Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, November 3, 2019

وہاٹ ایپ جاسوسی۔۔۔جمہوریت پر شب خوں !


از/شکیل رشید /صداٸے وقت۔
=======================
ہندوستان کو دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک کہاجاتا ہے۔ بھلا کیوں؟ اس سوال کا آج تک کوئی تشفی بخش جواب نہیں مل سکا ہے۔ شاید اس لیے کہ اس ملک میں الیکشن کا عمل کئی ہفتے بلکہ مہینے بھر چلتا ہے اور کروڑو ں کی تعداد میں لوگ حق رائے دہی کا استعمال کرتے او راپنے نمائندے منتخب کرکے اپنی حکومت بناتے ہیں۔ عوام کےلیے عوام کی حکومت ۔ لیکن کیا واقعی اسے عوام کےلیے عوام کی حکومت کہاجاسکتا ہے؟

اس سوال کی جوبھی وجوہ ہیں ان سے ایسا کوئی نہیں جو واقف نہ ہو۔ فرقہ پرستی، ذات پات، مذہب، نفرت، تعصب، جانبداری او رپچھڑوں ، کمزوروں، دلتوں واقلیتوں کو ’غلام‘ بنانے کی کوششیں۔اب ایک ’نئی بات‘ سامنے آئی ہے؛ کہنے کو تو ’نئی‘ پر اس پر عملدرآمد کی کوشش بہت پرانی ہے۔ جس عوام کےلیے عوام کی حکومت بنی ہے اسی عوام کے گھروں میں ’تانک جھانک‘ کی بات! جی !اس ملک میں جہاں اقتدار کی اونچی اونچی کرسیوں پر متمکن لیڈران یہ تک فیصلے کرتے ہیں کہ کسے کیا کھانا اور کیا پہننا چاہئے اب یہ کوشش ہورہی ہے کہ لوگوں کے گھروں میں تاک جھانک کرکے ان کے ’راز‘ حاصل کیے جائیں اور ممکن ہوسکے تو ان ’رازوں‘ کی بنیاد پرانہیں  ڈرایا اور دھمکایاجائے۔ تاک جھانک یعنی لوگوں کی جاسوسی کرنے کا معاملہ اس وقت سامنے آیا جب سان فرانسسکو میں ایک امریکی وفاقی عدالت میں ’وہاٹس ایپ‘ نے جو ’فیس بک‘ کے ر ابطے کا مشہور پلیٹ فارم ہے، یہ انکشاف کیا کہ ہندوستان میں عام انتخابات کے دوران صحافیوں اور حقوق انسانی کے رضا کاروں، وکلا اور دیگر اہم شخصیات کی جاسوسی کےلیے اسرائیل کے ’اسپائی ویئر پیکاسس‘ کا استعمال کیاگیا ہے۔ امریکہ میں بھی ایسی ہی جاسوسی کی گئی تھی۔ ایک  اطلاع کے مطابق ہندوستان میں جن افراد کی جاسوسی کی گئی ہے ان کی تعداد ۱۲۱ ہے اور ’وہاٹس ایپ‘ نے اس تعلق سے حکومت کو ساری تفصیلات فراہم کردی ہیں۔ یہ معاملہ اہم اس لیے ہے کہ ہندوستان میں ہر جمہوری ملک کی طرح عوام کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے۔ یہ جاسوسی  اظہار رائے کی آزادی پر شب خون ہے۔ بات صرف اتنی ہی نہیں ہے، اسرائیل کی جس کمپنی کے ’سافٹ ویئر‘ کو جاسوسی کے لیے استعمال کیاگیا وہ کمپنی اپنا ’سافٹ ویئر‘ صرف حکومتوں کو ہی فراہم کرتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر حکومتوں کو ہی ’سافٹ ویئر‘ فراہم کیاجاتا ہے تو ہندوستان میں وہ سافٹ ویئر کس نے منگوایا اور کس کے پاس آیا؟ ہماری حکومت سوال ’وہاٹس ایپ‘ سے کررہی ہے جبکہ سوال اسرائیل اور اس کی کمپنی ’اسپائی ویئر پیکاسس‘ سے کیاجاناچاہئے۔ ایک تشویشناک امر یہ ہے کہ ابھی ’وہاٹس  ایپ‘ کے پلیٹ فارم سے ہی جاسوسی کا معاملہ سامنے آیا ہے جبکہ مذکورہ ’سافٹ ویئر‘ سوشل میڈیا کے دوسرے پلیٹ فارموں سے بھی استعمال کیاجاسکتا ہے! تو کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ ہم سب کی ، جو اس جمہوری ملک میں رہتے ہیں، جاسوسی کی جارہی ہے اور ہمارے گھروں میں تاک جھانک کرکے ہماری ذاتی زندگیوں میں دخل دیاجارہا ہے؟ حکومت جواب دے۔