Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, November 7, 2019

بحر العلوم مولانا غلام نبی کشمیری کی رحلت پوری علمی دنیا کے لٸے عظیم خسارہ !!!



*(شخصیت کے بنیادی خدوخال)*

از🖋: *عبد المنان قاسمی*/صداٸے وقت /عاصم طاہر اعظمی۔
     ============================
*حرف ہائے گفتنی*:
اس عالم رنگ وبو اور چمنستان گل ولالہ میں صبح ازل سے نہ جانے کتنی کلیاں کھلیں، کتنی کونپلیں نکلیں، کتنے  رنگ بہ رنگ کے پھول کھلے، اپنی متنوع خوش بو بکھیرے اور دنیا کو اپنی سحر آفرینیوں سے مسحور کرکے تازہ دم کردیا، اور پھر اپنی رعنائیاں اور شادابیاں نچھاور کرتے ہوے حیات مستعار کے لمحات عزیزہ کی تکمیلپر ایک دن مرجھا کر اپنی خوش بو سمیٹتے ہوے ملک عدم کے راہی ہوے؛ لیکن ان میں کچھ وہ پھول بھی ہوتے ہیں، جن کی خوش بو دیرپا اور ناقابل انفکاک ہوتی ہے، اور وہ چمن میں نہ ہوتے ہوے بھی اپنے وجود کا احساس دلاتے رہتے ہیں، جو اپنی یکتائیت وانفرادیت اور اپنی خلّابیت وجاذبیت کی بنا پر گلستاں کے دیگر پھولوں کی طرح مرجھاکر بے نام ونشان نہیں ہوجاتے؛ بلکہ بظاہر مرجھاکر ان میں ایسی رعنائی وشادابی آجاتی ہے کہ ہمیشہ ہمیش کے لیے بہ باطن تازہ دم ہوجاتے ہیں، اور ایک لازوال اور کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی کے حق دار ہوجاتے ہیں۔

یہ جس گلشن کی بات کی جارہی ہے،یہ چمنستانِ انسانی ہے، جس میں ہر روز نئے نئے پودے لگائے جاتے ہیں، جس میں نئی نئی کلیاں کھلتی ہیں، اور حدیث شریف میں بھی اس تشبیہ کا تذکرہ موجود ہے، کہ حضرت لولاک علیہ افضل الصلوات والتسلیمات نے اپنی زبان گوہر بار سے ارشاد فرمایا کہ: ’’اللہ تعالی اس دین میں ایسے پودے لگاتے رہتے ہیں، جس کو اپنی طاعت میں استعمال کرتے ہیں‘‘۔(لایزال اللہ یغرس في ہذا الدین غرسا یستعملہم في طاعتہ (سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث:۸) جس سے یہ بات واضح ہے کہ گل ولالہ کی طرح انسان کے اندربھی خوبیاں، کمالات اور خاص طور سے خوش بو، جوکہ گل کا خاصۂ لازمہ ہے، پائی جاتی ہے، جس سے انسانی سماج میں تقرب الی اللہ کے دروازے کھلتے اور انسانیت کی فوز وفلاح اور کامیابی وکامرانی کی راہیں آسان ہوجاتی ہیں، اور یہ راہیں صرف خواص کے لیے ہی نہیں؛ بلکہ ہر کس وناکس کے لیے کھلی رہتی ہیں، جس میں کسی کو رکاوٹ اور حجاب نہیں ہوتا، بشرطے کہ وہ اصول موضوعہ اور قوانین شریعت کا متبع اور راہِ حق کا متلاشی ہو۔
 یوں تو چمنستان انسانی میں ابتدائے آفرینش ہی سے قسم قسم کے پھول کھلتے رہے ہیں، جو ہر زمانہ، ہر صدی ، ہر قرن میں اپنے اپنے حصہ کی خوش بو نچھاور کرکے پردۂ عدم میں مستور ہوگئے۔ ہمارے وطن عزیز ہندوستان میں بھی بے شمار ایسی عبقری شخصیات وجود میں آتی رہیں، جنھوں نے ریاضِ دین کو سرسبزی وشادابی عطا فرمائیں، اور تاریخ کے صفحات میں اپنا نام درج کرنے میں کامیاب رہیں۔ انھیں عظیم المرتبت ہستیوں میں بیسویں صدی کے نصف اخیر اور اکیسویں صدی کے اوائل میں ایک نمایاں، ممتاز، منفرد اور خوب رو وجاذب نظر پھول ’’حضرت اقدس مولانا غلام نبی کشمیری صاحب‘‘ (نور اللہ مرقدہ وبرد مضجعہ، استاذ حدیث دارالعلوم وقف دیوبند وشیخ الحدیث جامعہ ضیاء العلوم پونچھ، کشمیر) کے نام سے موسوم تھا، جن کی خوش بو سے گلستانِ علم حدیث کی فضا معطر تھی، جس کی ہر کیاری ہری بھری اور ہر طرف رعنائی وشادابی چھائی ہوئی تھی، تشنہ لبانِ علوم اسلامیہ اور عشاقانِ علمِ حدیث جوق در جوق اطراف ملک وبیرونِ ملک سے پروانہ وار کھنچے چلے آتے تھے، اور اپنی تشنہ لبی کی تکمیل اوراپنے اپنے دامنوں میں خوش بو سمیٹ لینے کے بعد دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل جاتے اور حرماں نصیبوں کے لیے ضیاباری وسیرابی کا ذریعہ بنتے؛ لیکن خلّاقِ عالم کے اس اٹوٹ نظام کا کیا کریں! کہ ایک دن ہر پھول کے مقدر میں مرجھانا طے ہے۔ اللہ جل جلالہ وعمَّ نوالہ کا یہ لازوال قانون اور غیر منقطع اعلان ہے:
     ’’کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَـــــۃُ الْــمَـــوْتِ‘‘،(العنکبوت: ۵۷)
’’ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے‘‘۔

*جسم تو جسم ہے، ایک دن خاک میں مل جاتا ہے*
*تم بہ ہرحال! کتابوں میں پڑھوگے اِن کو*

 یوں تو تاریخ موت وزیست سے منسلک ہونے والے افراد کی فہرست میں روز مرہ اضافہ ہوتا رہتا ہے، اور اس میں شمولیت اختیار کرنے والے شہر خموشاں کے باشندے کہلاتے ہیں؛ لیکن کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں، کہ مرکر بھی زندہ جاوید رہتی ہیں اور کبھی فنا نہیں ہوتیں۔

*مدت کے بعد ہوتے ہیں، پیدا کہیں وہ لوگ*
*مٹتے نہیں ہیں دہر سے، جن کے نشاں کبھی*

اسی کو سلطنت مغلیہ کے آخری چشم وچراغ شہنشاہ بہادر شاہ ظفر رحمہ اللہ نے اپنے الفاظ میں کچھ اس طرح بیان فرمایا ہے: شعر:
*کوئی کیوں کسی سے لگائے دل، کوئی کیوں کسی کا لبھائے دل*
*وہ جو بیچتے تھے دوائے دل، دکان اپنی بڑھا گئے*

انہیں عباقرۂ زمان اور جہابذۂ علوم وفنون ہستیوں میں استاد الاساتذہ، محدث جلیل، فقیہ النفس، جوہر نایاب حضرت العلام، بحر العلوم حضرت اقدس مولانا غلام نبی کشمیریؒ کا نام بھی شامل ہوچکا ہے۔ ۹؍ ربیع الاول ۱۴۴۱ھ- ۷؍ نومبر ۲۰۱۹ء؍ بروز جمعرات بوقت صبح 6؍بجے اس تنگ وتاریک دنیا اور محدود وفانی زندگی کو خیر باد کہتے ہوے ایک وسیع وعریض عالم اور لامحدود وغیر فانی زندگی کی طرف کوچ کر گئے اور اپنی جان، جان آفریں کی سپرد کردی۔ (إنا للہ و إنا الیہ راجعون)
*داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی*
*اک شمع رہ گئی تھی، سو وہ بھی خموش ہے*
 جن کو کل تک طول حیات اور درازیٔ عمر اور طول حیات کی دعائیں دی جاتی تھیں، آج ان کو مرحوم ومغفور اور راہیٔ ملک بقا کے القاب سے یاد کیا جارہا ہے اور ان کے لیے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کیا جارہا ہے۔
*صراحی روتی اٹھی، جام اشک بار اٹھا*
*آج میکدہ سے اک اور بادہ خوار اٹھا*

 یہ شعر آپ کی عبقری شان کا ترجمان ہے:؎
*پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی*
*ستارے جس کے گرد راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے*

حضرت شیخ علیہ الرحمہ ان چنیدہ شخصیات میں سے تھے، جو دنیوی جھمیلوں سے بالکل منقطع ہوکر بارگاہ رب صمدیت میں اپنی مستجاب خدمات کا صلہ پانے کا اشتیاق رکھتے تھے۔ ؎
*ایک سورج تھا، جو تاروں کے گھرانے سے اٹھا*
*آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا*

*سردئ مرقد سے بھی افسردہ ہوسکتا نہیں*
*خاک میں دب کر بھی اپنا سوز کھو سکتا نہیں*

*خصوصیات وامتیازات:*
بحرالعلوم حضرت مولانا غلام نبی کشمیری صاحب نور اللہ مرقدہ کا نام نامی اسم گرامی زبان پر آتے ہی دل ودما غ پر علم وعمل، فضل وکمال، حکمت ومعرفت، فہم وفراست، استقامت والو العزمی، لطافت ونفاست، طہارت وپاکیزگی، فنائیت وخود داری اورجسم وجاں کا ایک گلشن ِصد رنگ اور قلب وروح کی ایک نفیس و لطیف اور حسین ودل ربا فردوس بریں، معصومیت کے پیکر میں جلوہ گر ایک دیدہ زیب اور جاذب نظر تصویر ابھر آتی ہے۔ آپ حدیث نبوی کے عظیم شارح، بیان وخطابت کے شیشے میں شراب طہور، الفاظ کو خاتم کلام پر نگینہ بنا کر جڑ دینے کا ہنر مند، اپنے وقت کے رازی وغزالی، فخر ِ روزگا ر علما ء و صلحا ء کی یا د گار، سلف ِصا لحین وبزرگان دین کا تذکا رِ جلیل اور نقش جمیل تھے۔
بحرالعلوم حضرت مولانا غلام نبی کشمیری صاحب نور اللہ مرقدہ کی شخصیت ایک شفاف ابلتے ہوئے چشمے کی مانند تھی، جس سے کتنی شفاف نہریںنکل کر سینکڑوں کشت زاروں اور چمنستانوں کی سرسبزی وشادابی اور شبابی ورعنائی کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں، جو ظاہری وضع داری میں ’’اَلْمُؤْمِنُ غِرٌّ کَرِیْمٌ‘‘ کے پیکر جمیل، ’’أَھْلُ الْجَنَّۃِ ٌ بُلْہٌٌ‘‘ کی دل کش تصویر، معصو میت اور سادگی کی واضح تفسیر، رہن سہن، نشست وبرخاست، معاملات، اور طرز زندگی ’’مَا أَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ‘‘ کی حسین تعبیر۔
*اسی کش مکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں*
*کبھی سوز وسازِ رومی، کبھی پیچ وتاب رازی*

بحرالعلوم حضرت مولانا غلام نبی کشمیری صاحب رحمہ اللہ کی عبقری شخصیت کے خد وخال، آپ کے کمالات واکتشافات، تحقیقات وتشریحات، توضیحات وتنقیحات، اختصاصات وامتیازات اور خدمات وکارنامے بہت ہی نمایاں، ممتاز اور منفرد ہیں، بہت ہی کم ایسی شخصیات پردۂ عدم سے وجود میں آتی ہیں، جن کو اس نوعیت کی خدمات کاموقع میسر آئے، جواپنی شناخت اور چھاپ چھوڑ جائیں۔
*بشر میں عکس موجودات عالم ہم نے دیکھا ہے*
*وہ دریا ہے، یہ قطرہ؛ لیکن اس قطرے میں دریاہے*

*اوصاف وکمالات اور خوبیاں*:
حضرت بحرالعلوم علیہ الرحمہ کی مثالی زندگی میں خوبیاں وکمالات، خصوصیات وامتیازات اور خصائل حمیدہ واوصاف جمیلہ جلوہ گر تھے، جن میں سے کچھ اخلاقی خوبیاں ہیں، کچھ اسلامی شمائل ، صورت کے حسن وزیبائی سے زیادہ انھیں کمالات کا اجتماع انسان کی زندگی میں مطلوب ومقصود ہے۔بار گاہِ خداوندی سے جس کو یہ دولت نصیب ہوگئی، وہ دین ودنیا میں کامیاب زندگی اور مثالی حیات کا مالک ہے۔ حضرت بحرالعلوم علیہ الرحمہ کو یہ خوبیاں حاصل تھیں، یہی وجہ ہے کہ دنیا کی چمک دمک اور اس کے آسائشوں پر بالکل بھی آپ کی نظر نہ تھی، آپ کا لباس نہایت ہی سادہ ہوتا تھا، جس میں عالمانہ وفاضلانہ آن، زاہدانہ ودرویشانہ بان اور شاہانہ وخسروانہ شان کی عجیب وغریب آمیزش وامتزاج تھا۔آپ ٹھاٹ باٹ سے رہنے کے بالکل بھی عادی نہ تھے۔ حضرت بحرالعلوم رحمہ اللہ ایک سلیم الفطرت اور سلجھی ہوئی طبیعت کے مالک تھے، تصنع وبناوٹ اور تملق سے کوسوں دور تھے۔ طلبہ کے درمیان مقبول اور اساتذہ کے درمیان بڑے محبوب تھے۔
حضرت بحرالعلوم رحمہ اللہ کی زندگی کی سب سے بڑی خوبی اور سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی مسند درس وتدریس کی زینت بنے رہے ، اس پوری طویل مدت حیات مستعار میں مانسون بارش کی طرح بلا کسی انقطاع اور ٹھہرائو کے برستے رہے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ کتنی کھیتیاں سیراب ہوئیں ، کتنے پژمردہ قلوب کھل اٹھے، کتنے ناشناسانِ منزل کو نشانِ منزل ملا، کتنے بھٹکے ہوئے آہو کو انہوں نے سوئے حرم کیا، علوم وفنون کے کتنے الجھے ہوئے گتھیوں کو انہوں نے سلجھایا اور سنوارا، کتنے مشکل اور پیچیدہ مسائل حل کیے، اور دلوں کی کتنی تختیوں پر علوم ومعارف کے جاوداں نقوش ثبت کیے۔ ہند وبیرون ہند میں ان کے شاگردوں کی ایک طویل قطار، لمبی فہرست اور بڑی تعداد ہے، جو درس وتدریس، تصنیف وتالیف، خطابت وتقریر اور دعوت وتبلیغ کے میدانوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ان کی زندگی بے شمار خوبیوں سے آراستہ جامع الاوصاف والکمالات تھی، وہ ان خضر صفت بزرگوں کے وارث تھے، جو شور وشغب کی زندگی سے گریزاں ہوکر نہایت خلوص وللہیت اورنیک نامی کے ساتھ دین ومذہب کی نشر وحفاظت کا حسین امتزاج پیش کرتے ہیں، انہیں اپنے سلف سے اخفائے حال کا دستور ودیعت ہوا تھا، اسی لیے شہرت وناموری سے انہیں بیر تھا، خوش اخلاقی، تواضع وانکساری اور شفقت علی الخلق ان کے جبلی اوصاف تھے، کسر نفسی، عجز ومسکنت اور خاکساری ان کی ادا ادا سے جھلکتی تھی، ان کی خاموش مزاجی، ان کا پختہ طرز عمل ان کی زندگی کا تحفۂ گراں مایہ تھا۔ وہ بزرگوں کی رویات کے امین، ان کے افکار، طریق زندگی اور طرز عمل کے نمائندہ تھے، وہ ان برگزیدہ شخصیات کی یادگار تھے، جن کے کردار وعمل کے پاکیزہ نقوش گہرے بھی ہیں اور دیرپا بھی۔ جن کا نام اور جن کے کام کی خوشبو مشام جاں کو معطر کرتی ہے۔

*درس وتدریس:*
یہ ایک بدیہی، ظاہری، واضح اور واشگاف بات ہے اور کسی بھی صاحبِ دانش وبینش اور عقل وخرد رکھنے والے -خاص طور سے وہ حضرات جو میدانِ تعلیم وتدریس کے شہسوار ہیں- سے یہ بات ممکن نہیں کہ وہ اس حقیقت سے ناواقف ہوں؛ بل کہ بہ صد تشکر وامتنان اس کا اقرار کریںگے کہ درس وتدریس اور تعلیم ایک ایسا ثمر آور، سعادت کیش، فلاح وبہبود اور ظفریاب ومبارک عمل ہے، جس سے انسانیت سازی، مردم گری، عقلی تعمیر وترقی، دماغی ارتقاء وبلندی، ذہنی وسعت وسرفرازی عمل میں آتی ہے۔  درس وتدریس ہی وہ خزانۂ عامرہ ہے، جس سے قلب ونگاہ، نظر وفکر اور ذہن ودماغ کے دریچے کھلتے ہیں۔ تعلیم وتدریس وہ خوش ذائقہ پھل، شیریں ذائقہ چشمۂ صافی اور میٹھی نہر سلسبیل اور سدا آباد وشاداب اور دائمی تسلسل کے ساتھ بہنے والا دریا ہے، جس کا پانی کبھی خشک نہیں ہوتا، نہ کبھی اس میں ٹھہرائو ہوتا ہے، درس وتدریس ہی وہ گلشن صد رنگ اور چمن ولالہ زار ہے، جس میں مختلف قسم کے انسانی پھول کھلتے، نکھرتے، خوش بو بکھیرتے ہیں، کلیاں مسکراتی ہیں، بلبل نوا سنج فرحت وانبساط، خوشی ومسرت، شادمانی وشادکامی اور ابتہاج وسرورکے زمزمے گاتا اور خوش بختی وسعادت مندی، ظفریابی وفلاح یابی کے ترانے گنگناتا ہے، اور علم وعمل کا مالی وباغ باں ان کی جڑوں میں اپنی عقل وخرد اور دانائی سمجھ داری کی شرابِ محبت سے ایسی سِچائی کرتا ہے، کہ اس میں رعنائی وزیبائی، شائستگی وسلیقگی، شگفتگی وشیفتگی،شادابی وشاد کامی کے پھول پھلنے اور پھولنے لگتے ہیں، ہر طرف ہریالی ہی ہرلیالی اور سرسبزی وخوش نمائی ہی نظر آتی ہے۔
*خرد نے مجھے عطا کی نظر حکیمانہ*
حاصل کلام اور خلاصۂ تحریر ایں کہ اسی خوش نما، جاذب نظر، دل فریب ودل ربا چمنستانِ انسانی اور پر بہا ر وپر رونق باغ میںایک ملکوتی صفات کی حامل شخصیت بحرالعلوم حضرت مولانا غلام نبی کشمیری صاحب نور اللہ مرقدہ کی ذات اقدس بھی تھی، جس نے ایک لمبے عرصے اور طویل مدت تک ہزاروں تشنہ لبانِ علوم حدیث کو سیراب کیا، اور فقہ واصول فقہ، کلام، فلسفہ، منطق اور دیگر فنون لطیفہ  کا مے کشان وبادہ لبان کو شراب طہورپلاکر ان کے افکار وخیالات، جذبات واحساسات، قلب وجگر اور دل ودماغ کو بالیدگی عطا کیا۔

*صاحبِ فضل وکمال مدرس اور تدریسی خصوصیات وامتیازات*:
آپ سے براہِ راست اکتساب فیض کرنے والوں میں خود خاکسار، راقم الحروف بھی کا نام بھی شامل ہے، ہفتم عربی میں ’’شرح عقائد، دورۂ حدیث شریف میں ’’ترمذی شریف‘‘ اور حجۃ الاسلام اکیڈمی میں ’’اسلام اور لبرل ازم‘‘ محاضرہ سے مستفید ہونے کا شرف حاصل ہے۔ آپ کا درس ایسا پرکشش، معلومات افزا، انوکھا اور نرالہ، کہ ترسیلی لیاقت سے معمور، بات دل میں اتار دینے کی صلاحیت بھرپور، گھول کر پلادینے کا ہنر، توسط واعتدال، (اور خصوصاً درس حدیث میں) تطبیق بین الاحادیث، اور حدیث کے متعلق اس یقین کی آبیاری کے وہ تعلیمات اسلامی کا سرچشمہ اور پیش خیمہ ہے، قرآن کریم کی جامع شرح وتشریح ہے، اور ان سب کے ساتھ یہ کہ اسلام کی حقیقی روح کی نقاب کشائی اور اس کو اپنے واقعی پس منظر میں جلوہ طراز کرنے کی کاوش، اور قلب ودماغ میں راسخ کر دینے کا ملکہ حاصل تھا۔ دورانِ درس فضول گوئی اور بے جا کلامی اور زائد بات سے اجتناب فرماتے تھے، علمی وفکر ی تحقیقات وتشریحات، تنقیحات وتوضیحات سے لبریز، محدثین، فقہاء، سلف صالحین اور تذکار روزگار شخصیات کا حوالہ، احادیث سے استنباط واستخراج، مختلف فیہ روایتوں میں تطبیق وتائید اور ترجیح، اسمائے رجال اور رواۃ پر محققانہ، مبصرانہ، منصفانہ وعارفانہ اور سیر حاصل گفتگو، الغرض! اآپ کا درس کیا! وہ زندگی کے پرپیچ وپرخار وادیوں کے مشعل راہ اور زندگی کے ہر ہر موڑ کے لیے ایک پیغام دل نواز تھا!
*أولئک آبائي فجئني بمثلہم*
*اذا جمعتنا یا جریر! المجامع*
بغیر مطالعہ کے سبق پڑھاناآپ کو کبھی گوارہ ہی نہیں تھا۔ اللہ تعالی نے بلاکی ذہانت وذکاوت اور فہم وفراست عطا فرمائی تھی، عجیب وغریب انداز تفہیم، مشکل ترین مضامین کو آسان الفاظ میں سمجھا دینے کا ہنر، کہ گویا اس میں کچھ خفا اور پوشیدگی ہے ہی نہیں۔ سہل اور آسان الفاظ، دلکش اور خوش نما انداز، سلیس اور دل نشیں تعبیریں، قلب ونظر اور فکر ودماغ کو تازگی وتابندگی بخشنے والے اشارے، اور موقع کے لحاظ سے علمی ظرافتیں اور فکر وخیال کو وسعت وبلندی عطا کرنے والی مثالیں اور نمایاں ومنفرد اسلوب تکلم، آپ کی تدریس کے ممتاز اور نمایاں اوصاف تھے۔
آپ کے درس کی خصوصیات وامتیازات اور خوبیوں میں سے ایک خاص خوبی یہ بھی تھی کہ آپ کی باتیں حشو وزوائد سے بالکل پاک اور معلومات سے لبریز ہوتیں، بے جا کلامی سے آپ کی طبیعت کو کامل نفور تھا، جچے تلے الفاظ، مناسب تعبیر، خوبصورت ودل نشیں انداز، انتہائی پرسکون لب ولہجہ اور اسلوب؛ آپ کے درس کے کچھ اہم خصائص تھے۔ اختلافی مسائل میں وہ راہِ اعتدال کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے، احترامِ سلف کے وہ بہت پابند تھے، اوراس کی بہت زیادہ تاکید وتلقین فرمایا کرتے تھے۔
الغرض! آپ کے جامع درس حدیث سے طالب علم ہر علم وفن کا مذاق لے کر اٹھتا اور اس میں یہ صلاحیت واستعداد اور لیاقت پیدا ہوجاتی کہ وہ بہ ضمن کلام خدا، ورسول ہر فن میں محققانہ ومبصرانہ انداز واسلوب میں گفتگو کرسکے۔ یہ در حقیقت آپ کے درس کا انقلابی پہلو تھا، جسے دیکھ کر اکابر علماء بھی رشک کرتے تھے۔
*عشق دم جبرئیل، عشق دل مصطفی*
*خلاصۂ کلام:*
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حضرت بحرالعلوم رحمہ اللہ ایک جامع ترین اور کامل ترین شخصیت کے مالک تھے، جن کی ذات اوصاف جمیلہ وخصائل حمیدہ کا مجمع تھی، علم وعمل، فضل وکمال، زہد ورع، جود وسخا، صبر واستغنا اور استقامت وپامردی کا عکس جمیل اور حسین مرقع تھی۔ اور ان کی وفات کے ساتھ ، علم وفن، حکمت وظرافت، فہم وفراست، اصابت رائے، سلامتیٔ فکر، صبر وقناعت، زہد واستغناء، تقوی وپاک دامنی، غریب پروری ومہمان نوازی، عالی حوصلگی وبلند ہمتی، خوش گفتاری ونرم خوئی، شفقت ومحبت، احساس ذمہ داری، رسوخ فی العلم اور تصلب فی الدین، نیز مکارم اخلاق، فاضلانہ کردار اور بہت سی خوبیوں کا ایک حسین امتزاج اور پیکر جمیل؛ بل کہ ایک نیر تاباں اور آسمان علم کا خورشید جہاں تاب اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگیا۔
*سمٹا تو بنا پھولوں کے خوش رنگ قبا میں*
*بکھرا ہوں تو خوش بو کی طرح پھیل گیا ہوں*
آج جب کہ آپ ہم تمام طلبہ ومتعلقین کو روتا، بلکتا، سسکتا چھوڑ کر، راہئ ملکِ عدم ہوگئے، تو ماضی کی بہت سی یادیں تازہ ہوگئیں۔
اللہ تعالی آپ کو آخرت کا ساری راحتیں نصیب فرمائے اور فردوس بریں میں مقام کریم سے نوازے۔ آمین یارب العالمین!
*حیات انساں ہے شمع صورت، ابھی ہے روشن ابھی افسردہ*
*نہ جانے کتنے چراغ یوں ہی جلاکریں گے، بجھا کریں گے*
abdulmannan8755@gmail.com