Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, September 8, 2019

جسٹس صاحبہ!! آپ کو مظلوموں کاسلام۔


ایم ودود ساجد/صداٸے وقت۔
         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سنڈے اسپیشل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گجرات فسادات 2002 میں اجتماعی عصمت دری کا شکار بلقیس بانو کے مجرموں کی سزا برقرار رکھنے کا حکم دینے والی مسز جسٹس وی کے تاہل رمانی نے استعفی دیدیا ہے۔۔۔۔
ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ میں یہ شاید اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جب اپنے تبادلہ سے ناراض ہوکر کسی چیف جسٹس نے استعفی دیا ہے۔۔۔
یہ بھی شاید اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے کہ جب اتنی تجربہ کار' دیانتدار اور محنتی چیف جسٹس کو 116 ججوں کی سربراہی سے ہٹاکر محض 2 ججوں کی سربراہی پر بھیجا گیا ہو۔۔۔

جسٹس وی کے تاہل رمانی اکتوبر 2020 میں ریٹائر ہوجاتیں۔۔۔ وہ گجرات ہائی کورٹ میں جج تھیں جب انہوں نے بلقیس بانو کی دنیا اجاڑنے والوں کو دی جانے والی عمر قید کی سزا برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔۔۔
میں نے پچھلے اتوار کو ہی لکھا تھا کہ سپریم کورٹ کالجیم نے انہیں تامل ناڈو کی مدراس ہائی کورٹ سے میگھالیہ کی ہائی کورٹ میں بھیج دیا ہے۔۔۔ تامل ناڈو  کی مدراس اور مدورائی ہائی کورٹ کی دونوں بنچز میں کل 117 جج ہیں جبکہ میگھالیہ ہائی کورٹ میں محض تین۔۔۔۔
جسٹس تاہل رمانی نے سپریم کورٹ کالجیم سے درخواست کی تھی کہ وہ تبادلہ کے اس فیصلہ پر نظر ثانی کرے۔۔۔ لیکن پرسوں سپریم کورٹ کالجیم نے ان کی درخواست مسترد کردی اور ان کا تبادلہ برقرار رکھا۔۔۔ لہذا انہوں نے اسی روز استعفی دیدیا۔۔۔
ظلم وستم کے اس دور میں دنیاوی ذرائع کے اعتبار سے ایک عدلیہ ہی مظلوموں کی آخری امید ہے۔۔۔ لیکن جب خود دیانتدار منصف ہی اس کا شکار ہونے لگیں تو پھر مظلوموں کی یہ امید بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہے۔۔۔
بیوروکریسی میں بھی بے چینی ہے۔۔۔ ابھی تک دو نوعمر آئی اے ایس افسران آزادی رائے پر قدغن کے خلاف استعفی دے چکے ہیں ۔۔۔ عدلیہ میں بھی بے چینی ہوگی۔۔۔۔ اس کا ثبوت پچھلے سال ہونے والی وہ پریس کانفرنس ہے جس میں سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں نے پریس کو بتایا تھا کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔۔۔۔ ان چار ججوں میں خود موجودہ چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی بھی شامل تھے۔۔۔ لیکن آج وہ خود کیا سوچتے ہیں نہیں معلوم ۔۔۔
جسٹس رمانی ایک خاتون ہیں ۔۔۔ کچھ نہ سہی ان کی جنس کے تناظر میں ہی ان کی درخواست پر غور کیا جاسکتا تھا۔۔۔ بجائے اس کے کہ انہیں 116 ججوں کی کامیاب سربراہی کے صلہ میں سپریم کورٹ بلایا جاتا انہیں میگھالیہ جیسی انتہائی چھوٹی ریاست میں بھیجنے پر کالجیم کا اِصرار بہت سی پُر اسرار اَن کہی کہانیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔۔۔
جسٹس صاحبہ!  آپ نے وقت پڑنے پر ظالموں کے مقابلے مظلوموں کا ساتھ دیا تھا۔۔۔۔ آج ہندوستان کے کروڑوں مظلوم زبانِ حال سے آپ کو سلام پیش کرتے ہیں ۔۔۔ ہمارے پاس آپ کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہے۔۔۔ ہاں ہم بارگاہِ ایزدی میں آپ کی ہدایت کے لئے دعا کرسکتے ہیں ۔۔۔ کیا عجب کہ آپ کی دیانتداری کے صلہ میں خالقِ کائنات آپ کو "ایمان داری" کی دولت بھی عطا فرمادے۔۔۔ کہ اس سے بڑی کوئی دوسری دولت نہیں ہوسکتی۔۔۔