Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, September 3, 2019

بابری مسجد کیس۔۔۔سپریم کورٹ میں مسلم فریق کے وکیل کا استدلال۔۔۔۔۔۔مسجد میں مورتی اچانک پرکٹ نہیں ہوٸی۔۔۔ڈی ایم اور سٹی مجسٹریٹ کی سازش تھی۔


ڈی ایم اور سٹی مجسٹریٹ کی سازش سے رکھی گئی تھی مورتی۔سپریم کورٹ میں جمعیۃعلماء ہند کے وکیل ڈاکٹرراجیودھون کا استدلال
نئی دہلی ۔۳؍ستمبر:۔صداٸے وقت۔
=========================
بابری مسجد ملکیت تنازعہ مقدمہ کا آج اٹھارواں دن  تھا جس کے دوران جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیودھون نے کل کی اپنی نا مکمل بحث کا آغاز کرتے پانچ رکنی آئینی بینچ کے سامنے بتایا کہ ۱۹۴۹ ء میں بابری مسجد کے اندر مورتی کا پرکٹ  ہونا کوئی چمتکار نہیں بلکہ ایک سازش تھی جس میں ڈی ایم اور سٹی مجسٹریٹ دونوں شامل تھے ۔ ا نہوں نے عدالت کو بتایا کہ 1950میں مسجد کی نکالی گئی تصاویر پیش کیں جس میں صاف لفظوں میں لفظ اللہ مسجد کے در و دیوار پر لکھا دکھائی دے رہا ہے۔ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت میں 3 اگست 1950میں کمشنر بشیر احمد خان کی جانب سے نکالی گئی تصاویر عدالت میں پیش کیں جس میں کمشنر نے اپنی رپورٹ میں مسجد کی درو دیوار پر لفظ اللہ پائے 
جانے کا ذکر کیا ہے،

 کمشنر نے یہ رپورٹ سول جج فیض آباد کی عدالت میں پیش کی تھی جو الہ آباد ہائی کورٹ کا بھی حصہ ہے لیکن الہ آباد ہائی کورٹ نے اس رپورٹ اور تصاویر پر زیادہ توجہ نہیں دی تھی۔کمشنر نے اپنی رپورٹ میں لکھا گیا تھاکہ 1934 سے مسجد میں نماز ادا نہیں کی جارہی تھی جس کا جواب یہ ہے کہ مسجد میں مسلمانوں کو جانے نہیں دیا گیا اور بعد میں دعوی کیا گیا کہ مسلمان مسجد میں نماز نہیں ادا کرتے تھے  اور پھر کہا گیا کہ مسجد پر سے آپ کا قبضہ ختم ہوگیا۔نیز ڈاکٹر دھون نے مزید کہا کہ مسجدمیں ستون پہلے ہی تھے لیکن ان کا ہندومذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا،اور رام للا کے وکیل ودیاناتھن اور پرسارنن کا یہ کہنا کہ شوئمبھو ہے یعنی کہ وہ زمین رام کی جائے پیدائش ہونے کی وجہ سے خودایک بھگوان کا درجہ رکھتی ہے، اس پر ڈاکٹردھون نے کہا کہ ان کایہ دعویٰ درست نہیں ہے ڈاکٹر راجیودھون نے مزید کہا کہ 1949میں فیض آبادکے ڈیم کے کے نائر اور سٹی مجسٹریٹ گرودت سنگھ کی تصویر یں بھی مسجد کی تصویروں میں نظرآرہی ہے، ڈاکٹر دھون نے یہ بھی کہاکہ مسجد کے صحن میں مورتیاں رکھے جانے سے پہلے کے کے نائر نے چیف سکریٹری کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے مسجد کی جگہ ایک بڑے مندرکے ہونے کا ذکر کیا تھا اور یہ بھی کہاتھا کہ اس مندرکو توڑکر بابرنے مسجد بنوائی ہے، دھون نے کہا کہ یہ مورتیاں اچانک پرکٹ نہیں ہوئیں بلکہ ڈیم ایم اور سٹی مجسٹریٹ کی سازش سے وہاں رکھی گئیں، اس حوالہ سے داکٹر دھون نے یہ بھی کہا کہ مورتیاں رکھے جانے کے بعد جب مرکزی سرکاری نے ڈیم ایم کو خط لکھ کر کہا تھا کہ مسجد سے یہ مورتیاں ہٹادی جائیں اس کے جواب میں ڈی ایم نے کہا تھا کہ وہ ایسانہیں کرسکتے بھلے ہی ان کا تبادلہ فیض آبادسے کہیں اور کردیا جائے، حالانکہ کے اسی دورمیں دہلی  میں تقسیم کے بعد جن تیس مساجد کو توڑدیا گیا تھا مرکزی سرکار کے حکم سے ان کی بازآبادکاری ہوئی تھی۔ جسٹس بھوشن نے ڈاکٹر راجیو دھون سے دریافت کیا کہ آیا فوٹو دکھانے کا مقصد کیا ہے؟ جس پر ڈاکٹر راجیو دھو ن نے کہا کہ تصاویر دیکھنے کے بعد کیا آپ کو یہ عمارت مندر لگ رہی ہے؟اس معاملے کی سماعت کرنے والی پانچ رکنی آئینی بینچ جس میں چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی، جسٹس ایس اے بوبڑے، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس عبدالنظیر شامل ہیں کو ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کو مزید بتایا کہ مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکا گیا اور پھر بعد میں یہ دعوی کیا گیا کہ مسجدمیں نماز ادا نہیں کی جاتی تھی نیز پہلے یہ دعوی کیا گیا تھا کہ باہری صحن میں رام کی مورتی تھی پھر اچانک یہ دعوی کیا گیا کہ رام کا جنم مسجد کے مینار کے اندر ہوا تھا، ڈاکٹر راجیو دھو ن نے عدالت کو بتایا کہ فریق مخالف کے دعوؤں میں مسلسل تضاد دیکھا گیا ہے جس پر عدالت کو غور کرناہوگا۔ڈاکٹر راجیو دھو ن نے عدالت کو بتایا کہ 1949 سے قبل باہری صحن میں واقع چبوترے پر ہندو لوگ پوجا پراتھنا کیا کرتے تھے لیکن 22 اور 23 دسمبر 1949 کی درمیانی شب میں خفیہ طریقہ سے مورتی رکھی گئی تھی نیز صدر دروازے پر تالا لگا دیا گیا تھا تاکہ مسلمان نماز ادا نہ کرسکیں نیز تالا لگانے سے قبل مسلمان مسجد کے اندورنی صحن میں نماز ادا کیا کرتے تھے جس کا ثبوت گواہوں کی گواہی سے بھی ثابت ہوتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ایک منصوبہ بند سازش کے تحت مسجد کے اندرونی صحن میں مورتی رکھی گئی اور بعد میں دعوی کیا گیا کہ اچانک رام پرکٹ ہوگئے، یہ کوئی چمتکار نہیں تھا کہ بلکہ ایک سازش تھی مسجد کے اندورنی صحن میں گھسنے کی۔ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کو مزید بتایاکہ 1992 میں مسجد شہید کردی گئی اور بعد میں یہ دعوی کیا گیا کہ مسجد چند شرپسندوں نے شہید کی تھی جن کا ہندو دھرم سے کوئی تعلق نہیں تھا، آج میرا سوال یہ ہے کہ کیا  ان شرپسندوں نے کراس پہناہوا تھا؟یعنی کہ ان کا مذہب کرسیچن تھا؟ ڈاکٹر راجیو دھون نے شیعہ فریق کی جانب سے مسجد کا ہندوؤں کو دینے کے اعلان پر کہا کہ یہ بہت آسان ہے کہ کسی بھی چیز کو دوسرے کو دے دینا جب وہ آپ کے پاس ہی نہیں نیز مسلمانوں کی جانب سے داخل حلف ناموں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے کیونکہ ان حلف ناموں کے دینے والوں سے جرح نہیں ہوئی تھی۔ڈاکٹر راجیو دھون نے رام للا کو فریق بنائے جانے پر سوال اٹھاتے ہو ئے بحث کرنے کی کوشش جس پر جسٹس بوبڑے نے انہیں درمیان روکتے ہو ئے کہا کہ اترا کھنڈ ہائی کورٹ نے ندی کو مورتی مانا تھا اور اسے فریق قبول کیا تھا جس پر ڈاکٹر راجیو دھون نے کہا کہ اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے فیصلہ پر اسٹے لگا ہوا ہے۔ڈاکٹر راجیو دھون نے آج ایک بار پھر نرموہی اکھا ڑ ہ کے اس دعوے کا جواب دیا کہ وہ متنازعہ عمارت کے ارد گرد پریکرما یعنی کے طواف کیا کرتے تھے لہذا اس مقام پر ان کا قبضہ ہے، انہوں نے کہا کہ عبادت کرنے سے کسی جگہ پر قبضہ کا دعوی نہیں کیا جاسکتا ہے ورنہ روڈ یا میدانوں میں لوگ عبادت کرتے ہیں تو کیا اس پر ان کا قبضہ ہوجائے گا؟ڈاکٹر راجیو دھونے کہاکہ ہندو مہا سبھا کا یہ کہنا کہ متنازعہ اراضی کا قبضہ حکومت کو دے دینا چاہئے مضحکہ خیز ہے کیونکہ اب ہمیں مزید رتھ یاترانہیں دیکھنا ہے نیز معزز عدالت کو اس بحث میں پڑھنا نہیں چاہئے ورنہ عباد ت کی جگہوں کے قانون کو حکومت ختم کردیگی جو میں نہیں چاہتا ہوں۔آج ڈاکٹر راجیو دھون نے نرموہی اکھاڑہ کی جانب سے اٹھائے گئے سوال پر کہ متنازعہ عمارت مسجد نہیں تھی پر تفصیلی بحث کی جو کل بھی جاری رہے گی، آج عدالت کی کارروائی کا اختتام عمل میں آیا جس کے بعدعدالت نے اپنی کارروائی کل تک کے لیئے ملتوی کردی۔دوران کارروائی عدالت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ڈاکٹر راجیو دھون کی معاونت کرنے کے لیئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قرۃ العین، ایڈوکیٹ کنور ادتیہ، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ سدھی پاڈیا، ایڈوکیٹ ایشامہرو و دیگر موجود تھے۔جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے ڈاکٹر راجیودھون کی طرف سے بابری مسجد کے حق میں کی جانے والی دودن کی بحث پر اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ وہ عدالت کے سامنے ہماراموقف بہت مضبوطی کے ساتھ رکھ رہے ہیں اور ہمارے دعویٰ کے حق میں ثبوت وشواہد بھی پیش کررہے ہیں، انہوں نے کہا کہ اپنی بحث کے دوران ڈاکٹرراجیودھون ہندوفریقین کے وکلاء کی مسلسل سولہ روزتک چلی بحث کا ایک ایک کرکے جواب بھی دے رہے ہیں۔
بشکریہ نازش ہما قاسمی ۔