Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, October 2, 2019

کرنسی کی حقیقت اور معیشت پر اس کے اثرات

سراج الدین فلاحی

ہمارے یہاں اکثر لوگوں کے ذہن میں یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ ہر ملک کو کرنسی چھاپنے کے لیے کرنسی کے بقدر عالمی بینک یا آئی ایم ایف کے پاس سونا رکھنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر ممالک کرنسی چھاپ سکتے ہیں. بہت سارے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر ہندوستان کے پاس کرنسی پرنٹ کرنے کی مشین ہے تو ہندوستان اپنی مرضی سے زیادہ سے زیادہ نوٹ کیوں نہیں چھاپتا؟ کیوں نہ RBI لامحدود پیسہ چھاپ کر سب کو امیر بنا دیتا؟ جب سب کے پاس نوٹوں کی گڈیاں آ جائیں گی تو کوئی غریب رہے گا نہ ہی کوئی بے روزگار، نہ کوئی بھوک کی وجہ سے مرے گا اور نہ ہی لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں پیسہ کمانے کے لیے جائیں گے. حکومت کو بھی اپنے قرضوں سے نجات مل جائے گی. چنانچہ حکومت بھی امیر اور عوام بھی خوشحال.
دراصل کوئی بھی ملک لامحدود کرنسی نہیں چھاپتا جبکہ تمام ممالک نوٹ چھاپنے کے لیے بالکل آزاد ہیں. نوٹ چھاپنے کے لیے نہ ہی انہیں آئی ایم ایف، عالمی بینک یا دیگر عالمی اداروں اور ملکوں سے اجازت لینی پڑتی ہے اور نہ ہی سونا چاندی یا کسی دوسری دھات کی شکل میں کسی طرح کا ٹھوس اثاثہ اپنے پاس رکھنا پڑتا ہے.
اگر ہم خاص کر اپنے ملک کے کرنسی نظام کی بات کریں تو انڈین مونیٹری سسٹم پیسہ یا زر کا وہ نظام ہے جس کے تحت حکومت کے حکم پر پیسہ معیشت میں سرکولیٹ ہوتا ہے. ہندوستان میں آج کل جو زری نظام رائج ہے اسے کاغذی زر میعار (Paper Currency Standard) کہتے ہیں کیونکہ یہاں زر میعار کاغذی کرنسی ہے. کاغذی کرنسی ہی میں تمام لین دین ہوتی ہے اور یہی لیگل ٹنڈر بھی ہے. اس کو انتظامی کرنسی میعار (Managed Currency Standard) بھی کہا جاتا ہے. ہندوستان میں وہ نظام جس کے تحت نوٹ جاری کیے جاتے ہیں وہ کم سے کم سونے کا بیک اپ ہے. یعنی نوٹ جاری کرنے کے لیے RBI کو کم سے کم ریزرو سسٹم (Minimum Reserve System) کی پیروی کرنا پڑتا ہے. اس سسٹم کے مطابق RBI جو ملک کا مرکزی بینک ہے اس کو سونے اور غیر ملکی سیکورٹیز کی شکل میں دو سو کروڑ روپیہ کا کم سے کم ریزرو اپنے پاس رکھنا پڑتا ہے جس میں 115 کروڑ روپیہ کا سونا اور باقی 85 کروڑ روپیہ غیر ملکی سیکوریٹیز (Foreign Securities) کی شکل میں ہوتا ہے. اس کی بنیاد پر RBI کتنی بھی کرنسی چھاپ سکتا ہے. ہندوستان میں ایک روپے کا نوٹ اور تمام طرح کے سکے حکومت کی طرف سے جاری کیے جاتے ہیں (ایک روپے کے نوٹ کی چھپائی اب حکومت کی طرف سے بند کر دی گئی ہے) البتہ ملک میں RBI کو ایک روپے کے علاوہ باقی تمام کرنسی نوٹوں کو جاری کرنے کا تنہا اختیار حاصل ہے. (واضح رہے اس وقت دنیا میں کاغذی کرنسی کا جو نظام رائج ہے اس میں کاغذی کرنسی کی پشت پر کسی بھی طرح کی دھات یعنی سونا، چاندی وغیرہ نہیں ہے. اس کا مطلب یہ ہے کہ کاغذی کرنسی سونے میں قابل بدل نہیں ہے اسی لیے موجودہ کرنسی کو ناقابل بدل کرنسی (Inconvertible Currency) کہا جاتا ہے.
آر بی آئی کے پاس نوٹ چھاپنے کا مکمل اختیار ہونے کے باوجود وہ لامحدود نوٹ نہیں چھاپتا کیونکہ کرنسی ملک میں موجود اشیاء و خدمات کے بقدر چھاپی جاتی ہے. اگر ان دونوں میں توازن نہیں رکھا گیا تو بہت سارے مسائل جنم لیتے ہیں.
جب RBI نوٹ چھاپتا ہے تو نوٹ چھاپنے کی وجہ سے معیشت میں پیسہ کی سپلائی بڑھ جاتی ہے اور جب پیسہ کی سپلائی کے بڑھنے کا تناسب ملکی پیداوار سے زیادہ ہونے لگتا ہے تو معیشت مہنگائی (Inflation) کا شکار ہو جاتی ہے. مہنگائی کی وجہ سے ملک کی برآمدات (Exports) گھٹ جاتی ہیں جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی آ جاتی ہے اور زرمبادلہ میں کمی کی وجہ سے درآمدات (Imports) کا مسئلہ پیدا ہونے لگتا ہے (ہندوستان پٹرولیم پروڈکٹ اور کیپیٹل اشیاء وغیرہ کی درآمد پر زرمبادلہ کا ایک بڑا حصہ خرچ کرتا ہے). چنانچہ معیشت بحران کی شکل اختیار کر لیتی ہے. اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں. فرض کریں معیشت میں کسی شئ کی ایک ہزار اکائیاں پیدا کی گئیں اور اس معیشت میں دس ہزار روپیے کی کرنسی موجود ہے. اس کا مطلب یہ ہے کہ شئ کی اوسط قیمت دس روپیہ ہے. اگر آر بی آئی پانچ ہزار کرنسی مزید اور چھاپ دیتی ہے جو کہ اس کے لیے صرف آسان ہی نہیں ہے بلکہ ایسا کرنے میں وہ آزاد بھی ہے، تو پیسہ کی سپلائی بڑھ کر پندرہ ہزار روپے ہو جائے گی جب کہ معیشت میں شئ کی پیداوار صرف دس ہزار یونٹ ہی ہے نتیجتاً پانچ ہزار روپے کے اضافی پیسے سے اس کی سپلائی میں اضافہ ہو گا اور شئ کی اوسط قیمت دس روپیہ سے بڑھ کر پندرہ روپیہ ہو جائے گی. یعنی پیسہ کی سپلائی بڑھ جائے لیکن پیداوار میں کوئی اضافہ نہ ہو تو اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے. اگر پیداوار میں پانچ فیصد اضافہ ہو اور پیسہ کی سپلائی دس فیصد بڑھ جائے تو معیشت میں پانچ فیصد افراط زر ہو گا. اس لئے پیداوار کو نظر انداز کر کے نوٹ چھاپنا کرنسی کی قدر میں عدم استحکام کا سبب بن جاتا ہے. یعنی نوٹ زیادہ پرنٹ ہونے پر مہنگائی اس لیے بڑھ جاتی ہے کیونکہ پیسہ کی سپلائی بڑھ جاتی ہے اور جب پیسے کی سپلائی بڑھ جاتی ہے تو لوگوں کی قوت خرید بڑھ جاتی ہے. قوت خرید کے بڑھنے سے ڈیمانڈ میں اضافہ ہوتا ہے، ڈیمانڈ میں اضافہ کی وجہ سے اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے.
واضح رہے دنیا کا ہر ملک اپنی مرضی کے مطابق نوٹ چھاپنے کے لیے بالکل آزاد ہے پھر بھی وہ لامحدود نوٹ نہیں چھاپتا کیونکہ ہر ملک یہ بات سمجھتا ہے کہ زیادہ نوٹ چھاپنے سے نوٹوں کی ویلیو میں گراوٹ آتی ہے اور سامان کی ویلیو بڑھ جاتی ہے اس لیے سامان مہنگے ہو جاتے ہیں.
پہلی جنگ عظیم کے بعد جب دنیا نے جنگ کے لیے جرمنی کو مورد الزام ٹھہرایا تو کئی ممالک نے مل کر تمام جنگی اخراجات جرمنی پر تھوپ دیے نتیجتاً جرمنی نے دنیا کے قرضوں کو چکانے اور ملکی بحران سے نمٹنے کے لئے خوب نوٹ پرنٹ کیے. بہت زیادہ نوٹ پرنٹ کرنے کی وجہ سے جرمنی کی کرنسی کی ویلیو گر گئی اور معیشت بری طرح تباہ ہو گئی.

ابھی چند سال قبل زمبابوے میں معاشی بحران آیا اور ملک بری طرح متاثر ہوا. معیشت کو بچانے کے لیے زمبابوے کی حکومت نے خوب نوٹ پرنٹ کیے یعنی ملک میں موجود وسائل سے زیادہ نوٹ پرنٹ کیے. نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کی کرنسی اتنی زیادہ گر گئی کہ ایک روٹی خریدنے کے لیے نوٹوں سے بھرا ہوا بیگ لے کر جانا پڑتا تھا. بالآخر حکومت نے ایک ایک ٹریلیئن کا نوٹ پرنٹ کیا. سالوں بعد جب ساری تدابیر ناکام ہو گئیں تو تمام نوٹوں کو کالعدم قرار دے کر حکومت نے نئی کرنسی جاری کیں. اس لئے دنیا کے تمام ممالک لامحدود نوٹوں کے پرنٹ کرنے کے اختیار کے باوجود بقدر ضرورت نوٹ پرنٹ کرتے ہیں.

ایک اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ ڈھائی سو سال میں دنیا کے اندر اشیاء و خدمات کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا لیکن گولڈ اسٹینڈرڈ کو متروک کرنے کے بعد( جب 1971 میں بریٹن ووڈ معاہدے کو کالعدم قرار دینے کا رسمی اعلان کیا گیا جس کی رو سے ڈالر کی پشت پر سونا تھا اور اس کی قیمت مقرر تھی )اس کی قیمتوں میں تقریباً پچاس گنا سے بھی زیادہ کا اضافہ ہو چکا ہے گولڈ اسٹینڈرڈ ایسے مانیٹری سسٹم کو کہتے تھے جس میں اشیاء و خدمات یا سرمایہ کاری کے ویلیو کی پیمائش سونے میں کی جاتی تھی یعنی ایک کاغذی کرنسی سونے کے مخصوص مقدار کی نمائندگی کرتی تھی اور کاغذی نوٹوں کو سرکولیشن کا آلہ بنایا جاتا تھا یہ نوٹ حکومت کے پاس موجود سونے چاندی کے قائم مقام بھی ہوتے تھے. اس کے مطابق کوئی بھی ملک کرنسی کی سرکولیشن کو اس وقت تک بڑھا نہیں سکتا تھا جب تک وہ گولڈ ریزرو میں اضافہ نہ کر لے. کاغذی کرنسی سونے کے متعین وزن سے تعلق رکھتی تھی اور ڈیمانڈ پر کاغذی کرنسی کو سونے کے سکوں میں تبدیل کیا جا سکتا تھا.

ساری باتیں جاننے اور سمجھنے کے باوجود دنیا کا ہر ملک اپنے وسائل سے زیادہ کرنسی چھاپتا ہے. اسی لیے کہتے ہیں دور حاضر میں دنیا کا سب سے بڑا دھوکا موجودہ کاغذی کرنسی ہے. اسی طرح امریکہ کے مرکزی بینک Federal Reserve کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ یہ بینک اس صدی کا سب سے بڑا فراڈ ہے. مشہور ماہر معاشیات پروفیسر کینز (J. M. Keynes) جس نے 1930 کے مغربی ممالک کی زبردست کساد بازاری کے بعد کلاسیکی نظریات کو رد کر آمدنی اور روزگار کا نیا نظریہ پیش کیا تھا. معاشیات میں اس کے ناقابل فراموش کاموں کی بنا پر اس کو جدید معاشیات کا بانی کہا جاتا ہے. کہتا تھا کہ حکومتیں مسلسل کرنسی چھاپ کر بڑی خاموشی سے اپنے ملک کے عوام کی دولت کے ایک بڑے حصے پر قبضہ جما لیتی ہیں. جوسیہ چارلس سٹیمپ جس کا شمار چوٹی کے ماہرین معاشیات میں ہوتا ہے جو نہ صرف بہت بڑا صنعت کار تھا بلکہ Bank of England کا ڈائریکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ برطانیہ کا دوسرا امیر ترین شخص بھی تھا. کہتا تھا ماڈرن بینکنگ سسٹم مفت میں نوٹ چھاپتا ہے یعنی بغیر کچھ خرچ کیے کرنسی بناتا ہے اور یہ چیز موجودہ دنیا کی سب سے بڑی شعبہ بازی ہے. وہ مزید آگے کہتا ہے کہ اگر اس دنیا کو بینکوں سے چھین بھی لیا جائے لیکن ان کے پاس نوٹ چھاپنے کا اختیار باقی رہے تو یہ مشینوں پر محض انگلیاں ہلا کر اتنی کرنسی بنا لیں گے کہ چند روز میں دوبارہ دنیا خرید لیں. بنجمن ڈی اسرائیلی جس کا شمار برطانیہ کے مشہور سیاست دانوں میں ہوتا ہے جو کنزرویٹیو پارٹی سے تعلق رکھتا ہے اور دو دفعہ برطانیہ کا وزیر اعظم بھی رہ چکا ہے کہتا تھا کہ یہ بہت اچھی چیز ہے کہ موجودہ دنیا اور اس میں رہنے والی عوام بینک کاری اور مالیاتی نظام سے بے خبر ہے اگر لوگ بینکنگ سسٹم اور کرنسی کے نظام سے واقف ہو جائیں تو مجھے پورا یقین ہے کہ کل صبح دنیا میں بغاوت ہو جائے.
لہذا ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ موجودہ کرنسی پر مشتمل نظام معیشت آئیڈیل ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ اس کے نقصانات دنیا کے سامنے جگ ظاہر ہیں بطور خاص غریب اور مزدور طبقات اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں. جس طرح کسی معیشت میں اشیاء و خدمات کی ایک حد ہوتی ہے اور اسی کی بنیاد پر کل گھریلو پیداوار (GDP) کا تعین ہوتا ہے اسی طرح ان کی خرید و فروخت کے لیے کرنسی کی بھی حد ہونی چاہئے نہ کہ معیشت کو نظر انداز کر کے نظام معیشت میں نوٹوں کا ذخیرہ بہا دیا جائے جس کے مضر اثرات دنیا کے سامنے افراط زر یعنی مہنگائی اور آمدنی کی غیر مساوی تقسیم کی شکل میں وقوع پذیر ہوتے ہیں. لہذا گولڈ اسٹینڈرڈ کے نظام کو نافذ کر کے ہی موجودہ بینکنگ سسٹم کے فساد اور معاشی عدم مساوات کو دور کیا جا سکتا ہے.
کاغذی کرنسی کی گرتی قدر اور نتیجتاً معیشت میں مہنگائی کے طوفانوں کا ایک ہی حل ہے کہ مالیاتی لین دین میں گولڈ اسٹینڈرڈ کے نظام کو رائج کیا جائے جب سونے چاندی یا کوئی دھاتی معیار برائے کرنسی موجود ہو گا تو مشینوں پر انگلیوں کو حرکت دے کر اربوں روپے کی نئی کرنسی نظام میں داخل کرنا ممکن نہیں ہو گا.
اس سلسلے میں اسلام نے ٹھوس اشیاء کو اسلامی کرنسی کی بنیاد قرار دیا ہے چونکہ اس کی پشت پر حقیقی اثاثہ ہوتا ہے اس لیے کوئی کبھی بھی اپنی مرضی کے مطابق نوٹوں کو حقیقی اثاثے میں تبدیل کر سکتا ہے.