Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, September 5, 2019

علوم اسلامیہ میں تحقیق کے لٸیے جدید موضوعات۔


حافظ محمد زبیر/صداٸے وقت۔
=========================
اسلامک اسٹڈیز میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ مقالہ لکھنے کے لیے کوئی نیا موضوع دے دیں۔ تو آج میں ان طلبہ کے ساتھ ایک ایسا گُر یا فارمولا شیئر کر رہا ہوں کہ اگر انہوں نے اس کو اچھی طرح سمجھ لیا تو مقالہ لکھنے کے سینکڑوں نت نئے موضوعات ان کے ہاتھ لگ جائیں گے۔ تو تحقیق اور ریسرچ کو کئی اعتبارات سے تقسیم کیا گیا کہ جن میں سے ایک تقسیم مقداری (quantitative research) اور معیاری تحقیق (qualitative research) کی بھی ہے۔

علوم اسلامیہ میں زیادہ تر معیاری تحقیق کی جاتی ہے بلکہ زیادہ بہتر تو یہ ہے کہ اسے معیاری بھی نہ کہا جائے کیونکہ معیاری تحقیق میں بھی سروے یا انٹرویوز کی صورت میں فیلڈ ورک ہوتا ہے، یہ دراصل تاریخی انداز تحقیق (historical methodology) ہے۔ ہم علوم اسلامیہ کے محققین بس کتابوں تک محدود رہتے ہیں اور ایک نظریے یا فرضیے (hypothesis) پر تاریخی انداز میں تحقیق کرتے رہتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں ہماری تحقیق دراصل زیادہ تر نظری اور تاریخی تحقیق (fundamental and historical research) ہوتی ہے اور اطلاقی یا میدانی تحقیق (applied or field research) نہیں ہوتی۔
مثال کے طور اگر علوم اسلامیہ کے کسی محقق نے دوسری شادی کے موضوع پر مقالہ لکھنا ہے تو اس کا سارا مقالہ اس بات کے گرد گھومے گا کہ قرآن دوسری شادی کے بارے یہ کہتا ہے، حدیث میں یہ ہے، ائمہ کی رائے یہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب تراث اسلامی (Islamic heritage) کی تحقیقی اور نظری بحث ہے۔ اور اس زاویے اور پہلو سے علوم اسلامیہ میں بہت کام ہو چکا ہے۔ اب جو بھی کام ہو گا، وہ پہلے ہی کا تکرار شمار ہو گا الا یہ کہ کوئی بہت ہی جدید مسئلہ ہو لیکن اب تو جدید مسائل پر بھی اس انداز تحقیق کے مقالہ جات کی بھرمار ہو چکی ہے۔
لہذا علوم اسلامیہ میں کرنے کا کام اس وقت یہ ہے کہ مقداری تحقیق (quantitative research) کی جائے۔ دوسری شادی کے بارے مقداری تحقیق یہ ہو گی کہ جن حضرات نے دوسری شادی کر رکھی ہے، آپ ایسے ڈیڑھ دو سو جوڑوں سے ملاقات کریں۔ ایک سوال نامہ تیار کر کے ان کے سامنے رکھیں۔ ان سے سے انٹرویو لیں۔ دوسری شادی کے مسائل شوہروں سے بھی ڈسکس کریں اور خواتین سے بھی فیڈ بیک لیں۔ اب اپنے مقالے میں اپنی تحقیق کے نتائج بحث شیئر کر دیں کہ بھئی شریعت نے تو دوسری شادی کی اجازت دی ہے لیکن پہلی اور دوسری بیوی کے یہ یہ نفسیاتی مسائل ہوتے ہیں، پہلی بیوی کو ان معاشرتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، شوہر کو ان معاشی مسائل سے واسطہ پڑتا ہے، اور سوتیلے بہن بھائیوں کے یہ ایشوز ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
اب آپ کی تحقیق پڑھنے کے بعد جس نے کرنی ہو گی تو علی وجہ البصیرۃ کرے گا ناں یا ان مسائل کی پیش بندی (pre planning) کے ساتھ کرے گا۔ تو آپ کی تحقیق نے معاشرے کو حقیقی فائدہ دیا۔ اسی طرح اب ہمارے ہاں طلاق یا خلع کے موضوع پر مقالہ لکھنا ہے تو بس یہی انداز ہے کہ قرآن میں یہ ہے، حدیث میں اس طرح ہے اور ائمہ کی یہ رائے ہے۔ اب ہمیں اس سے نکل آنا چاہیے کہ ہم نے اس انداز تحقیق کو بہت رگڑا لگا لیا ہے بلکہ شاید ہمارے بزرگوں اور سلف نے ہی اس حوالے سے ہمارے لیے کسی تحقیق کی گنجائش نہیں رہنے دی ہے الا ما شاء اللہ۔
اب اگر آپ کو طلاق اور خلع پر مقالہ لکھنا ہو تو سو دو سو ان افراد سے ملاقات کریں کہ جن کے مابین جدائی (seperation) ہو چکی ہے۔ مردوں سے طلاق کی وجوہات پوچھیں اور عورتوں سے خلع لینے کے اسباب ڈسکس کریں۔ اب آپ کے نتیجہ بحث (conclusions)میں اگر یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ ستر فی صد عورتوں نے فلاں وجہ سے خلع لی ہے تو آپ مقالے کے آخر میں دی گئی تجاویز اور سفارشات میں مردوں کو یہ سمجھائیں کہ یہ عورتوں کا ٹیکنیکل فالٹ ہے، اس کی اصلاح ممکن نہیں ہے، لہذا اس خامی یا کمی کوتاہی کے ساتھ گزارہ کرو اگر تو رشتہ اور گھر چلانا ہے۔
اور اسی طرح اگر طلاق کے اسباب میں مردوں نے جن فیکٹرز کو بیان کیا ہے تو ان میں سے ستر فی صد نے ایک فیکٹر کا لازما ذکر کیا ہے تو اب آپ کو عورتوں کو سمجھانا ہے کہ مردوں کا معاملہ ایسا ہی ہے اور اس میں عورت کو ہی سمجھنا پڑے گا یا کپمرومائز کرنا ہو گا ورنہ تو گھر ٹوٹ جائے گا۔ تو اس طرح آپ کی تحقیق شادی سے پہلے یا شادی کے بعد خوشگوار ازدواجی زندگی کی بنیاد بن جائے گی۔ تو جس موضوع پر آپ نظری اور معیاری تحقیق کرنا چاہتے ہیں، اس پر ذرا مقداری اور اطلاقی تحقیق کرنے کا سوچیں تو ذہن خود ہی واضح ہو جائے گا اور ایسا کام پہلے ہوا بھی نہ ہو گا۔
اس طرح کی فیلڈ ریسرچ کا یہ بھی فائدہ ہو گا کہ مذہبی لوگوں کا، خاص طور مدارس کے فارغ التحصیل محققین کا سوسائٹی اور معاشرے سے ربط پید ا ہو گا اور ان کی شرعی رائے میں توازن پیدا ہو گا کیونکہ اجتہاد تو فقہ الاحکام یعنی شرعی احکام کی سوجھ بوجھ کو فقہ الواقع یعنی سوسائٹی کے مسائل پر لاگو کرنے کا نام ہے۔ اور یہاں فقہ الاحکام یعنی شرعی مسائل کا علم تو خوب ہے، فقہ الواقع یعنی سوسائٹی کے ایشوز کا کچھ پتہ نہیں تو اجتہادی بصیرت کیا پیدا ہوگی؟