Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, October 17, 2019

سرسید کا تعلیمی مشن، عصر حاضر کے تناظر میں !!!

از/ذاکر اعظمی/صداٸے وقت/یوم سرسید کے موقع پر خاص پیشکش۔
==============================
انیسویں صدی کے وسط میں جب بر صغیر کا مسلمان فکری افلاس اور معاشی زبوں حالی سے  دوچار تھا، یاس و قنوطیت کے گھٹاٹوپ بادل چھٹنے کا نام نہیں لے رہے تھے، ہماری قومی زندگی فشار اور بحران کے سنگم پر کھڑی تھی،  راستے گم تھے اورر راہ نما مفقود، ان نازک حالات میں جس شخص نے اعتماد اور حوصلے کے چراغ جلائے، علی گڑھ جیسی اہم تحریک کی داغ بیل ڈالی اور پھر اسکی قیادت کے فرائض بھی انجام دیئے اسے ہم سر سید احمد خاں کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ سر سید نے قومی زوال سے متاثر ہو کر قومی تعمیر کیلئے کمر باندھی تو زندگی کے بے شمار پہلو انہیں داغ داغ نظر آئے ۔ تہذیب و تمدن ، مذہب و معاشرت، سیاست و معیشت ، علم و ادب ، زبان اور تعلیم غرض کوئی پہلو ایسا نہ تھا جو اصلاح طلب نہ ہو۔ سر سید نے  علی گڈھ مومنٹ کے ذریعہ امید کی ایسی کرن پیدا کی جس نے نہ صرف  تاریخ  کے دھارے کو موڑا بلکہ مستقبل قریب میں زیور تعلیم سے آراستہ نوجوانوں کی ایسی کھیپ تیار کردی جس نےانگریزی استعمار کے خلاف چل رہی تحریک میں نئی روح اور جان پیدا کردی محمد علی جوہر ہوں یا مولانا شوکت علی، حسرت موہانی ہوں یا لیاقت علی خاں، مولانا ظفر علی خان ہوں یا ڈاکٹر ذاکر حسین سب کے سب سر سید کے تعمیر کردہ اسى چشمہ صافی کے خوشہ تھے جسے دنیا علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے جانتی ہے۔ بالکل مبالغہ نہ ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ سر سید نے اپنے عصر میں جو کارنامہ انجام دیا وہ یقینا ایک پیغمبرانہ مشن تھا۔ 
سرسید کون تھے؟
انیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں مڑ کر دیکھئے تو دلی کالج میں مولانا مملوک علی کے سامنے بہت سے بچے پڑھ رہے ہیں. ان میں دو بچے غیر معمولی صلاحیت وذکاوت کے مالک ہیں .ان دونوں لڑکوں پر استاد محترم کی خاص نظر ہے. مولانا مملوک کو پتہ نہیں ہے کہ کون شاگر دمستقبل میں کیا بنے گا اور نہ یہ علم کہ ان کی شہرت استاد سے بڑھ کر ہوگی ؟ دونوں لڑ کے پڑھ کر چلے گئے ایک نے علی گڈھ کا رخ کیا ،دوسرے نے دیوبند کا .ایک نے موقع کی نزاکت اور وقت کی ضرورت کو جان کر مسلمانوں کی معاشی حالت سدھارنے کے لئے علی گڈھ میں اعلیٰ تعلیم  کا ایک دارالعلوم قائم کیا تو دوسرے نے مسلمانوں کے دینی ، مذہبی وسماجی انحطاط کو روکنے کے لئے دیوبند میں ایک اسلامی دارالعلوم کی بنیاد ڈالی.
مغلیہ حکومت کا خاتمہ اور برطانیوی حکومت کا قیام دونوں کے عروج وزوال کے ما بین 1857 کا قیامت خیزمنظر نامہ ملک وملت کیلئے تباہ کن ثابت ہوا. اس وقت اہل ہند اس درجہ منتشر ہو چکے تھے کہ دوبارہ پنپنے کی امید دور دور تک نظر نہیں آرہی تھی .اس کشمکش کی گھڑی میں دو مسیحا ئے وقت میدان عمل میں آئے  اور جاں بلب سفینہ ملت کو طوفان ِ جہالت وافلاس سے باہر نکالا ، ان دور اندیش ہستیوں نے قوم کے زخموں پر مرہم کاری کی اور مسلمانوں کی احساس کمتری ختم کی اور بے جان قوم میں نئی روح پھونکی۔  قوم کی پستی اور بد حالی پر سر سید احمد خان نے بہت آنسو بہائے اور کہا .
میں اس وقت ہر گز نہیں سمجھتا تھا کہ قوم پھر پنپے گی اور کچھ عزت پائیگی اور جو حال اس وقت قوم کا تھا وہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا تھا .چند روز اسی خیال اور اسی غم میں رہا یقین کیجئے کہ اس غم نے مجھے نڈھا کر دیا اور میرے بال سفید کر دئیے..
سر سید اور علی گڈھ کی تحریک کی اہمیت کا  اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں  کی گزشتہ ڈیڑھ سو سال کی فکری، علمی، سماجی، مذہبی، سیاسی اور ادبی تاریخ کا شاید ہی کوئی ایسا گوشہ ہو جس پر سرسید اور علی گڑھ تحریک بلا واسطہ یا بالواسطہ اپنے اثرات نہ چھوڑے ہوںِ،   سرسید اور ان کے رفقاء کے لیے مدرسۃ العلوم ایک تعلیمی درس گاہ، نئے فکری رجحانات کی ایک علامت ،احیاء ملی کی ایک تحریک کا نام تھا۔ یہاں  "آدم گری" بھی ہوتی تھی اور تعمیر ملت کا سامان بھی مہیا کیا جاتا تھا۔ یہاں  وقت کے اشاروں  کو سمجھنا بھی سکھایا جاتا تھا اور اس کے دھاروں  کو موڑنے کی صلاحیت بھی پیدا کی جاتی تھی۔ سرسید کی بلند حوصلگی، عزم راسخ خلوص نیت اور جہد مسلسل نے اس مشکل اور متنوع کام کو ایک تحریک کی شکل دے دی تھی۔  زمانے کے پیچ و خم کے ساتھ تحریک کے خد و خال بھی بدلتے رہے لیکن سرسید کے افکار کی معنویت ہر دور کے لیے بڑھتی ہی رہی اور ان کی یہ آواز برا بر فضاؤں  میں  گونجتی رہی :
سنگ تربت ہے مرا گرویدۂ تقریر دیکھ
چشم باطن سے ذرا اس لوح کی تحریر دیکھ

علی گڈھ تحریک کو سمجھنے کے لئے اس کی فکر کی بنیادوں کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

1- مادیت اور ترقی پذیری: اس حقیقت سے انکار نہیں  کیا جاسکتا ہے کہ 1857 کی جنگ آزادی میں  ہندوستان کی شکست ہوئی، جس کا خمیازہ ہندوستانی مسلمانوں  کو زیادہ اٹھانا پڑا۔ اس کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں  کو معاشی پریشانیوں  کا سامنا کرنا پڑا۔ مالی پریشانیاں  قدم قدم پر آنے لگیں ، ان مشکلات کا حل سرسید احمد خاں  نے ڈھونڈنا شروع کردیا، آخرکار اس نتیجے پر پہنچے کہ  ہندوستانی مسلمان انگریزی حکومت سے مقابلہ آرائی کے بجائے ان کا ساتھ دیں ، کیونکہ قوم کے پاس اتنی طاقت نہیں  تھی کہ انگریزی حکومت کا مقابلہ کرتے اور سرسید نے یہ واضح الفاظ میں  کہہ دیا تھا کہ مادی خوش حالی مغربی علوم و فنون کو حاصل کیے بغیر نہیں  کی جاسکتی ہے۔
2-علی گڑھ تحریک کی دوسری فکری بنیاد عقلیت پر مرکوز تھی۔ سرسید کا ماننا تھا کہ مذہبی معاملات میں  عقل کا دخل ہونا چاہیے اور بغیر عقلی استدلال کے آنکھ بند کرکے مذہبی مسائل کو قبول نہیں  کرنا چاہیے اس لیے انھوں  نے تقلید کی پرزور مخالفت کی ہے۔ 
3-علی گڑھ تحریک کی تیسری بنیادی فکر اجتماعیت پر تھی، سرسید نے اجتماعیت پر اس لیے زور دیا ہے کہ انفرادی کوشش سے کسی مسئلہ کا حل ممکن نہیں  ہے اور ان کا ماننا تھا کہ یہ زمانہ انفرادی کوشش کا نہیں  ہے وہ پوری قوم کو متحرک رکھنا چاہتے تھے ۔ سرسید کے خیال میں  تصور اجتماعیت میں  دو تصورات آتے ہیں ، ایک تصور تعلیم جو انفرادی کے بجائے اجتماعی ہونا چاہیے، وہ کہتے تھے سماج کو ذہنی طور پر آزاد ہونا چاہیے اور اجتماعی طور پر ارتقا کی منازل طے کرنے میں  منہمک رہنا چاہیے، سرسید تصور تعلیم کو بہت وسیع معنوں  میں  لیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں  نے انفرادی تعلیم کے بالمقابل ‘قومی تعلیم’ کا تصور پیش کرنے میں  تامل نہیں  کیا ہے انھوں  نے انفرادی کوششوں  کو لغو بھی قرار دیا ہے۔ سرسید نے ایک مرتبہ اپنے لکچر میں  کہا تھا:
”تعلیم و تربیت کی مثال کمہار کے آوے کی سی ہے کہ جب تک تمام کچے برتن  بہ ترتیب ایک جگہ نہیں  چنے جاتے اور ایک قاعدہ داں  کمہار کے ہاتھ سے نہیں  پکائے جاتے کبھی نہیں  پکتے پھر اگر تم چاہو کہ ایک ہانڈی کو آوے میں  رکھ کر پکالو ہرگز درستی سے نہیں  پک سکتی۔”  
4-علی گڑھ تحریک کی چوتھی فکری بنیاد نیچریت پر تھی۔ سرسید کا ماننا تھا ادب اور تہذیب میں  مبالغے اور جذباتیت کی گنجائش نہیں  ہے، وہ حقیقت اور اصلیت پر زیادہ  زور دیتے ہیں ۔ سرسید نے شاہ ولی اللہ دہلوی، شاہ اسماعیل شہید، سید احمد بریلوی اور شاہ عبدالمغنی کی عظمت کا اعتراف کرنے کے باوجودان کے نظریہ جہاد کو باطل ٹھہرایا تھا اور ہمیشہ ہندوستان کے ہندو مسلم کے مابین ذہنی ہم آہنگی پیدا کرنا چاہتے تھے۔
سر سید نے اپنے عصر میں جو کارنامہ انجام دیا وہ یقیناً ایک پیغمبرانہ مشن تھا۔ جتنے بھی پیغمبر رُوئے زمین پر آئے انہوں نے سب سے پہلا کام یہی کیا کہ اپنے وقت کے مسائل کے حل کی جنگ لڑی۔ یہ سعادت سر سید کے حصے میں بھی آئی۔  اسکے با وجود سرسید کے خلاف بے شمار مضامین لکھے گئے اور ان کا مذاق اڑایا گیا۔ مولانا جمال الدین افغانی جیسے دور اندیش شخص بھی سرسید مخالف تحریک میں شامل ہوگئے۔کچھ دوستوں نے اس مخالفت کاجواب دینا چاہا لیکن سرسید نے یہ کہہ کر منع کردیا:
’’مجھ کو کہاں تک بچاؤ گے۔ میں تو ہدفِ تیر ہائے ملا مت ہوگیا ہوں اور روز بہ روز ہوتا جاؤں گا۔ شاید میرے بعد کوئی زمانہ آوے جب لوگ میری دلسوزی کی قدر کریں۔‘‘
دشنام طرازیوں کا یہ سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہوا بلکہ سرسید کے حریفوں نے انھیں کفر کے فتوؤں سے بھی نوازا ۔ پھربھی سرسید کا عزم وحوصلہ بلند رہا اور ان مخالفتوں سے حوصلہ شکنی کے بجائے ان کا عزم مصمم اور پختہ ہوتا چلا گیا ۔انھیں اپنی ہمنوا سرائی سے یہ اندازہ ہوگیا کہ قوم کو نئی تعلیم کی شدید ضرورت ہے۔ اسی لیے انھوں نے مذہبی بنیاد پر لعن طعن کرنے والوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا:

’’میں فرض کرتا ہوں کہ میں بد عقیدہ ہوں مگر  میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر ایک کافر مرتد آپ کی قوم کی بھلائی پر کوشش کرے تو کیا آپ اس کو اپنا خیر خواہ نہ سمجھیں گے۔ آپ کے لیے دولت سرا بنانے میں جس میں آپ آرام فرماتے ہیں اور آپ کے بچے پرورش پاتے ہیں اورآپ کے لیے مسجد بنانے میں جس میں آپ خدائے واحد ذوالجلال کا نام پکارتے ہیں چوہڑے،چمار، قلی، کافر، بت پرست، بدعقیدہ سب مزدوری کرتے ہیں مگر آپ نہ کبھی اس دولت خانے کے دشمن ہوتے ہیں اور نہ کبھی اس مسجد کو منہدم کرنے پر آماد ہ ہوتے ہیں۔پس آپ مجھ کو بھی اس مدرسۃ العلوم کے قائم کرنے میں ایک قلی، چمار کے مانند تصورکیجیے اور میری محنت اور مشقت سے اپنے لیے گھر بننے دیجیے اور اس کی وجہ سے کہ اس کا بنانے والا یا اس میں مزدوری کرنے والا قلی، چمار ہے، اپنے گھر کو نہ ڈھائیے۔ کیا آپ مجھ کو ایک بدبخت، نامہ سیاہ کی شامتِ اعمال سے اپنی قوم کو اور ان کی اولاد کو ڈبونا اور خراب و خستہ حالت میں ڈالنا چاہتے ہیں۔‘‘
فکری طور پر جو سب سے مضبوط اور توانا آواز ا سرسید کے خلاف اٹھی وہ اکبرالہٰ آبادی کی تھی جو ان کی طنزیہ شاعری کی صورت میں منظر عام پر آئی ۔انھیں یہ خطرہ تھا کہ اگر سرسید کی تحریک پروان چڑھ گئی تو مشرق کا وقار زوال پذیر ہو جائے گا۔ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کے الفاظ میں:
’’اکبر کو سلطنت چھن جانے کا اتنا غم نہیں تھا جتنا افسوس قدیم طرز معاشرت کے اختلال اور رویات کے زوال کا تھا۔‘‘
اکبر کی قدامت پسندی اور علی گڑھ تحریک کے ذریعہ مذہب کی نئی تعبیر کے بموجب سرسید اکبر کی شاعری میں ایک خاص کردار کی طرح ابھرے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں جن میں اکبر نے سرسید کی شخصیت پہ اوچھے وار کیے اور ان کی شخصیت کی دھجیاں بکھیری ہیں:
برگد کے مولوی کو کیا پوچھتے ہو کیا ہے
مغرب کی پالیسی کا عربی میں ترجمہ ہے

تعلیم عورتوں کی ضروری تو ہے مگر
خاتون خانہ ہوں وہ سباکی پری نہ ہوں

حامدہ چمکی نہ تھی انگلش سے جب بیگانہ تھی
اب ہے شمع انجمن پہلے چراغ خانہ تھی

پیچیدہ مسائل کے لیے جاتے ہیں انگلینڈ
زلفوں میں الجھ آتے ہیں شامت ہے تو یہ ہے

عقائد پرقیامت آئے گی ترمیم ملت سے
نیاکعبہ بنے گا مغربی پتلے صنم ہوں گے

تھیئٹر رات کو اور دن کو یاروں کی یہ اسپیچیں
دہائی لاٹ صاحب کی مرا ایمان جاتا ہے

تاہم عمر کے آخری حصے میں اکبر کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ سرسید نے جو روشنی پھیلائی ہے اسے روکنا ممکن نہیں۔اس طرح خودبخود ان کے خیالات میں تبدیلی آنے لگی اور سرسید کی فکر اور عمل کو پسند فرمانے لگے اور اپنے اشعار میں انھوں نے سرسید کے اوصاف اور خلوص عمل کا اقرار کچھ اس طرح سے کیا:

واہ رے سید پاکیزہ گہر کیا کہنا
یہ دماغ اور حکیمانہ نظر کیا کہنا
صدمے اٹھائے رنج سہے گالیاں سنیں
لیکن نہ چھوڑا قوم کے خادم نے اپنا کام
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا ہے
نہ پوچھو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں

عصری علوم کا حصول آج بھی مسلمانوں کے لئے پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے تا کہ وہ نہ صرف بہتر سے بہتر روزگار حاصل کر سکیں بلکہ ایک ذمہ دار شہری کی طرح جمہوری اور سیکیولر ہندوستان میں زندگی گزار سکیں۔ لیکن اس تعلیم سے ایک ہاتھ میں قرآن اور سر پر کلمہ کا تاج بھی رو نما ہو جائے گا، اس غلط فہمی میں مبتلا نہ رہیں ۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سر سید کے عصری تعلیم کے مشن کو زندہ رکھتے ہوئے ایسے ادارے اور جماعتیں زیادہ سے زیادہ وجود میں آئیں جو عصری علوم حاصل کر کے نکلنے والے دینی اور تہذیبی طور پر خام ذہنوں کو پختگی کا سامان مہیا کرنے کا کام کریں تاکہ دین کی اصل روح ان میں زندہ ہو۔ ساتھ ہی ساتھ عصری تعلیم کے مجھ جیسے اور آپ سبھی جیسے پُر جوش حامیوں پر لازم ہے کہ وہ دین کے معاملے میں معذرت خواہانہ ، مرعوبانہ و معروضانہ رویّہ ترک کریں ، احساسِ کمتری اور خوف سے باہر آئیں ۔ جہاں عصری تعلیم کے مراکز لا دینی تحریکوں کو بھی اپنے اندر پھیلنے پھولنے کا جمہوری حق دیتے ہیں وہیں ہم اسلامی بیداری کی حامل جماعتوں اور اداروں کے لئے کام کرنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کریں ۔
سرسید اپنے اخلاق، اپنی سیرت، اپنے علم اور دوراندیشی کی بدولت سب کے ذہنوں پرچھاگئے۔ یہی وجہ ہے کہ بادسموم نے نسیم سے شکست قبول کرلی اور سرسید کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ حالی نے حسب حال کیا عمدہ شعر کہا ہے:

بہت جھکّڑ چلے اور آئیں اکثر آندھیاں لیکن
رہا گلزار ہوکر باغ جو تونے لگایا ہے

 ہم جوش ملیح آبادی کے علی گڈھ کی شان میں کہے گئے ان  اشعار پر اپنی بات کو ختم کرتے ہیں:

اے علی گڑھ اے جواں قسمت دبستانِ کہن
اے کہ شمعِ فکر سے تابندہ تیری انجمن
تیرے پیمانوں میں لرزاں ہے شراب علم و فن
حشر کے دن تک پھلا پھولا رہے تیرا چمن