✏ فضیل احمد ناصری/صداٸے وقت۔
=============================
دل جب گناہوں سے کثافت آلود ہو جائے تو اہل اللہ کی صحبت اس کے لیے تریاق ثابت ہوتی ہے۔ بے تکلف عرض ہے کہ احقر معاصی کا پتلا ہے، اس لیے اہلِ دل کی مجلسیں تلاشتا پھرتا ہے اور موقع پاتے ہی ان کی طرف دوڑ کر نہیں، اڑ کر جاتا ہے۔ مولانا زین الدین صاحب قاسمی زید مجدہم میرے قدیم شناسا ہیں۔ دارالعلوم وقف کے مبلغ اور اسلامک یونیورسٹی دیوبند کے بانی بھی ہیں۔ بلکہ اس کے چانسلر بھی۔ خانقاہی دنیا سے انہیں بڑا لگاؤ ہے۔ مولانا جلیل حسین میاں صاحبؒ سے بیعت و ارشاد کا سلسلہ بھی رہا۔ ایک دن انہوں نے بتایا کہ بنگلور میں ایک صاحبِ نسبت شخصیت مولانا سید صبغت اللہ صاحب مدظہ مقیم ہیں۔ آپ چاہیں تو ان سے ملاقات کر لیں، طبیعت خوش ہو جائے گی۔ میں نے کہا: بہت اچھا۔ پھر جلد ہی انہوں نے سفر کی ترتیب بنائی اور ہم اس کے مطابق چل پڑے
۔
رفقائے سفر میں محترم مولانا زین الدین صاحب زید مجدہم کے علاوہ محترم مولانا قاری رحیم الدین سیتا پوری بانئ جامعہ حکیم الاسلام دیوبند اور محدثِ کبیر حضرت مولانا سید اصغر حسین میاں صاحبؒ کے پرپوتے مولانا سید محمد میاں صاحب زید مجدہم بھی تھے۔ ہمارا ٹکٹ 15 ستمبر کا تھا۔ ہم صبح ساڑھے پانچ بجے یہاں سے بذریعہ کار دہلی کے لیے روانہ ہوئے اور سوا نو بجے ایئرپورٹ پہونچ گئے۔ جہاز 11/50 پر تھا۔ اڑان بر وقت ہوئی۔ پونے دو گھنٹے ہوئے ہوں گے کہ ایئرپورٹ آ گیا، مگر ہم نے اترنے کی جوں ہی کوشش کی، بتانے والوں نے بتایا کہ یہ بنگلور نہیں، حیدر آباد کا راجیو گاندھی ایئرپورٹ ہے۔ جہاز پون گھنٹہ رکا۔ اس کی صاف صفائی ہوئی اور پھر بنگلور کے لیے پرواز کر گیا۔ پون گھنٹے کے بعد اب ہم بنگلور کے انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر تھے۔ ہم باہر نکلے اور کار لے کر منزل کی طرف چل پڑے۔
*بنگلور کا مختصر تعارف*
دو گھنٹے چلے ہوں گے کہ منزل بھی آ گئی اور ہم ایک ہوٹل میں پہونچ گئے۔ یہاں نماز سے فارغ ہو کر تھوڑی دیر آرام کیا اور اپنی تکان کسی قدر اتار لی۔ یہ شیواجی نگر کا علاقہ تھا اور ہوٹل تھا سہارا۔ ہماری گھڑی شام کے ساڑھے چھ بجا رہی تھی۔
اپنے قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ بنگلور ایک قدیم ترین شہر ہے۔ یہ اس وقت جنوبی ہند کی ریاست کرناٹک کا دارالحکومت ہے۔ یہاں کی آب و ہوا سال بھر خوش گوار رہتی ہے۔ نہ سردی، نہ گرمی۔ یہ ہندوستان کی تیسری سب سے بڑی آبادی والا شہر بھی ہے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی (it) میں اسے ملک کی راجدھانی ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ یہاں کی مقامی زبان کنڑ ہے۔ اس کا اصلی نام *بندا کال اورو* تھا، جو مرورِ زمانہ کے بعد
*بنگلورو* میں تبدیل ہو گیا۔
*مولانا سید صبغت اللہ صاحب سے ملاقات*
بنگلور کا یہ سفر محترم جناب مولانا زین الدین صاحب قاسمی زید مجدہم کی تحریک پر ہوا ۔ ہمارے داعی وہی تھے، جن کے فیوض و برکات سے ہمیں مستفیض ہونا تھا، یعنی حضرت مولانا سید صبغت اللہ صاحب دام مجدہم۔ ظہر اور عصر کی نماز ایک ہی وقت میں پڑھی۔ مغرب کی نماز ہوٹل سے متصل ہری مسجد میں ادا کی۔ یہ مسجد 1306ھ میں قائم ہوئی ہے۔
نماز کے بعد طے شدہ پروگرام کے مطابق ہم اپنے میزبان سے ملاقات کے لیے چل پڑے۔ ان کا نام پہلی بار مولانا زین الدین صاحب زید مجدہم سے ہی سنا تھا۔ ان کے اوصاف و شمائل پر تھوڑی بہت اطلاع پہلے مل چکی تھی۔ ہم پہونچے تو وہ بڑے تپاک سے ملے۔ میرے ذہن میں ان کا جو حلیہ تھا، اصل حلیہ اس کے خلاف تھا۔ میرے ذہن میں یہ تھا کہ سید صاحب 50/55 کے ہوں گے۔ بدن دوہرا ہوگا۔ داڑھی بڑی گھنی ہوگی۔ کسی نہ کسی درجے میں تام جھام بھی ہوگا، مگر دیکھا تو ایک دم الگ۔ بالکل دھان پان سے۔ پتلے دبلے، نحیف و نزار۔ سفید کرتے اور رنگین لنگی میں ملبوس۔ سر پر دوپلی ٹوپی۔ چہرے پر مناسب داڑھی۔ سانولے، مگر نور سے معمور۔ پان کے شوقین ۔ شہرت سے گریزاں۔ عمر 66 پار۔ مختصر تعارف ہوا۔ بڑے خوش ہوئے۔ اسی دوران بنگلور کے مشہور بزرگ قاری انعام الحق میرٹھی صاحب بھی تشریف لے آئے۔ یہ دارالعلوم دیوبند میں قاری حفظ الرحمن صاحبؒ کے شاگرد رہ چکے ہیں۔ علمائے دیوبند کے عاشقِ زار ۔ بنگلور میں حفظ و تجوید کی اشاعت میں ان کا بنیادی کردار ہے۔ مدرسہ سبیل الرشاد کے ابتدائی اساتذہ میں شامل۔ عمر 85 سے متجاوز۔ اسی رمضان میں عمرہ کیا تھا اور اب حج بھی۔ ان کے آنے کا فائدہ یہ ہوا کہ حضرت سید صبغت اللہ صاحب کے ملفوظات جو پہلے سے جاری تھے جوبن پر آ گئے۔ کیا خوب علوم و نکات تھے!! جی چاہتا تھا کہ کان لگائے سنتے رہیں۔ علمی اور روحانی کلام دیر تک چلا۔ کم و بیش دس بجے رات تک ان کی مجلس رہی۔ پھر ہم ان کے گھر کھانا کھا کر ہوٹل کی طرف چل دیے۔
ہم لوگ دن بھر کے تھکے ہارے تھے۔ بستر پر گئے اور بے خبر ہو گئے۔ صبح کی نماز سب نے اپنے اپنے کمرے میں پڑھی۔ ہم لوگ ناشتے پر جمع ہوئے تو سید صاحب کے تعلق سے اظہارِ خیال کیا گیا۔ میں نے کہا کہ یہ تو انمول شخصیت ہیں، بلکہ بنگلور کی سر زمین پر اللہ کی رحمت۔
ناشتے کے بعد بتایا گیا کہ ایک بجے یہاں سے سری رنگا پٹنم کو روانگی ہے۔ وہیں دو روز ذکر کا حلقہ لگے گا۔ سید صاحب دامت برکاتہم بنفسِ نفیس اس میں شرکت کریں گے۔ بلکہ ذکر کی محفل بھی انہیں کی قیادت میں ہوگی۔
[اگلی قسط میں پڑھیں: حضرت سلطان ٹیپوؒ کے مزار پر وغیرہ]