Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, September 2, 2019

بابری مسجد مقدمہ۔۔۔مسلم پرسنل لإ بورڈ اور جمیعة علإ ہند کے وکیل راجیو دھون نے کیا بحث کا آغاز۔


نئی دہلی، 2ستمبر (ہ س)۔صداٸے وقت/ذراٸع۔۔۔مورخہ ٢ ستمبر ٢٠١٩۔
=========================
إیودھیا تنازعہ کے مقدمے میں مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیتہ علما ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے5رکنی بنچ کے سامنے اپنی بحث کا آغاز پہلے ان تصورات اور غلط فہمیوں کے ازالے سے کیا جو ہندو فریقوں کے وکلا نے اپنی 
بحث سے پیدا کی تھی۔

سب سے پہلے انھوں نے ایڈوکیٹ ہری شنکر جین کے اس موقف پر ضرب لگائی کہ معاملہ کا فیصلہ صرف ہندو لاء کی بنیاد پر ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ حکومت تبدیل ہو جانے کے بعد اس ملک اورحکومت کا قانون ہی بنیاد بنے گا ،جس کے دوران تنازعہ پیدا کیا گیا۔
انہوں نے کہا ایڈوکیٹ  ہرا سرنی نے اپنی بحث میں وہ بنیاد رکھی کہ زمین ہی ((Diety)خدا ہے ۔ حالانکہ اس پورے کیس میں یہ موقف کبھی نہیں رہا۔ اس تنازعہ میں پہلا کیس گوپال وشارد کی طرف سے 1950میں داخل کیا گٕیا اس وقت یہ مسئلہ نہیں تھا ۔ 1959میں نرموہی اکھاڑا کا کیس آیا، اس میں بھی یہ مسئلہ نہیں تھا۔ 1961 میں ہمارا کیس یعنی یو پی سنٹرل وقف بورڈ کا کیس آیا ۔انہوں نے اس کا جواب دیا اس میں بھی یہ مسئلہ نہیں اٹھا۔ پہلی بار یہ معاملہ 1989میں اٹھایا گیا۔
فریق مخالف نے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ زمین خود ہی بھگوان ہے کہا کہ یہاں لوگ پوجا کرتے تھے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ زمین خود ہی بھگوان( مقدس) ہے۔ڈاکٹر راجیو دھون نے کہا کہ پریکر ما کوئی ثبوت نہیں ہے وہ تو پوجا کا ایک طریقہ ہے۔فریق مخالف نے اپنے دعوے کے ثبوت میں حکم چند کیس کو پیش  کیا تھا ،لیکن وہ بات کو گول کر گئے کہ جس کورٹ نے پہاڑ پر موجود مسجد کو مسجد مانا تھا۔ اس کو چھوڑ کر باقی زمین کو Dietyتسلیم کیا گیا۔
اس کے بعد انہوں نے سیاحوں کے سفر ناموں کے بارے میں کہا کہ یہ کوئی ثبوت نہیں ہیں۔ کسی سیاح نے کوئی بات کسی بنیاد پر لکھی، کس سے پوچھ کر لکھی، ان من گھڑت باتوں کو بطور ثبوت نہیں مانا جا سکتا۔ہمارے پاس اس معاملہ میں 1528سے متواتر ثبوت ہیں کہ یہاں پر صرف مسجد تھی جہاں متواتر نماز ہوتی رہی ہے۔ انھوں نے کرناٹک وقف بورڈ (2004) کیس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ زمین کو استعمال نہیں کیا جا رہا ہو تو بھی اس کی ملکیت  پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ انہوں نے کہا کہ ویدک دور میں مورتی پوجا نہیں ہوتی تھی۔ اگر بابر حملہ آور تھا تو آرین بھی حملہ آور تھے۔ اگر بابر کا قانون نہیں چلے گا تو آرین کا قانون بھی نہیں چلے گا۔آرین کے دور کے بعد گیتا دور میں مورتی پوجا شروع ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ رامائن صرف ایک افسانہ ہے ہاں مہابھارت تاریخ ہے۔ہندو قانون کے اعتبار سے مورتی کے نابالغ کا تصور صرف اتنا ہے کہ وہ خود اپنا مقدمہ نہیں لڑ سکتا۔ جائداد کی رکھوالی کون کرے اس کے لئے ولی کا تصور ہے۔ نابالغ ہونے سے حقیقت نہیں ثابت ہوتی۔
Paren Petriae بنیاد بنا کر جو بات کہی گئی کہ اگر کوئی وارث نہ ہو تو سرکار یا کورٹ اس کا وارث ہوگا۔ یہاں اس کیس میں اس کو بنیاد نہیں بنایاجا سکتا۔ اگر کھدائی میں کہیں مور یا کمل کے پھول کا کوئی ٹکڑا ملا تو اس سے یہ کہاں سے ثابت ہو جاتا ہے کہ وہاں کوئی بڑا اسٹرکچر موجود تھا۔الہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس اگروال نے اپنے فیصلہ کی بنیاد قیاسات اور مفروضوں پر قائم کی تھی۔ اگر ہم سیب اور سنترے میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کرنےلگے تو ہمارے پورے سیکولر دستور کی ہوا نکل جائے گی۔کل بھی ڈاکٹر راجیو دھون کی بحث جاری رہے گی اوراب سوٹ نمبر  3پر اپنی بحث کریں گے۔ آج کی ڈاکٹر راجیو دھون کی بحث پر بورڈ کے جنرل سیکر یٹری مولانا محمدولی رحمانی نےاطمینان کا اظہار کیااور کہا کہ انشا اللہ ہماری بحث مدل اور حقائق پر مبنی ہوگی۔
آج عدالت میں مسلم فریقوں( مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیتہ علمإ ہند ) کے مشترکہ وکیل سی نئراجن۔ ڈاکٹر راجیو دھون کے علاوہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے وکلاسینئر ایڈوکیٹ میناکشی اروڑا، ایڈوکیٹ ظفر یاب جیلانی (سکریٹری مسلم پرسنل لا بورڈ ) موجود تھے۔ ان کے علاوہ عدالت میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے دیگر وکلاایڈوکیٹ آن ریکارڈ، شکیل احمد سید، ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد، ایڈوکیٹ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ ارشاد احمد، ایڈوکیٹ فضل احمد ایوبی موجود تھے۔ جونئر وکلا میں ایڈوکیٹ آکریتی چوبے، ایڈوکیٹ قرةالعین، ایڈوکیٹ پرویز دباز، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ عظمی جمیل، ایڈوکیٹ دانش احمد سید، ایڈوکیٹ سارہ حق اور ایڈوکیٹ آدیتیہ سماوار بھی موجود تھے۔