Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, October 24, 2019

بی جے پی کی رعونت خاک میں !


از/شکیل رشید (ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)/صداٸے وقت۔
=============================
مہاراشٹر اور ہریانہ کی اسمبلیوں اور ضمنی انتخابات کے نتائج نے بی جے پی کی رعونت خاک میں ملا دی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی سرکار کے نمبر دو یعنی مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ہریانہ او رمہاراشٹر کے لیے ’مشن ۷۵‘ اور ’مشن ۲۲۰‘ کا دعویٰ کیا  تھا لیکن بی جے پی دونوں ہی جگہ دعوئوں کے قریب تک نہیں پہنچ سکی ہے۔ ہریانہ میں بی جے پی کی اعلیٰ قیادت اور ’بکائو  میڈیا‘ نے پروپیگنڈے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کی ’مقبولیت‘ آسمان کو چھو رہی ہے اور کوئی بھی سیاسی پارٹی نہ انہیں ہلاسکتی ہے او رنہ ہی بی جے پی کو ۔لیکن ہوا یہ ہے کہ بی جے پی کو ۴۰ کے قریب ہی سیٹیں مل سکی ہیں۔ یعنی ۲۰۱۴ کے مقابلے اس کی سات سیٹیں گھٹی ہیںاو رکانگریس نے اپنی سیٹوں کی تعداد سابقہ ۲۵ سے بڑھا کر ۳۱ کرلی ہے۔ اب کھٹر صرف ہلے ہی نہیں مودی او رامیت شاہ بھی اس نتیجے سے ہل گئے ہیں۔ ہریانہ میں ممکن ہے کہ بی جے پی حکومت بنالے لیکن اس کےلیے اسے سخت پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ اور اگر پاپڑ نہ بیلے گئے تو کھٹر اور بی جے پی کا ہریانہ پر دوبارہ راج کا خواب چکنا چور ہوجائے گا۔ 
مہاراشٹر میں بھی بی جے پی اور شیوسینا ’مشن ۲۲۰‘ سے بہت پیچھے ہے۔ کانگریس اور این سی پی خیر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں لیکن جس طرح اس گٹھ جوڑ نے جگہ جگہ بی جے پی شیوسینا اتحاد کو چت کیا ہے اسے ایک بڑی کامیابی ہی کہاجاسکتا ہے۔ جس طرح ہریانہ میں کانگریس نے ایک طرح سے ’واپسی‘ کی ہے اسی طرح مہاراشٹر  میں کانگریس او راین سی پی اتحاد کی ’واپسی‘ ہوئی ہے۔ اگر مہاراشٹر میں کئی سیٹوں پر ونچت اگھاڑی اور ایم آئی ایم نے ووٹ تقسیم نہ کرائے ہوتے تو بی جے پی اور شیوسینا کی سیٹیں اور کم ہوتیں۔ ایم آئی ایم نے دو سیٹیں جیت کر مہاراشٹر  اسمبلی میں اپنا کھاتا کھولا ضرور ہے لیکن اس کے امیدوار جن سیٹوں سے ہارے ہیں ان میں سے اکثر سیٹوں پر شیوسینا اور بی جے پی کو فائدہ پہنچا ہے۔ ایم آئی ایم قائد بیرسٹر اسدالدین اویسی کو کوئی ایسا لائحہ عمل بنانا ہوگا کہ جہاں ان کے امیدوار کھڑے ہوں وہاں فرقہ پرستوں کو فائدہ نہ پہنچ سکے، اور  دوسری سیاسی پارٹیوں کے وہ امیدوار جو بی جے پی اور شیوسینا کو سخت مقابلہ دے سکتے ہوں، ان کی جیت یقینی ہوسکے۔ تین جگہ اویسی کی پارٹی نے امیدوار نہیں کھڑے کیے وہاں ووٹ تقسیم نہیں ہوئے اور بی جے پی اور شیوسینا کے امیدوار کی ہار ہوئی۔ ممبئی کے گوونڈی اسمبلی حلقہ میں سماج وادی پارٹی کے امیدوار ابوعاصم اعظمی، ممبرا میں این سی پی کے امیدوار جتیندر اوہارڈ، اور بھیونڈی میں سماج وادی پارٹی کے رئیس شیخ کی جیت ایم آئی ایم کے امیدواروں کے نہ ہونے سے یقینی ہوگئی تھی۔ 
ضمنی انتخابات میں بھی بی جے پی کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ مہاراشٹر کے ستارا میں لوک سبھا سیٹ کے ضمنی انتخاب میں ادین راجے پرتاپ سنگھ مہاراج بھونسلے کو بری طرح سے شکست ہوئی ہے، یہ این سی پی چھوڑ کر بی جے پی میں گئے تھے۔ بہار کے سمستی پور لوک سبھا حلقے سے بھی بی جے پی کو ہار ملی ہے ، وہاں سے ایل جی پی نے کامیابی درج کی ہے۔ ۵۰ اسمبلی سیٹوں کے ضمنی انتخاب میں بی جے پی کو ۱۶ پر اکتفا کرنا پڑا ہے، کانگریس کو ۱۲ ، سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ مودی کے گڑھ گجرات میں کانگریس کی تین سیٹوں پر کامیابی کو سیاسی طور پر اہم ماناجارہا ہے۔ الپیش ٹھاکر کی ہار کا تذکرہ ضروری ہے، وہ کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوئے تھے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ عوام نے بھونسلے او رٹھاکر جیسوں کو ہرا کر یہ جتادیا ہے کہ ’بے وفائوں‘ کو وہ بالکل پسند نہیں کریں گے۔ 
بی جے پی کے لیے ان نتائج میںبڑا سبق ہے۔ اول تویہ کہ دونوں ہی ریاستوں اور ضمنی انتخابات کی مہمات میں مودی اور شاہ کشمیر سے آرٹیکل ۳۷۰ کو ہٹانے ، سارے ملک میں این آر سی لاگو کرنے اور مسلمانوں کو ’گھس پیٹھئے‘ کہہ کر ملک سے بھگانے کا زہریلا پرچار کرتے رہے، بی جے پی قیادت نے بے روزگاری اورمعاشی مندی کا کہیں ذکر تک نہیں کیا تھا، میڈیا الگ یہ ثابت کرنے پر تلا تھا کہ معاشی مندی کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ لیکن عوام نے بی جے پی اور شیوسینا گٹھ جوڑ کو پہلے کے مقابلے کم سیٹوں تک محدود کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ عوام کےلیے  آرٹیکل ۳۷۰ ، این آر سی اور فرقہ پرستی نہیں، اہم مسائل معاشی مندی، بے روزگاری اور مہنگائی ہیں۔ بی جے پی نے اگرہوش کے ناخن نہ لیے اور فرقہ پرستی کو ہوا دیتی رہی تو آنے والے دنوں میں اس کی حالت مزید خراب ہوسکتی ہے۔