Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, October 1, 2019

ہندی فلموں کے معروف نغمہ نگار مجروح سلطان پوری کی یومِ پیدائش یکم اکتوبر کے ضمن میں خصوصی پیشکش، از قلم! محمد عباس دھالیوال مالیر کوٹلہ پنجاب


محمد عباس دھالیوال ،
مالیر کوٹلہ، پنجاب مورخہ 1 اکتوبر 2019.
رابطہ 9855259650
 abbasdhaliwal72@gmail.com

======صدائے وقت=====
’اک دن بک جائے گا ماٹی کےمول
جگ میں رہ جائیں گے پیارے تیرے بول‘‘


ہندی فلمی دنیا کے جب معروف نغمہ نگاروں کی بات چلتی ہے تو اس میں ساحر لدھیانوی،شکیل بدایونی اور شیلندر کے ساتھ ساتھ مجروح سلطانپوری کا نام بھی سر فہرست ہے آتا ہے۔ مجروح سلطانپوری ہندی فلموں کے بڑے گیت کار ہونے کے ساتھ ساتھ ترقی پسند تحریک سے وابستہ اردو زبان کے ایک عظیم شاعر تھے۔
محمد عباس دھالیوال

مجروح کا اصل نام اسرارالحسن خان تھا۔ آپ یکم اکتوبر 1919 کو اترپردیش کے ضلع سلطانپور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ایک سب انسپکٹر کے عہدہ پر فائز تھے۔
مجروح کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی اس کے بعد آپ نے اسکول میں صرف ساتویں جماعت تک ہی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں آپ نے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی اور ساتھ ہی مجروح نے سات سال کا درس نظامی کا کورس مکمل کیا جس کے بعد آپ عالم قرار پائے ۔ اس کے فوراً بعد لکھنؤ کے تکمیل الطب کالج سے یونانی طریقہ علاج میں تعلیم حاصل کی ۔اس طرح سے آپ ایک حکیم بن گئے۔ حکمت کے ساتھ ساتھ آپ شعر و شاعری میں بھی کافی شغل و دلچسپی رکھتے تھے۔ چنانچہ
ایک موقع پر سلطان پور میں مشاعرہ منعقد ہوا۔ جس میں مجروح صاحب نے بھی اپنا کلام پیش کیا مشاعرہ میں موجود سامعین نے مجروح کی غزل کو خوب سراہا اور ڈھیر ساری داد و تحسین سے نوازا۔ بس یہی آپ کی زندگی کا وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جہاں سے مجروح کی حکمت پس منظر میں چلی گئی اور صرف شاعری میدان عمل میں رہنما بن گئی ۔ قابل ذکر ہے کہ معروف شاعر جگر مرادآبادی بھی مجروح کے مصاحبوں میں سے ایک تھے۔
مجروح سلطانپوری کا مشاعروں سے فلمی دنیا میں شمولیت فرمانے کا واقع بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے دراصل ہوا یوں کہ آپ1945ء میں ایک مشاعرے میں شرکت کی غرض سے ممبی گئے ہوئے تھے۔ مشاعرہ میں جب مجروح سلطانپوری نے اپنا مرصع کلام سنایا تو سامعین پر ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہو گئی اور آپ کو یہاں خوب پذیرائی ملی اور کلام کو بے حد سراہا گیا ۔ انھیں مداحوں میں پروڈیوسر اے۔ آر۔ کاردار بھی شامل تھے۔ انہوں نے بھی مجروح کے کلام کی خوب تعریف کی اور اس کے بعد آپ کو پروڈیوسر اے آر کاردار نے معروف موسیقار نوشاد سے ملوایا۔ نوشاد نے مجروح کو ایک دھن سنائی اور اس پر ایک نغمہ لکھنے کےلئے کہا ۔نوشاد کی سنائی دھن پر مجروح نے اپنا وہ نغمہ کچھ اس طرح سے لکھا جس کے بول تھے۔کہ
جب اس نے گیسو بکھرائے”
جب مجروح نے مذکورہ نغمہ موسیقار نوشاد
کو سنایا تو انہوں نے اسے بے حد پسند فرمایا اور اسی وقت انہوں نے مجروح کے ساتھ فلم شاہ جہاں کے گیت لکھنے کا معاہدہ سائین کیا۔ اس فلم کے گیتوں کو ناظرین و سامعین کی طرف سے خوب پسند کیا گیا اوریہ نغمے اپنے وقت میں بے حد مقبول عام ہوئے۔بس اس کے بعد مجروح سلطانپوری نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔اپنے پچاس سالہ فلمی کیریئر میں مجروح سلطانپوری نے تقریباً300 سے زائد فلموں میں ہزاروں نغمے لکھے جو اپنے وقت میں بے حد پسند کیے گئے.
مجروح سلطان پوری

مجروح نے اپنی شاعری کا آغاز دوسرے شعراء کی طرح اردو غزل کے ساتھ ہی کیا ان غزلیہ شاعری منفرد لہجے میں کہی گئی ہے، لیکن اُن کی غزلیات کی تعداد ستر کے قریب ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ فلمی دنیا سے جڑے ہوئے تھے جس چلتے مختلف گیت وابستہ ہو چکے تھے۔ اُن کا شمار ترقی پسند شعراٴ میں ہوتا ہے۔ان کا مشہور شعر ہے کہ
ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک بھی ستم کی سیاہ رات چلے۔۔۔
اسی طرح ان کے کلام کا ایک مزید رنگ دیکھیں۔کہ
ہم کو جنوں کیا سکھلاتے ہو ، ہم تھے پریشاں تم سے زیادہ
چاک کیے ہیں ہم نے عزیزو، چا رگریباں تم سے زیادہ
چاک جگر محتاج رفو ہے، آج تو دامن صرف لہو ہے
اک موسم تھا ، ہم کو رہا ہے شوق بہاراں تم سے زیادہ
ان کے فلمی گیت آج بھی سامعین بڑے ذوق و شوق سے سنتے ہیں آج بھی جب انکے گیت ریڈیو پر نشر ہوتے ہیں تو کانوں میں رس گھولتے محسوس ہوتے ہیں :
کتنا نازک ہے دل یہ نہ جانا ۔۔۔ ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ
جب دل ہی ٹوٹ گیا۔۔۔
ہم جی کے کیا کریں گے
اپنے زمانے میں بے حد مقبول ہوا تھا اس گیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ نغمہ کے۔ ایل۔ سہگل کے جنازے کے ساتھ بجایا گیا تھا۔ مجروح کے گیت سہگل کی آواز میں مجروح اس قدرمقبول عام ہوئے ملک کے ہر گلی کوچوں میں گونجنے لگے گویا کے ایل سہگل و مجروح کی جگل بندی نے اپنے زمانے کامیابی کے ایسے جھنڈے گاڑے کہ جس مثال دینا مشکل ہے۔ مجروح سلطانپوری فلمی دنیا میں اپنے منفرد انداز و خاص انداز میں گیت لکھنے کے لیے مشہور تھے۔
مجروح کی یہ صفت رہی کہ انہوں نے فلمی گیتوں میں بھی ادبی تقاضوں کو ہمیشہ برقرار رکھنے کی کوشش کی یقینا
ان کی ذات فلمی گیتوں میں ایک خیالات کی ایک بلند ی دیکھنے کو ملتی رہی۔
انہیں فلمی دنیا کے سب سے بڑے اعزاز دادا صاحب پھالکے سے نوازا گیا۔
ان کے فلمی گیتوں میں خیالات کی نازکی سے بخوبی اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسے تخلیق کار کے قلم سے وجود میں آئے ہیں جوغزلیہ شاعری کا گہرا ادراک رکھتا ہے اور جس نے تمام رموز سامنے رکھ کر اپنے تجربات اشعار کے قالب میں ڈھالے ہیں۔
مجروح نے اپنے پچاس سالہ فلمی کیریئر میں 300 سے بھی زائد فلموں میں ہزاروں گیت لکھے۔ ان کے سینکڑوں نغموں کا جادو آج بھی ان کے شیدائیوں کے سر چڑھ کر بولتا ہے۔
اک دن بک جائے گا ماٹی کے مول
جگ میں رہ جائیں گے پیارے تیرے بول
ہمیں تم سے پیار کتنا
۔یہ ہم نہیں جانتے۔
کوئی ہم دم نہ رہا کوئی سہارا نہ رہا
ہم کسی کے نہ رہے کوئی ہمارا نہ رہا
فلم پاکیزہ کے ایک اور گیت کے بول ملاحظہ فرمائیں یہ گیت اپنے وقت کی معروف اداکارہ یعنی ہندی فلموں کی ٹریجڈی کوئین مینا کماری پر فلمایا گیا تھا اور مجروح کے سدا بہار گیتوں میں سے ایک ہے۔
*چلتے چلتے، یونہی کوئی مل گیا تھا
چلتے چلتے، یونہی کوئی مل گیا تھا
سرِ راہ چلتے چلتے
وہیں تھم کے رہ گئی ہے
میری رات ڈھلتے ڈھلتے
یونہی کوئی مل گیا تھا ۔
جو کہی گئی نہ مجھ سے
وہ زمانہ کہہ رہا ہے
کہ فسانہ بن گئی ہے
میری بات چلتے چلتے
یونہی کوئی مل گیا تھا ۔
ہندی فلموں کا یہ عظیم نعمہ نگار اور اردو غزل کا البیلا شاعر 24 مئی 2000 کو ممبئی میں اس جہان فانی کو ہمیشہ ہمیش کے لیے الوداع کہہ گیا اور اپنے پیچھے فلمی گیتوں کے جگت اور اردو شاعری میں میں ایک ایسی خلاء چھوڑ گیا جس کی بھرپائی ہوپانا مشکل ہے ۔
وہ لجائے میرے سوال پر کہ اُٹھا سکے نہ جھکا کے سر اُڑی زلف چہرے پہ اس طرح کہ شبوں کے راز مچل گئے
جب ہم مجروح سلطانپوری کی شاعری کو مطالعہ میں لاتے ہیں تو وہ قارئین کو لطف دینے کے ساتھ ساتھ ایک سیدھ ہدایت دیتی ہے کیونکہ آپ بھی اپنے ہم عصر دیگر شعراء کی طرح ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے اس لیے ان شاعری میں انقلابی جذبات کی نشاندھی بھی دیکھنے کو جابجا ملتی ہے جیسے کہ انکا ایک مشہور شعر ہے جو اکثر انقلاب اجلاس میں مقررین کی زبان سے سننے کو ملتا ہے۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
اسی طرح کے ترقی پسند تحریک سے انکی وابستگی کی شہادت دیتے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں کہ۔۔
بہانے اور بھی ہوتے ہیں زندگی کے لیے
ہم ایک بار تیری آرزو بھی کھو دیتے
دیکھ زنداں سے پرے رنگ و چمن جوش بہار
رقص کرنا ہے تو پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ۔
شب انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
کبھی اک چراغ جلا دیا،کبھی اک چراغ بجھا دیا۔روک سکتا ہمیں زنداں بھلا کیا مجروح
ہم تو آواز ہیں دیوار سے چھن جاتے ہیں
مجروح کے چند اشعار اور دیکھیں، یقیناً یہ سب ان کے ایک بڑے شاعر ہونے گواہی دیتے نظر آتے ہیں۔
جفا کے ذکر پہ تم کیوں سنبھل کے کے بیٹھ گئے
تمہاری بات نہیں بات ہے زمانے کی
ہم کو جنوں کیا سکھلاتے ہو ہم تھے پریشاں تم سے زیادہ
چاک کئے ہیں ہم نے عزیزو ،چار گریباں تم سے زیادہ
غم حیات نے آوارہ کر دیا ورنہ
تھی آرزو کے تیرے در پہ صبح و شام کریں
بچا لیا مجھے طوفاں کی موج نے ورنہ
کنارے والے سفینہ میرا ڈبو دیتے
آخر میں ہم مجروح سلطانپوری کو ان کے ہی ایک شعر کے ذریعے خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہیں گے کہ
زباں ہماری نہ سمجھا یہاں کوئی مجروح
ہم اجنبی کی طرح اپنے ہی وطن میں رہے