Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, October 29, 2019

اویسی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو رہا ہے !



تحریر: شیوم وج ( دی پرنٹ، 25 اکتوبر 2019) /صداٸے وقت۔
============================
اسد الدین اویسی سے میری پہلی ملاقات بہار کے شمال مشرقی Hسیمانچل کے علاقہ کشن گنج میں ہوئی تھی. میں نے ان سے سیدھے وہی سوال کیا  تھا جو سوال ہر ایک شخص ان سے کرنا چاہتا ہے: کیا آپ بی جے پی کے ایک اجینٹ ہیں؟ ان کا یہ منطقی جواب تھا:"اگر میں بی جے پی کا اجینٹ ہوتا تو کیوں میں کچھ ہی سیٹوں کے لیے مقابلہ کر رہا ہوتا؟ کیا بی جے پی ہر جگہ مسلم ووٹ کاٹنا نہیں چاہے گی؟ "


تب سے ہی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کی انتخابی جد و جہد کے طریقہ کار پر میری گہری نظر رہی ہے.
مجلس فیصلہ کن رول ادا کرنے کے لیے کثیر تعداد میں رہ رہے مسلم رائے دہندگان کی سیٹوں کو ہی اپنا ہدف بناتی ہے. وہ اس الیکشن کو خود جیتنے کے لیے لڑ تی ہے نہ کہ بی جے پی کی جیت میں مدد کرنے کے لیے. مثلاً مجلس اتحاد المسلمین نے2019 کے لوک سبھا انتخابات میں اترپردیش میں ایک بھی امید وار نہیں اتارا جب کہ سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج وادی پارٹی دونوں ہی ایک مشترکہ مقابلہ کر رہی تھی، ایسے موقع پر مجلس اتحاد المسلمین کے امیدوار بی جے پی کی اور بھی مدد کر سکتے تھے.
جیسا کہ میرے دماغ میں یہ بات ڈالی گئی تھی کہ مجلس اتحاد المسلمین بی جے پی ایجینٹ ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کانگریس کا سازشی نظریہ ہے (Conspiracy theory)  کیونکہ کانگریس پارٹی اور اس کی چابلوسی کے ساتھ جو کوئی بھی نہیں ہے وہ اس کی نظر میں فرقہ پرست ہے.
لیکن اب تک مجھے یہ معلوم نہ ہوسکا تھا کہ اویسی چاہتے کیا ہیں. ان کا مقصد کیا ہے؟ وہ کیا حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اگر وہ ہر سیٹ پر انتخابات نہیں رہے ہیں اور کسی بڑے اتحاد میں شامل بھی نہیں ہورے ہیں تو آخر وہ انتخابی سیاست سے  حاصل کیا کررہے ہیں؟ خود ان کی ریاست تلنگانہ میں مسلمان حیدرآباد سے باہر مجلس کو نہیں دیکھتے. اویسی خود اپنی ریاست میں وزیر اعلیٰ بننے کا خواب کبھی نہیں دیکھ سکتے، مجلس بھت جلد ہی حکمراں پارٹی بھی نہیں ہوسکتی،لیکن میں یہاں اس بڑے سوال کا جواب دینا چاہتا ہوں:اویسی آخر چاہتے کیا ہیں؟

اویسی کیا چاہتے ہیں؟ 

انہوں نے جواب دیا کہ میں بس یہ چاہتا ہوں کہ ہر ریاست کی اسمبلی میں ایک ایم ایل اے ہو،اور بس ایک ہی کافی ہے.اور میں اس ایم ایل اے سےصرف یہ چاہتا ہوں کہ  وہ اسمبلی میں کھڑے ہوکر سیکولر جماعتوں سے یہ سوال کرے کہ تم نے بی جے پی کا استعمال کرتے ہوئے انہیں بلیک میل کرکے ووٹ لیا. لیکن مسلم اکثریت علاقوں میں اسکولوں اور سڑکوں کی تعمیر کا کیا حال ہے؟ "
میں نے سوچا کہ یہ تو ایک قابل تعریف اور لائق ستائش مقصد ہے. مسلم رائے دہندگان اکثر یہ محسوس کرتے ہیں کہ انتخابات میں ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہوتا ہے. اور انہیں سیکولر پارٹی کے مجرم اور بدمعاش کو بھی ووٹ دینا پڑتا ہے کیونکہ بی جے پی کو ان کے ووٹ کی طلب نہیں ہوتی ہے. بی جے پی اور آر ایس ایس کا کوئی کارکن جب ایک مسلم پڑوسی کے پاس پہونچتا ہے تو وہ تیزی سے وہاں ٹرن لے لیتا ہے. 
اس طرح کے ماحول میں ایک ایسی مسلم پارٹی کی موجودگی جو مسلمانوں کے بطور سیکولر جماعتوں کے متعین ووٹ بینک کے نظریہ کو چیلنج دے سکے بھت ہی عظیم قدم ہے۔
اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اویسی ہندوستانی مسلمانوں کے واحد ترجمان "sole spokesperson"بننا نہیں چاہ رہے ہیں، یہ ایک بھت ہی خراب اصطلاح ہے جس کا استعمال محمد علی جناح کو بیان کرنے کے لیے کیا جاتا ہے. اویسی ہر چیز سے پہلے ایک آئین پسند ہیں. اسلام ان کا عقیدہ ہے،اور آئین ان کا نظریہ ہے. جس نکتہ پر وہ زور دینا چاہ رہے ہیں  وہ یہ  ہے کہ دونوں چیزیں ایک ساتھ چل سکیں.

نوجوانوں کے آئیڈیل

2015 کو کشن گنج میں میں نے نوجوان رائے دہندگان کو اویسی کے تئیں اسی طرح پرجوش دیکھا جس طرح لوگ اپنے ہیرو کے تئیں پرجوش ہوتے ہیں، ان مظاہر کی تشریح مجھ سے علی گڑھ میں ایک مسلم صحافی نے کرتے ہوئے کہا کہ اویسی بابری مسجد کے بعد کی مسلم سیاست کے پیداوار ہیں، 1992 کی بابری مسجد شہادت نے ان متحرک مسلم سیاستدانوں کو جو بطور مسلم کے مین اسٹریم عوامی بحثوں میں اپنی باتیں رکھتے تھے کو خاموش کردیا تھا اس بات نے اس نظریہ کو اور بھی تقریباً مستحکم کردیا تھا کہ تقسیم ہند نے ہندوستانی سیاست میں" مسلم پارٹی "کے لیے کوئی بھی موقع نہیں چھوڑا ہے۔ 
 لیکن اویسی ان تمام خیالات کو چیلنج کرتے ہیں اور انہیں جذبہ سے سرشار  ایسے مسلم نوجوان فراہم ہوتے ہیں جو 1992  کے بعد پیدا ہوئے ہیں، اس طرح  مسلمانوں میں اویسی کی شہرت کو لے کر ایک نسلی تقسیم ہے:92 سے پہلے کی نسل سوچتی ہے کہ وہ ایک غلط نظریہ والے ہیں، جبکہ اس کے بعد کی نسل سوچتی ہے کہ وہ بلکل اس نظریہ کے مطابق ہیں جس کی انہیں اس وقت شدید ضرورت ہے. نوجوان طبقہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اسے مسلم ہونے پر نادم وشرمندہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اسے دوئم درجہ کی حیثیت قبول ہے. وہ سوچتا ہے کہ بطور مساوی شہری کے  اسے ہندوستانی آئین کے مطابق اپنے حقوق کا دعویٰ کرنا چاہۓ، بلکل اسی طرح جس طرح دوسرے ہندوستانی دعویٰ کرتے ہیں اور یہی وہ چیز ہے جس کی ترجمانی اویسی کر رہے ہیں. 
یہ بلکل واضح ہے کہ صرف مسلم ووٹوں سے مجلس اتحاد المسلمین سیٹیں نہیں جیت سکتی ہے، اور سوال یہ ہے کہ ہندو رائے دہندگان کیوں ایک مسلم پارٹی کو ووٹ دینا چاہیں گے؟ 
اسی وجہ سے یہ آئینی نظام بھی امبیڈکر کے ماننے والے دلتوں  سے مجلس کی اپیل کا حصہ ہے، اس طرح مجلس کچھ کامیابی کے ساتھ دلت بشمول حاشیوں پر جی رہے لوگوں کا ایک اتحاد بنانے کے لیے کوشش کر رہی ہے، مثال کے طور پر ایک مسلم ووٹ بینک مجلس کو یہ صلاحیت فراہم کرتا ہے کہ مجلس ان ووٹوں کو ایک دلت امیدوار تک منتقل کر سکے، اسی نظریہ کی بنیاد پر مہاراشٹر میں مجلس نے پرکاش امبیڈکر کے ساتھ اتحاد کیا تھا. 
باوجودیکہ مجلس2015 میں کشن گنج کا الیکشن ہار گئی تھی لیکن میں نے رائے دہندگان کو اویسی کے پاس جاکر یہ کہتے ہوئے دیکھا کہ وہ ان سے محبت کرتے ہیں اور وہ انہیں اگلی دفعہ ووٹ کرینگے،حالانکہ اس وقت نتیش، لالو اور کانگریس اتحاد کی بے جے پی کو شکست دینے کے لیے حمایت بھی کی گئی تھی۔

اب کھاتا کھل چکا ہے

مجلس2019 کے لوک سبھا الیکشن میں کشن گنج میں کثیر ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر آئی تھی. کانگریس نے اس سیٹ کو جیتا تھا اور جنتا دل(یو ) دوسرے نمبر پر رہی تھی. کیا اس سیٹ کو مجلس، جنتا دل(یو ) اور بی جے پی اتحاد نہیں جیت سکتی تھی.  وہ واحد سیٹ  جسے بہار میں یو پی اے نے جیتا تھا وہ کشن گنج کی ہی سیٹ تھی، ایسے موقع پر ہمیں مجلس کے ذریعہ ووٹ کاٹنے کا شکریہ ادا کرنا چاہئے ہے نا!  

کانگریس امیدوار چونکہ سیٹنگ ایم ایل اے بھی تھے اسی لیے یہاں ودھان سبھا ضمنی الیکشن کی ضرورت تھی. 
جمعرات کو مجلس نے اس سیٹ پر اپنی زبردست کامیابی درج کرائی ہے، پارٹی نے بہار میں  کھاتا کھولنے کا آغاز کردیا ہے، اچھی بات تو یہ رہی کہ بی جے پی دوسرے نمبر پر اور کانگریس تیسرے نمبر پر آئی ہے.  اب 2020 کے نومبر بہار اسمبلی الیکشن میں اویسی یہ کہ سکینگے کہ کشن گنج میں مجلس بمقابلہ بی جے پی ہے. اور اس کا اثر پورے سیمانچل خطہ میں محسوس کیا جائے گا.

نئی سرحدیں

مجلس نے 2014 کے مہاراشٹر اسمبلی کی دوسیٹیں جیتی تھی، لیکن اس بار وہ دونوں سیٹیں ہار گئی ہے. لیکن دو نئی مالیگاؤں اور دھولیہ سیٹیں اس نے جیت لی ہے. دوسرے الفاظ میں ہم کہ سکتے ہیں کہ مجلس ایک مستقل انتخابی پارٹی بن چکی ہے، اور لوگ ای وی ایم پر مجلس کی علامت پتنگ پر بٹن دابنے لگ گئے ہیں، مجلس کو پہلے واحد ممبر پارلیمنٹ والی پارٹی کہا جاتا تھا، لیکن اب مجلس کی لوک سبھا میں دو سیٹیں ہیں:2019 کے لوک سبھا  انتخابات میں امتیاز جلیل نے اورنگ آباد سے اپنی جیت درج کرائی تھی.
اترپردیش میں مجلس کی 30 سیٹیں مختلف مونسپل کارپوریشن میں ہیں، مجلس کے ممبر کو غازی آباد کے داسنا مونسپل کونسل کا صدر بنایا گیا تھا. 
جمعرات کو پرتاپ گڑھ اسمبلی ضمنی الیکشن میں مجلس تیسے نمبر پر رہی. اویسی کا خواب شرمندہ تعبیر ہورہا ہے،  اب بہار میں ان کے پاس ایک اور مہاراشٹر اسمبلی میں دو ایم ایل اے ہے اور ہندوستانی سیاست کی سب سے اہم ریاست اترپردیش بھی اس فاصلہ کو تیزی سے طے کر رہی ہے. 
مجلس کی بڑھتی ہوئی انتخابی کامیابی سیکولر پارٹیوں کے لیے اس بات کا اشارہ ہے کہ اب وہ مسلم رائے دہندگان کو معمولی سمجھنے کی غلطی نہ کرے، اگر بے حسی اور ہندو ووٹ کے کھو جانے کا ڈر سیکولر پارٹیوں کو مسلمانوں سے دور کررہا ہے تو دنیا بھر کے الزامات اویسی پر کیوں؟؟

(مترجم:احمد الحریری، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی )