Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, November 25, 2019

این آر سی کا تشویشناک پہلو۔۔۔۔!!!/

از/سمیع اللہ خان/صداٸے وقت.
==============================
وقت کے  ابوجہل اور ابولہب نے بھارت کے مسلمانوں کو ان کے دین سے منحرف کرنے کی خاطر طرح طرح کے ہتھکنڈے اختیار کیے ہیں، گھر واپسی، لو جہاد، گئو رکشا، تاریخ سازی بائیکاٹ مُسلم اور ماب لنچنگ جیسے نفرت انگیز جرائم اسی کا حصہ ہیں اور اب اسی میں NRC نامی ایک دھاندلی کا اضافہ ہونے جارہاہے 
 اب تک تو یہ تھا کہ این آر سی یعنی ملکی شہریت کا شناخت نامہ سب کے پاس ہوناچاہئے اور بلاتفریق یہ این آر سی کا عمل تمام باشندگانِ ہند کے ساتھ کیا جائےگا 
 لیکن ملک کے وزیرداخلہ امیت شاہ نے پہلے تو کلکتہ میں کھلم کھلا یہ اعلان کیا کہ مسلمانوں کے علاوہ جتنے بھی مذاہب کے لوگ این آر سی کی فہرست سے باہر ہوں گے ہم ان تمام غیرمسلموں کے لیے الگ سے قانون لاکر ان کو ہندوستانی شہریت دینگے .
 اور اب پارلیمنٹ میں ایکطرف تو وزیرداخلہ امت شاہ پورے ملک میں NRC نافذ کرنے کے لیے قانون سازی کی کوشش کررہےہیں وہیں دوسری طرف وہ نہایت چالاکی سے CAB یعنی شہریت ترمیمی بِل کے ذریعے مسلمانوں کو چھوڑ کر،  ہندو، بودھ، جین، سکھ اور عیسائی مذاہب کے افراد کو NRC کی زد سے بچانے کی کوششیں کررہے ہیں 
اگر CAB قانون آجاتاہے تو پھر این آر سی کا عمل مسلمانوں کے علاوہ کس کے ساتھ ہوگا؟ 
پورے ملک میں این آر سی کا نفاذ سیدھے سیدھے مسلمانوں کے خلاف ہوگا 
جن لوگوں نے یہ مطالبہ یا تجویز پیش کی تھی کہ این آر سی صرف آسام ہی میں کیوں پورے ملک میں نافذ کی جائے، اب انہیں NRC کے حالیہ منظرنامے  کی روشنی میں اپنے بیانات کا جائزہ لینا چاہیے 
 کیونکہ جَن سنگھی حکومت نے کمال عیاری سے آسامی این آر سی کے عمل سے پہلے تو یہ فضا بنائی کہ NRC کی زد میں غير مسلم بھی ہے، اور اس فضا سازی سے متاثر ہوکر بہت سے مسلم لیڈروں نے نیشنل میڈیا میں NRC کے حق میں بیان بازی کرڈالی، اس بیان بازی کے بعد امت شاہ نے غیرمسلموں کو این آر سی سے بچانے کے لیے CAB کا انتظام کرلیا اور مسلمان *آ NRC مجھے مار* والی بےبس کیفیت سے دوچار ہوگیاہے ، پورے منظرنامے پر غور کیجیے تو یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ آسام کی NRC ایک جال تھا_
اب این آر سی کی موجودہ صورتحال پر غور کیجیے اور اسے جن سَنگھی تکنیک کے زاویے سے سمجھیے 
 اب جو این آر سی ہونے جارہی ہے اس کا Concept Clear ہے 
 مطالبہ کیاگیا کہ پورے ملک میں NRC لاؤ 
حکم ہوا ہے کہ پورے ملک میں این آر سی کا عمل ہوگا 
 جمّن مسلمانوں نے خوش ہوکر تالیاں بجائیں کہ ہندو مسلم، سکھ عیسائی سب کے سب این آر سی کے شکار ہونے والے ہیں، ٹینشن کی کوئی بات نہیں، 
 پھر اعلان کردیاگیا کہ جو مسلمان نہیں ہوگا وہ این آر سی کی زد میں آ بھی جائے تو اس کو بچانے کے لیے ایک الگ سے قانون لایا جاتاہے 
 یعنی NRC مسلمانوں پر پھینکا جانے والا ایک ایسا جال ہے جو کبھی کفار و مشرکین نے مسلمانوں کو اپنے دین سے منحرف کرنے کےلیے جلاوطنی کی دھمکی کے طورپر کیا تھا، اگر تم کو یہاں رہناہے تو مکہ کے یہ چند قبائل میں سے کسی کے بھی بُت کی پوجا کرنے لگ جاو، سیٹیزن شپ / Citizenship دے دی جائےگی، ورنہ تمہارا بائیکاٹ کردیا جائےگا 
بالکل اسی طرح اب منظرنامہ واضح کردیاگیا ہے کہ 
اگر تمہیں ہندوستان میں رہناہے تو مسلمان کے علاوہ کسی بھی مذہب کو اختیار کرلو، ورنہ اين آر سی کا عمل کروائیں گے. 
یہ NRC آر ایس ایس کے گھر واپسی والے منصوبے کا ہی ایک بڑا حملہ ہے 
یہ جبراً تبدیلئ مذہب کی سازش ہے جسے قانونی لباس عطاء کیاگیاہے 
اس کے ذریعے غریب مسلمانوں پر ارتدادی ڈورے ڈالے جائیں گے، اور ظاہر ہے کہ جب عام اور مزدور مسلمانوں کو یہ کہا جائے گا کہ بھئی بھارت میں رہناہے تو این آر سی لاؤ، اور پھر گراؤنڈ کی سنگھی ٹیم یہ پروپیگنڈا کرے گی کہ مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب اس این آر سی سے محفوظ ہیں، تو بھلا بتلائیے کہ عام مسلمان کی نفسیات پر کیسے اثرات مرتب ہوں گے؟
*یہ واضح ہوجانے کے بعد اب ہراس اور خوف والی نفسیات میں مبتلاء ہونے کی ضرورت نہيں ہے بلکہ ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلینج یہ ہیکہ اس ایمان سوز جال سے گاؤں، دیہات اور دور دراز کے جنگلات اور پہاڑیوں میں آباد کروڑوں غریب مسلمانوں کو کیسے بچائیں_؟*
موجودہ سچویشن میں ہمیں یقینًا ترجیحی طورپر غیرمسلموں تک اسلام کی دعوت لےکر پہنچنا ہے
لیکن قومی صورتحال کو بھی ہرگز نظرانداز نہیں کرسکتے 
  این آر سی کے اس تشویشناک موڑ پر یہ سوال اس لیے پیدا ہوگیاہے کہ موجودہ بھارت کے مسلمانوں کی تمام تر لیڈرشپ اپنی قوم سے مربوط نہیں ہے، ان کے پاس تربیت یافتہ رجالِ کار اور ایکٹو منظم کیڈر کا فقدان ہے، ان کے جلسوں کی بھاگ دوڑ مدرسوں، جامعات اور مشہور شہروں کے مشہور میدانوں تک ہیں، ایسے میں یہ تشویشناک پہلو فکرمندی میں اضافہ کردیتاہے، اس تشنہ پہلو پر مسلمانوں کو جنگی پیمانے پر کام کرنا ہوگا اور بھارت کے ایک ایک مسلمان کو اپنے مرکزی رابطے کی زنجیر سے مضبوط کرنا ہوگا 
 این آر سی کا اب ایک ہی حل ہےکہ مجموعی طورپر اس " کالے قانون " کا بائیکاٹ کیا جائے، اس فیصلے کو پوری قوت کے ساتھ قوم کے ہر ہر فرد تک پہنچانا لازمی ہے_

*سمیع اللّٰہ خان*
جنرل سیکرٹری: کاروانِ امن و انصاف 
۲۵ نومبر، بروز پیر، ۲۰۱۹ 
ksamikhann@gmail.com