Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, October 29, 2019

”جہاں نما کی سیر۔“۔۔۔قسط اول۔سفر براٸے اعظم گڑھ۔۔۔از مولانا فضیل ناصری۔


/ازقلم/ فضیل احمد ناصری ..صداٸے وقت
=====================
گزشتہ دنوں میرے عزیز مولانا قاری شبیر احمد مظفر پوری نے فون کیا کہ آپ کو ہمارے ادارے کے جلسے میں تشریف لانا ہے۔ ملکی فضا کے پیشِ نظر میں نے سرِ دست ہوں ہاں کر دیا۔ اگلے دن پھر فون آیا کہ حضرت! آپ ضرور تشریف لائیں! آپ کی آمد سے میرا حوصلہ بڑھے گا۔ آپ کی نظمیں آپ کی موجودگی میں پڑھوں گا تو میری ہمت بڑھ جائے گی اور لطف دوبالا ہو جائے گا۔ میں نے پھر گول مول سا جواب دے دیا۔ در اصل میرا ارادہ نفی کا ہی تھا، لیکن قاری صاحب نے پھر اگلے دن فون کر کے مجھے قائل کرنا چاہا، میں نے ان کی خواہش کے احترام میں کھل کر ہامی بھر لی۔
قاری شبیر صاحب دارالعلوم وقف کے فاضل ہیں۔ وطنی تعلق بہار سے رکھتے ہیں۔ اس وقت اعظم گڑھ کے تاریخی ادارے: مدرسہ بیت العلوم سرائے میر میں شعبۂ تجوید کے مدرس ہیں۔ آواز بلا کی ہے۔ نعت خوانی اور نظمیں پیش کرنے میں استاد ہیں۔ ترنم غضب کا ہے۔ اپنی حسین آواز اور اس کے زیر و بم سے مجلس پر ایک سماں باندھ دیتے ہیں۔ سامعین ان کے نغموں پر گوش بر آواز رہتے ہیں۔ قاری صاحب میری نظموں کے بڑے دل دادہ ہیں۔ کوئی کہیں سے ہاتھ لگ جائے تو اسے پَر لگا دیتے ہیں۔ میرے کتنے ہی اشعار ان کی سحر طرازی سے مشرق و مغرب میں پھیل گئے۔
قاری شبیر صاحب کے فون کے بعد محترم جناب مولانا اجود اللہ صاحب کا بھی اسی سلسلے کا فون آ گیا۔ یہ میرے لیے خوش گوار حیرت کے ساتھ خوشی کا مقام بھی تھا۔ یہ بڑے آدمی ہیں۔ شہزادے ہیں۔ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھول پوریؒ کے پرپوتے اور حضرت مولانا شاہ عبداللہ پھول پوریؒ کے فرزند ہیں۔ مدرسہ بیت العلوم کے ناظمِ تعلیمات اس وقت وہی ہیں۔ نہایت خوش اخلاق اور بندہ نواز۔ واٹس ایپ کے ذریعے ہم دونوں میں راہ و رسم ہو چکی تھی۔ ایک دوسرے کی تحریر پر تبصرے بھی ہوتے رہتے تھے، اس لیے اجنبیت کا سوال ہی نہ تھا۔ مولانا کا فون آیا تو میرا نیم پخت ارادہ پورا پختہ ہو گیا۔ دونوں طرف کا ٹکٹ انہوں نے ہی بنوایا اور ہم 23 اکتوبر کو یہاں سے روانہ ہو گئے۔ ہمارے قافلے میں دارالعلوم وقف کے استاذِ حدیث مولانا شمشاد رحمانی، مشہور بسیار گو شاعر مولانا ولی اللہ ولی بستوی اور عزیزم صادق اعظمی سلمہ شامل تھے۔
*اعظم گڑھ سے میرا تعلق*
................................
رودادِ سفر شروع کرنے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ اعظم گڑھ سے میرا کیا تعلق رہا ہے۔ سو عرض ہے کہ اس تعلق کا آغاز میرے والدِ مرحوم حضرت مولانا جمیل احمد ناصری سے ہوتا ہے۔ وہ دارالعلوم مئو میں کئی سال طالب علم رہے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق اعظمیؒ کے والد: شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد مسلم صاحب جونپوریؒ ان کے خاص ممدوح اور مخدوم تھے۔ والدِ مرحوم جب تک وہاں رہے ان کی خدمت انہیں سے متعلق رہی۔ یہ ربط آگے چل کر اتنا مستحکم ہوا کہ رفتہ رفتہ
افرادِ خانہ میں شامل ہو گئے۔

شیخ عبدالحق اعظمیؒ والد صاحب سے دو سال سینئر تھے، مگر ہم نفس و ہم نشیں۔ بالکل حقیقی بھائی کی طرح۔ میں نے اپنے والد کو دونوں کا ذکرِ خیر کرتے اخیر تک سنا ہے۔ میرے ایک دوسرے چچا مولانا رضی احمد ناصری مدظلہ نے بھی یہاں اپنی طالب علمی بسر کی۔ سب سے چھوٹے چچا حضرت مولانا حسین احمد ناصری مدظلہ تو دارالعلوم مئو میں پڑھنے کے بعد کم و بیش 50 سال استاذ بھی رہے۔ خوش الحان اتنے کہ قاری کہلائے گئے۔ مدتِ تدریس کے دوران پنج وقتی اذانیں بھی انہیں کے ذمے تھیں۔ عجیب بات یہ کہ عمِ مکرم شیخ عبدالحق صاحبؒ کے شاگرد بھی تھے اور خواجہ تاش بھی۔ دونوں کا خانقاہی رابطہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ سے تھا۔

دارالعلوم مئو پہلے اعظم گڑھ میں تھا۔ میں نے مدرسہ دینیہ غازی پور میں بھی ایک سال پڑھا ہے۔ مئو کا سفر ایک بار میں نے یہیں سے کیا تھا۔ اعظم گڑھ سے میرے تعلقات کی اصل بنیاد یہی ہے۔

*بیت العلوم سرائے میر کو روانگی*

ہمارا چار نفری کارواں دیوبند سے بذریعہ کار سہارن پور روانہ ہوا اور وہاں سے بیگم پورہ ٹرین پکڑ کر اگلے دن بارہ بجے جونپور اتر گیا۔ وہاں بیت العلوم کے انتظامیہ کی طرف سے گاڑی کا نظم تھا۔ کارواں اس پر سوار ہوا اور دو گھنٹے کے سفر کے بعد سرائے میر پہونچ گیا۔

[اگلی قسط میں پڑھیں: بیت العلوم سرائے میر کا تعارف ]