ وہ تمہاری طرح کے نہیں ہوں گے، " ثم لا یکونوا امثالکم "
 یہ ہماری بےحسی ہی ہے کہ ایسی آیتیں ہمارے سامنے ہوتی ہیں اور ہم پر لرزہ نہیں ہوتا
ہمیں بہت ضرورت ہے کہ ہم غور کریں کہ " و ان تتولوا " سے کیا مراد ہے؟ اگر تم نے پیٹھ پھیری، بے وفائی کی، عہد وفا کو نہیں نبھایا، غداری کی، دھوکہ دیا تو یہ ایسا ہوگا_
*میں پچھلے پندرہ بیس سالوں سے دوہرا رہا ہوں کہ یہ دور تبدیلی کا ہے، ایک نیا ورق پلٹے جانے کا دور ہے، نظمِ عالم میں تبدیلی کا دور ہے، وہ نظمِ عالم جو تقریباﹰ سوفیصد ظلم پر قائم ہے، اس کی تبدیلی کا وقت قریب آرہاہے، اور اس ایک عالمی نظام کے قائم ہونے کا وقت قریب آرہاہے جس عالمی نظام میں سب کو انصاف ملےگا، بلا کسی تفریق کے، سب ملکوں کو سب ملکوں کے باشندوں کو ہر سماج کے ہر انسان کو انصاف ملے گا، انصاف جب آئے گا تب امن آئے، برکتیں آئیں گی، وہ دور قریب آرہاہے_*
یہ میں بار بار عرض کرتا رہا ہوں آج پھر پورے احترام کے ساتھ عرض کرتاہوں کہ وہ کونسی خرابیاں ہوں گی، جس کی وجہ سے اللّٰہ تعالٰی ایک نسل کو، ایک دور کے مسلمانوں کو، ایک مخصوص طبقے کے لوگوں کو، ہٹا دے گا، بدل دے گا؟ کیا یہ خرابی ہوگی ان کی کہ ان کا کرتا لمبا نہیں ہے؟ ان کی داڑھی لمبی نہیں ہوگی؟ میں اس سے آگے بڑھ کے کہتاہوں کہ کیا ان کی یہ خرابی ہوگی کہ وہ پابندی سے نماز نہیں پڑھتے ہوں گے؟ وہ کسی بزرگ کے خلیفہ نہیں ہیں؟ وہ کسی سے بیعت نہیں ہیں؟ انہوں نے چلے نہیں لگائے ہیں؟ کیا یہ خرابیاں ہوں گی؟ کیا ہم نے اپنی اجتماعی ذمہ داریوں کو انہی چیزوں تک محدود کیا ہے؟
کیا ہم نے اپنے دین کے دائرے کو اسی تک محدود کیا ہے؟ اور کچھ تقاضے دین کے نہیں ہیں؟ کیا ہمارے مال میں دین کے تقاضے نہیں ہیں؟ کیا ہمارے عزم و حوصلے ارمانوں اور مستقبل کے منصوبوں میں دین کے کچھ مطالبے نہیں ہیں؟ *غور کیجیۓ…… بے وفائی کا زیادہ تعلق کن چیزوں سے ہوتاہے؟*  میرے بھائیوں اور بہنوں! بے وفائی کا تعلق، غداری کا تعلق، خیانت کا تعلق کن چیزوں سے زیادہ ہوتاہے؟ اجتماعی ذمہ داریوں سے فرار، اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دینا، ملت کے مفاد کے ساتھ غداری اور بے وفائی، باطل کے سامنے سرجھکا دینا، ڈر جانا، سہم جانا، بزدلی اور مصالحت کا راستہ اختیار کرنا، حکمت و مصلحت کے نام پر بے وفائی کا راستہ اختیار کرنا…… حدیث میں ہے، ایک زمانہ وہ آئےگا جب اسلام کا صرف نام رہےگا نام، ہم نام کے مسلمان رہيں گے، اسلام کی حقیقت ہمارے اندر سے نکل جائےگی، ہم سمجھ ہی نہیں پائیں گے کہ اسلام ہم سے کیا چاہت