Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, November 14, 2019

بابری مسجد فیصلے پر نظر درخواست داٸر کی جاٸے اور پانچ ایکڑ زمین کی پیشکش کو مسترد کیا جاٸے ۔۔۔۔۔۔ایس ڈی پی آٸی۔



نئی دہلی۔ (پریس ریلیز)۔ صداٸے وقت۔
===============
سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) نے نئی دہلی پریس کلب آف انڈیا میں منعقد ایک پریس کانفرنس میں بابری مسجد کے حالیہ سپریم کورٹ فیصلے پر اپنے موقف کا اظہارکیا۔پریس کانفرنس میں ایس ڈی پی آئی قومی نائب صدر اڈوکیٹ شرف الدین احمد، قومی جنرل سکریٹری محمد شفیع، قومی سکریٹر یان محترمہ یاسمین فاروقی،ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی اور سیتا رام کوہیوال نے خطاب کیا۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایس ڈی پی آئی قومی نائب صدر اڈوکیٹ شرف الدین احمد نے کہا کہ بابری مسجد کیس کے فیصلے کے توقع میں میڈیا کے ذریعے متعصبانہ اقدامات اور تیاریوں نے ملک کے بہت سے حصوں میں خوف و ہراس پھیلایا گیا اور 9نومبر، بروز ہفتہ غیر متو قع طور پر فیصلہ سنایا گیا۔ خوف زدہ ماحول کئی دن تک جاری رہا کیونکہ یہ انتباہ کیا گیا تھا کہ اگر مسلمان بابری مسجد سے اپنا دعوی ترک نہیں کرتے ہیں تو ہندوستان کو شام جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ صحت مند جمہوریت اور کثیر الثقافتی کیلئے خوف ہمیشہ خطرناک ہوتا ہے۔ ان حالات میں، عام طور پر سپریم کورٹ میں جس دن چھٹی رہتی ہے اس دن یہ فیصلہ سنایا گیا۔ متعدد ماہر قانون، ججس اور دانشوروں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ایس ڈی پی آئی نے بھی ملک کے ماضی، حال اور مستقبل کو مدنظر رکھ کر بابری مسجد کے معاملے کی عوامی اہمیت کے پیش نظر غور و فکر کیا ہے اور اپنے موقف واضح کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے پانچ رکنی ججس بنچ کے ذریعے مندرجہ ذیل انکشافات کئے ہیں۔ 1)۔سن 1528میں بابری مسجد کی تعمیر کیلئے کوئی مندر مسمار نہیں کیا گیا تھا۔ 2)۔بابری مسجد کے مرکزی گنبد کے نیچے بتوں کا رکھنا ایک غیر قانونی فعل تھا، 22/23دسمبر1949کی درمیانی رات کو یہ کام کیا گیا تھا۔ 3)۔ 6دسمبر 1992کو بابری مسجد کا انہدام کیا جانا غلط اور غیر قانونی تھا۔ 4)۔ عدالت کو مذہبی عقیدے میں مداخلت نہیں کرنا چایئے۔چاہے وہ دانشتہ ہو یا غیر دانشتہ۔
 یہ حقیقت ہے کہ دسمبر 1949یا دسمبر 1992میں انجام دیئے گئے سنگین جرائم کیلئے آج تک کسی ایک فرد کو کو بھی سزا نہیں دی گئی ہے۔ معروف مجرمان اس جرم میں ان کے کردار کے تعلق سے بڑے فخر سے بیانات دیتے رہے ہیں اور انہیں اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ ان سوالات کی وضاحت کرنے کے بجائے اپنے 9نومبر 2019کو نتیجہ خیز فیصلہ دینے میں ناکام رہی ہے۔ماہر قانون، ججوں اور سابق ججوں نے فیصلے کی خود تضادات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ عدالت کے انکشافات کو فیصلے کے آپریٹیوحصے میں نہیں سمجھایا گیا ہے۔ ایک سوال یہ ہے کہ اگر بت رکھنا اور مسجد کا انہدام وغیرہ غیر قانونی تھا تو یہ کس طرح قانونی ہوسکتا ہے کہ 2.77ایکڑ متنازعہ زمین ان عناصر کو دیا گیا ہے جو اس غیر قانونی کارروائیوں میں ملوث تھے۔ یہ بھی محسوس کیا جاتاہے کہ بابری مسجد کو مسمار کرنے کے جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو مسجد اراضی پر قبضہ دیا گیا ہے جنہوں نے 1989میں ہی ایک نیا سوٹ دائر کرکے اس معاملے میں تنازعہ کی نوعیت کو تبدیل کرنے کیلئے قانونی چارہ جوئی کی تھی۔ جبکہ نرموہی اکھاڑا نے سن 1885سے بھگوان رام کی طرف سے اصل مقدمہ بازی کی تھی اس کو اس مقدمے سے بے دخل کردیا گیا ہے۔ اب یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے اثر نے 6دسمبر 1992کو بابری مسجد مسمار کرنے والے شر پسندوں کے غیر قانونی کاررائیوں پر عملی طور پر قانونی مہر لگادی گئی ہے۔ فیصلے کے بعد یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ6دسمبر 1992 کے واقعہ سے متعلق فوجداری مقدمہ جو 27 سال گذرنے کے باوجود عدالت میں ناقابل سماعت اور زیر التو ا ہے، اسے واپس لیا جائے۔ یہ خیال کیاجاتا ہے کہ موجودہ سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے تحت مجوزہ ٹرسٹ ایودھیا اور ملک میں سناتن دھرم کے حقیقی نمائندوں کے بغیر تشکیل پائے گا۔ اس بات کا نوٹس لیا جارہاہے کہ فیصلے میں اسی اسکیم کی ہدایت کی گئی ہے جیسا کہ اس سے قبل تین رکنی ثالثی کمیٹی کے ذریعے مسلم اداروں اور افراد کے ساتھ تبادلہ خیال کیا گیا تھا جو ایک مختلف نتیجہ اخذ کرنے کا بھی سبب ہے۔ ایس ڈی پی آئی اس بات سے پریشان ہے کہ کیونکہ ایک طویل عرصے سے انصاف فراہم کرنے میں کوتاہیوں کی وجہ سے قانون کی حکمرانی کو شرارتی طور پر کمزور کیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد وی ایچ پی کے صدر الوک کمار کا تبصرہ کہ یہ آغاز ہے، اختتام نہیں، اس سے ملک کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگتا ہے۔ ایس ڈی پی آئی دکھ کے ساتھ محسوس کرتی ہے کہ مقدمہ کے شواہد و حقائق پر اکثریتی نظریہ غالب ہوا ہے۔ عدالت کا یہ فیصلہ غیر مساوی شہریت کی حمایت کرتا ہے اور ان تمام عناصر کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جنہوں نے سیکولرازم، جمہورت اور آئین کے نظام کو مستقل حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ کانگریس سمیت اہم سیاسی پارٹیاں بھی موقع پر آواز اٹھانے میں ناکام رہی ہیں۔ وہ گولوالکر کی تھیوری کے اثرو رسوخ کے زد میں آگئیں ہیں کہ ہندوبرادری کے مقابلے میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتی برادریوں کو مساوی حق حاصل نہیں ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اے ایس آئی کی اہم رپورٹ جن پر تمام مجاز افسران نے دستخط کیا ہے اور انکشاف کیا ہے کہ مسجد کے نیچے کوئی مندر نہیں ملا تھا۔ اس رپورٹ کو ایک طرف رکھ کر بغیر دستخط کئے رپورٹ جس میں کہا گیا ہے کہ مسجد کے نیچے جو ڈھانچہ تھا وہ اسلامی نظر نہیں آتا اس کی بنیاد پر فیصلہ دیا گیا ہے۔ یہاں اس بات کی ذکر بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کا مقدمہ اگر مسترد ہوجاتا ہے تو انہیں ایک اراضی بھی نہیں ملنی چاہئے۔ اگر پانچ ایکڑ اراضی فراہم کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو معاوضہ دیا گیا ہے اور بغیر کسی زخم کے معاوضہ نہیں دیا جاتا ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوتوا کو خوش کرنے اور راضی کرنے کیلئے یہ فیصلہ سنایا گیا ہے۔ عدالت عظمی نے اس مسئلے میں مبہم اور پیچیدہ نکات کو ابھی باقی رکھا ہے۔عدالت نے ایودھیا میں مسجد کی تعمیر کیلئے پانچ ایکڑ زمین الاٹ کرنے کی ہدایت دی ہے اس کو رد کیا جانا چاہئے۔ ان حالات اور حقائق کی بنیاد پر بابری مسجد کیس میں مسلمانوں کی جانب سے لڑنے والے فریقوں سے ایس ڈی پی آئی اپیل کرتی ہے کہ بابری مسجد کے تنازعہ کو تاریخی حقائق کے ساتھ اور مناسب طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے نظر ثانی درخواست دائرکرنے کوترجیح دیں۔