Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, September 5, 2019

اسلامی کیلنڈر۔۔۔۔۔۔۔ہجری سال۔

از/ارشاد احمد اعظمی/صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     اس وقت ہم ہجری سال 1441 / میں جی رہے ہیں ، نیا ہجری سال شروع ہوئے پانچ دن ہونے کو ہیں ، آئیے ہم آپ کو اسلامی کیلنڈر ( ہجری سال ) کی کہانی سناتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ہجرت کے سترہویں سال امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خلیفہ بنائے جانے کے ڈھائی سال  بعد  بصرہ کے گورنر مشہور صحابی حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کا مکتوب خلیفہ کے پاس پہونچتا ہے  جس میں آپ ایک مشکل کا ذکر کرتے ہیں ۔

   آپ فرماتے ہیں کہ اے امیر المومنین !  ہم آپ کا مکتوب موصول کرتے ہیں جس میں شعبان کی تاریخ درج ہوتی ہے ، لیکن ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ یہ ابھی والا شعبان ہے ، یا اس سے پہلے کا شعبان ؟
    اصل میں خطہ عرب میں مہینوں کا حساب چاند سے رکھنے کا رواج تھا ، اور سال کو کسی مشہور واقعہ سے مربوط کرکے ذکر کرتے تھے ، مکہ والوں کے لئے اہم ترین واقعہ ابرہہ کی اس کے ہاتھیوں کے لشکر کے ساتھ تباہی تھی، چنانچہ انھوں نے اسی کو معیار بنا رکھا تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے بعد بھی یہی طریقہ رائج رہا ، لیکن جب حکومت کا دائرہ کار وسیع ہوا تو مشکلات پیش آنے لگیں ، انھیں کی طرف حضرت ابو موسی اشعری  رضی اللہ عنہ نے خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو متوجہ کیا تھا ۔
   اللہ نے مہینوں کی تعداد ابتداء آفرینش سے بارہ بنائی ہیں ، ان کو گیارہ یا تیرہ کرنے سے نظام میں نا قابل تلافی خلل واقع ہوگا ،  اور سال کا حساب و کتاب رکھنے کے لئے چاند اور سورج کو علامت بنایا ہے ۔
   چاند کا حساب آسان اور ہر بینا انسان کی دسترس میں ہے، لیکن یہ شمسی سال کی بہ نسبت دس اور گیارہ دن چھوٹا ہوتا ہے ، عبادات کے لئے یہ نہایت موزوں ہے، تاکہ دنیا کے ہر حصے میں مسلمان موسم کی تبدیلی کا فائدہ اٹھا سکیں، چنانچہ اسلام میں عبادتوں کے لئے اسی کو اختیار کیا گیا ہے ۔
    سورج کا حساب قدرے مشکل ہے، اس پر ہر انسان قادر نہیں ہے ، اس کے لئے علوم فلکیات میں مہارت کی ضرورت ہے، اس میں چار سالوں میں صرف ایک دن کا فرق پڑتا ہے، قرآن نے چاند اور سورج دونوں کو سال کی تعیین اور حساب کے لئے علامت بتلایا ہے ۔
    حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کا مکتوب امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اس اہم اور فوری ضرورت کی طرف متوجہ کرنے کے لئے کافی تھا ،چنانچہ آپ نے اصحاب رائے  صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ کیا ، اس  ضرورت سے سب نے اتفاق کیا، لیکن مسئلہ دو نقاط پر آکر اٹک گیا :
    1  -  سال کی شروعات کس مہینے سے ہو ؟
     2  - اسلامی کیلنڈر کو کس واقعہ سے مربوط کیا
           جائے  ؟
     سال کی شروعات کے لئے کچھ حضرات نے ماہ رمضان کی تجویز رکھی، لیکن بحث و تمحیص کے بعد ماہ محرم پر اتفاق کر لیا گیا  ۔
     اور واقعہ سے مربوط کرنے کے تعلق سے چار رائیں سامنے  آئیں، بعض کا خیال تھا کہ نبی کریم صلی اللہ کی ولادت سے اسلامی کیلنڈر کو جوڑا جائے ۔
   کچھ نے بعثت کے سال کی تجویز رکھی ، تو ایسے حضرات بھی تھے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی رحلت کو مناسب سمجھا ۔
    لیکن واقعہ ہجرت کو سب سے اہم اور تاریخ اسلامی میں  ٹرننگ پوائنٹ قرار دے کر تقویم اسلامی کی ابتداء کے لئے اسی پر اتفاق کر لیا گیا  ۔
( ارشاد احمد اعظمی )