Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, November 3, 2019

”جہاں نما کی سیر” ۔۔۔قسط پنجم۔۔۔از مولانا فضیل احمد ناصری



فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
============================
*اجلاس کی اگلی کار روائی*
..........................................
نعت کے بعد مولانا شمشاد رحمانی صاحب کی تقریر ہوئی، جو آدھے گھنٹے تک چلی۔ ان کے بعد ایک بار پھر مقبول خوش گلو: جناب قاری شبیر احمد صاحب کو نظم پڑھنے کی دعوت دی گئی۔ انہوں نے سیدنا حضرت معاویہؓ کی شان میں میری لکھی ہوئی منقبت پڑھی۔ منقبت خوانی کچھ اس شان کی تھی کہ حاضرین جھوم رہے تھے اور سر دھن رہے تھے۔ یہ منقبت ان کے پڑھنے کے بعد اب کافی مشہور ہو چکی ہے اور ہر جگہ سنی جا رہی ہے۔

*ڈاکٹر عبدالعلی فاروقی صاحب سے ملاقات*
.......................................
نظم خوانی شروع ہوئی تو برادرم مولانا مفتی شاکر نثار المدنی نے ڈاکٹر عبدالعلی فاروقی صاحب سے کہا کہ اس کلام کے موجد فضیل احمد ناصری اسٹیج پر موجود ہیں۔ ڈاکٹر صاحب مجھے پہلے سے جانتے تھے۔ میرا ایک مضمون *کھجناور کی سیر* مولانا ساجد کھجناوری کے توسط سے ان تک ایک برس قبل پہونچ چکا تھا، جس پر ان کا تبصرہ کچھ یوں تھا: 

*مولانا فضیل صاحب کے رنگین قلم سے لکھا گیا درج بالا مختصر "سفر نامہ کھجناور" آپ کی محبت اور عنایت سے پڑھنے کوملا ۔ دو فائدے نقد ہوئے: اول کھجناور کا املا درست ہوا، اب تک میں اول کے فتحہ کے ساتھ پڑھتا تھا ۔ دوم یہ کہ ہمارے خاندانی بزرگ حضرت شاہ محمد یعقوب صاحب کی سسرال بھی کھجناور ہے۔ حضرت شاہ صاحب کے والد ماجد حضرت شاہ ابو احمد صاحب حضرت امام اہل سنت کے شیخ تھے اور خود حضرت شاہ صاحب میری والدہ ودیگر متعدد اہل خاندان کے شیخ تھے، اس طرح آپ تو میرے شیخ کی بستی کے میرے "قابل احترام بزرگ" نکلے ۔ ماشاءاللہ* ۔

لیکن ڈاکٹر صاحب سے یہ سارا تعارف اب تک غائبانہ ہی تھا۔ جب انہیں میری حاضری کا علم ہوا تو اسٹیج پر ہی مجھے بلوا لیا۔ علیک سلیک ہوئی۔ غائبانہ تعارف کا سرسری تذکرہ کیا اور میں نے اپنی نشست سنبھال لی۔

قاری صاحب کے بعد سامعین کی نگاہیں ایک مرتبہ پھر مولانا محبوب عالم صاحب کی طرف تھیں کہ دیکھیے کسے بلاتے ہیں؟ انہوں نے مولانا ڈاکٹر عبدالعلی فاروقی صاحب کا نام پکارا۔ ڈاکٹر صاحب مشہور علمی شخصیت ہیں۔ لکھنؤ سے تعلق رکھتے ہیں۔ امامِ اہلِ سنت مولانا عبدالشکور فاروقی لکھنویؒ کے حفید اور مولانا عبدالعلیم فاروقی صاحب کے چچا زاد بھائی ہیں۔ زبان و ادب پر قاہرانہ دستگاه ہے۔ لکھتے ہیں تو قارئین کو باندھ کر رکھ دیتے ہیں۔ دہائیوں سے کاکوری سے ماہ نامہ *البدر* نکالتے ہیں۔ حالاتِ حاضرہ پر عقابی نگاہ ہے۔ ملک کے نامور انشا پردازوں میں ان کا نام آتا ہے۔ کئی بہترین کتابیں ان کے قلم سے آ چکیں۔ ان کی تصنیف *یادوں کے جھروکوں سے* بڑی آب دار ہے۔ ابھی تک تو میں نے ان کی تحریروں سے حظ اٹھایا تھا، آج تقریر کی باری تھی۔ وہ آئے، دیکھا اور فتح کر لیا۔ پوری تقریر فضیلتِ صحابہؓ پر تھی۔ سارا استدلال قرآن سے۔ کہنے لگے: *میں کچی باتیں نہیں کرتا۔ اگر میں حدیثیں لاؤں گا تو تم ضعیف کہہ کر میرے موقف کو ضعیف کر دو گے* ۔ دشمنانِ معاویہؓ کے خلاف تیغِ بُرّاں۔ صحابہ بیزاروں کے لیے آہنی تیور۔ آہنگ کا زیر و بم بے مثال تھا۔ الفاظ اور تعبیرات جواب ندارد۔ خالص لکھنوی زبان اور اودھی لہجہ۔ چاشنی اور حلاوت سے بھرپور۔ ایک گھنٹہ تک ان کا بیان چلا۔ ان کے بعد ایک بجنور سے تشریف لائے مقرر نے مختصر خطاب کیا اور انہیں کی دعا پر دو روزہ اجلاس کا پہلا حصہ اختتام کو پہونچا۔

*مفتی یاسر مبارک پوری زید مجدہم سے رابطہ*
...............................................
میں جب ٹرین میں تھا تو پاسبان میں سرائے میر کے سفر کی اطلاع دے دی تھی۔ اس گروپ کے ایک مؤقر رکن مفتی یاسر صاحب زید مجدہم نے مبارک پور آنے کی پر خلوص دعوت دی۔ میرے ذہن میں اب تک فقط سرائے میر تھا، مگر مفتی صاحب کی اس فرمائش کے بعد دل میں اک ہوک سی اٹھی کہ کیوں نہ اپنے ارادے میں توسیع کر لی جائے۔ ادھر میرے کرم فرما صدیقِ مکرم مولانا ضیاء الحق خیر آبادی زید مجدہم کا فون بھی آ گیا تھا کہ اگر مبارک پور آمد ہو تو ٹھیک، ورنہ میں ہی سرائے میر آ جاتا ہوں۔ آپ اپنا فیصلہ ضرور سنائیں۔ میرے ذہن میں آیا کہ مبارک پور جانے میں فائدہ یہ ہے کہ نئے نئے مقامات کھلیں گے۔ مولانا خیر آبادی کے سرائے میر آنے میں میرا فائدہ زیادہ نہیں تھا، اس لیے طے کیا کہ مبارک پور ہی جایا جائے۔ جلسہ ختم ہوا تو رات کا ایک بج رہا تھا۔ میں نے مفتی صاحب کو کال کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ واٹس ایپ پر پیغام یہ سوچ کر بھیج دیا کہ جب موقع ملے گا مفتی صاحب دیکھ لیں گے۔ میرے پیغام کا متن یہ تھا:

*السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ*
 *کل صبح چھ سات بجے سے دو پہر دو ڈھائی بجے تک میں اپنا وقت خالی رکھوں گا۔ میری خواہش ہے کہ آپ کے احیاء العلوم کے ساتھ، اشرفیہ مبارک پور بھی دیکھوں* ۔ *دارالمصنفین کی سرسری زیارت کی بھی خواہش ہے، اس لیے درخواست ہے کہ ایسا نظام مرتب فرمائیں کہ ان مقاماتِ ثلاثہ کی زیارت بآسانی ہو سکے* ۔

حسنِ اتفاق کہ مفتی صاحب آن لائن تھے۔ پیغام فوراً پڑھ لیا اور فوری جواب سے بھی نوازا۔ ان کے جواب کا متن یہ تھا: 

*آپ کے آنے کی دو صورت ہوسکتی ہے: ایک صورت یہ کہ میں سرائے میر گاڑی بھیج دوں اور آپ مبارکپور آجائیں۔ دوسری صورت یہ کہ سرائے میر سے صبح چھ بجے ٹرین پکڑ کر سٹھیاؤں آجائیں، سٹھیاؤں مبارکپور سے بس پانچ کلو میٹر ہے۔ سات سوا سات بجے آپ سٹھیاؤں پہنچ جائیں گے ان شاء اللہ، وہاں سے خیرآباد بس چھ کلومیٹر ہے۔ میں سیدھے حاجی بابو کے یہاں لے چلوں، ان کے یہاں ناشتہ کریں اور وہیں سے دارالمصنفین کے لئے بائی کار نکل لیں گے، آدھے گھنٹے میں ہم دارالمصنفین ہوں گے،اس کے بعد مبارکپور واپس آئیں، احیاء العلوم مبارکپور آجائیں اور وہاں سے اشرفیہ دیکھ لیں، پھر واپس آکر جمعہ کی تیاری کریں، جمعہ سے قبل جامع مسجد میں آپ کا بیان ہوجائے، جمعہ بعد کھانا کھالیا جائے،اس کے بعد آپ جیسا فرمائیں اسی کے مطابق پروگرام بن جائےگا* ۔

میں نے لکھا کہ نظام ایسا ہو کہ میں جمعہ بیت العلوم میں پڑھوں، اور اگر وقت کی قلت مانع ہو تو دارالمصنفین کے پروگرام کو حذف کر دیا جائے۔ انہوں نے تائید کر دی۔

*[اگلی قسط میں پڑھیں: مبارک پور کو روانگی]