از/ محمد نعمان مکی۔/صداٸے وقت۔/
==============================
سب نے فریش ہوکر تاشقند کی اس رہاںٔش میں آرام کیا۔ موسم سرد ہونا شروع ہوچا تھا۔ گرم کپڑے اور چمڑے کے موزوں کو باہر نکالنے کا وقت آگیا تھا۔ کمرے میں ہیٹر لگے ہوںٔے تھے۔ اور حمامات میں گرم پانی کا نظام موجود تھا۔ ابھی تک حضرت جی مولانا پیر ذوالفقار احمد صاحب نقشبندی حفظہ اللہ کی تشریف آوری نہیں ہوںٔی تھی۔ بخارا پہنچنے کے بعد حضرت کی آمد متوقع تھی۔ حضرت کے انتظار میں دل سینے کی بجائے آنکھوں میں دھڑک رہے تھے۔ شاعر کہتا ہے۔
“بجائے سینے کے آنکھوں میں دل دھڑکتا ہے،
یہ انتظار کے لمحے عجیب ہوتے ہیں”۔
اسی رہائش میں نمازیں باجماعت ہورہی تھیں۔ بندہ حضرت سید محمد طلحہ صاحب نقشبندی حفظہ اللہ کے ساتھ ان کے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا، تو ایک نوجوان آںٔے اور کہا کہ حضرت ظہر کی نماز کا وقت ہوگیا ہے۔ تو حضرت نے فرمایا کہ ہاں بھائی تیاری کرو اور مصلے بچھاؤ، جب وہ چلے گںٔے تو حضرت نے فرمایا کہ مجھے عجیب لگ رہا ہے کہ ہم یہاں بغیر اذان کے نماز ادا کررہے ہیں۔ بندہ نے عرض کیا اگر اجازت ہو تو بندہ اذان کہہ دے۔۔؟؟؟
تو حضرت نے فوراً اجازت مرحمت فرمادی۔
اذان دینا ایک ایسی سعادت ہے، جس میں الحمدللہ یہ احقر کبھی تکلف نہیں کرتا۔ جب بھی موقع مل جاںٔے ضرور حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ چاہے وہ ہوائی جہاز کے اندر کیوں نہ ہو۔
بندے نے جیسے ہی انگلیاں کانوں سے لگاکر اللہ اکبر – اللہ اکبر کی صداںٔیں بلند کیں، تو ایک دم چشم تصور میں، خلافت عباسیہ میں اسلام کے عروج سے لے کر، اس کے علمی اور ثقافتی سنہرے دور کے کربناک زوال تک کی خوفناک تصویریں کسی تیز چلتے ہوںٔے ویڈیو کی مانند آنکھوں کے سامنے سے گزرنا شروع ہوگیں۔ دل نے کہا پتہ نہیں اس ہوٹل کی ان دیواروں نے کتنے سو سال تک اللہ اکبر کی صدا سننے کو بھی ترسا ہوگا۔
“آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول،
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو”
“ان سفینوں کی تباہی میں ہے عبرت کا سبق،
جو کنارے تک پہنچ کر نذر طوفاں ہو گئ
ازبکستان کے متعلق:
جمہوریہ ازبکستان وسط ایشیا خشکی سے محصور (landlocked) ملک ہے۔ اس کی سرحدیں مغرب و شمال میں قازقستان، مشرق میں کرغزستان اور تاجکستان اور جنوب میں افغانستان اور ترکمانستان سے ملتی ہیں۔
یہ لیختینستائن کے بعد دنیا کا واحد ملک ہے جو چاروں طرف سے ایسے ممالک میں گھرا ہے جو خود بھی سمندر سے محروم ہیں۔ انگریزی میں اسے doubly landlocked country کہا جاتا ہے۔اس کا رقبہ 447,000 مربع کلو میٹر ہے جو ہسپانیہ یا کیلیفورنیا کے برابر ہے۔ یہ مشرق تا مغرب 1425 کلو میٹر اور شمال تا جنوب 930 کلو میٹر تک پھیلا ہوا ہے۔
ملک کی قومی زبان ازبک ہے جو ایک ترک زبان ہے جو ترکی اور دیگر ترک زبانوں سے ملتی جلتی ہے۔ چند ذرائع کے مطابق ملک کی کل آبادی کا تقریباً 42 فیصد تاجک النسل ہیں۔ لفظ ازبک کا مطلب
حقیقی/اصل (اوز)
رہنما(بک) ہے۔
ازبکستان کی مختصر تاریخ:
پہلی ملینیم قبل از مسیح میں ایران کے خانہ بدوشوں نے وسط ایشیا کی ندیوں پر آبپاشی کا نظام قائم کیا اور بخارا و سمرقند جیسے شہر آباد کیے۔ اپنے محل وقوع کی وجہ سے یہ علاقے بہت جلد آباد ہو گئے اور چین و یورپ کے درمیان میں آمد و رفت کا سب سے اہم راستہ بن گئے جسے بعد میں شاہراہ ریشم SILK ROAD/SILK ROUTE کے نام سے جانا گیا۔ چین و یورپ کے تجارتی راستہ ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ کافی مالدار ہو گیا۔
شاہراہ ریشم SILK ROUTE:
عہدِ قدیم (Ancient Ages) کے ان تجارتی راستوں کو مجموعی طور پر شاہراہ ریشم (انگریزی: Silk Road یا Silk route) کہا جاتا ہے جو چین کو ایشیائے کوچک اوربحیرہ روم کے ممالک سے ملاتے ہیں۔ یہ گزر گاہیں کل 8 ہزار کلو میٹر (5 ہزار میل) پر پھیلی ہوئی تھیں۔ شاہراہ ریشم کی تجارت چین، مصر، بین النہرین، فارس، بر صغیراور روم کی تہذیبوں کی ترقی کا اہم ترین عنصر تھی اور جدید دنیا کی تعمیر میں اس کا بنیادی کردار رہا ہے۔
ازبکستان میں اسلام کی آمد:
ساتویں صدی عیسوی میں ماوراء النہر کہلائے جانے والے اس علاقے میں سب سے بڑا انقلاب اس وقت آیا جب عرب قوم نے یہاں اسلام کا پرچم لہرا دیا اور یوں یہ علاقہ اسلام کے زیر آغوش آگیا۔ 8 ویں اور نویں صدی عیسوی میں یہ علاقہ خلافت عباسیہ کے زیر حکومت تھا اور یہی زمانہ تعلیم اور ثقافت کا سنہری دور مانا جاتا ہے۔
ترکوں کا داخلہ:
اس کے بعد شمال کی جانب سے ترک اس علاقہ میں داخل ہوںٔے اور نئے صوبے آباد کیے، ان میں بہت سے ایرانی نسل کے لوگ بھی تھے۔ 12ویں صدی تک کئی صوبے آباد کیے جا چکے تھے، اب باری تھی ماوراء النہر کو متحد کرنے کی، لہٰذا انہوں نے ایران اور خوارزم کے علاقے کو ملا کر ماوراء النہر کو ایک بڑے صوبے میں منتقل کر دیا جو بحیرہ ارال کے جنوب تک پھیلا ہوا تھا۔
13ویں صدی کے اوائل میں منگول کے چنگیز خان کی چنگاری یہاں بھی پہنچی اور پورے علاقہ کو تہس نہس کر دیا، مدرسے اور خانقاہوں اور کتب خانوں کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا۔ خون کی ندیاں بہادیں، اور کھوپڑیوں کی مناریں لگادیے۔ اور ایرانی بولنے والوں کو وسط ایشیا کے دوسرے علاقوں کی طرف دھکیل دیا۔
امیر تیمور کے زمانے میں ماوراء النہر نے پھر سے پھلنا پھولنا شروع کیا اور اس بار ا س کا مرکز سمرقند تھا۔ تیمور کے بعد یہ صوبہ کئی حصوں میں بٹ گیا اور 1510ء میں ازبیک کے قبائل نے وسط ایشیا پر قبضہ کر لیا۔
ازبکستان ایک بہت ہی زرخیز ملک ہے۔ ماشاء اللہ خوب پھلوں کی پیداوار ہوتی ہے۔ یہاں کے انگور، تربوز اور خربوزہ وغیرہ بہت میٹھے اور رسیلے ہیں ماشاء اللہ۔ اس کی زرخیزی اور تجارتی مالداری کو روس کی نظر لگ گئی۔ خصوصا اس کی کپاس کی کھیتی ایک اہم ذریعہ تھی جس سے یہاں خوب تجارت ہوتی تھی۔ روس نے اسی لالچ میں وسط ایشیا میں اپنی پوری فوج لگادی۔ اس وقت ازبکستان میں تین معروف ازبیک قبائل تھے۔ خانیت بخارا، خانیت خیوہ اور خانیت خوقند۔
1876ء میں روس نے تینوں خانیت پر قبضہ کر لیا اور موجودہ دور کا ازبکستان اس کی زیر حکومت آگیا اور خانیت کے اختیارات کافی حد تک محدود کر دئے گئے۔ 19ویں صدی کے دوسرے نصف میں ازبکستان کی روسی آبادی نے ترقی کی اور یہاں انڈسٹری کا آغاز ہوا۔ ازبکستان کی سیاست اور مشیعت کی روسی کاری کا دور 1930 سے 1970 تک چلا۔ اس دوران میں روس نے ہرطرح سے علاقہ کو لوٹا اور برباد کیا۔
روس کی افغانستان سے شکست:
ایک لمبے عرصے تک کمیونسٹ ان علاقوں کا خون چوستے رہے۔ اور اسلامی تشخص، تاریخ اور آثار و روایات کو مٹانے کی کوشش کرتے رہے۔ بالاخر اللہ نے ان کے مقدر میں افغانوں کے ہاتھوں ذلیل اور پسپا ہونا لکھا تھا۔ ان کی قسمت پھوٹی کہ انہوں نے افغانستان کے غیور پٹھانوں سے پنگا لیا۔ جب مقابلہ ہوا تو ان رجال اللہ نے روسیوں کے دانت کھٹے کرکے رکھ دیے۔ جب یہ لوگ افغانستان کی جنگ میں بری طرح سے شکست کھا کر واپس لوٹے تو جن ملکوں پر وہ کںٔی سال سے ناجاںٔز قبضہ کںٔے ہوںٔے تھے، ان میں بغاوت شروع ہوچکی تھی۔ روسی فوج اندر سے اتنی ٹوٹ چکی تھی کہ اس اندرونی بغاوت کو کچلنے کی پوزیشن میں بلکل نہیں تھی۔ لہذا انہوں نے ان ملکوں کو خود مختاری دے کر اپنی جان چھڑانے میں ہی عافیت سمجھی۔ چنانچہ سویت نے اپنے ناجائزقبضہ اور تسلط سے کچھ ملکوں کو آزادی دیدی۔ ان میں اکثریت ممالک کی آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ انہی میں سے ایک ملک ازبکستان بھی ہے، جسے ١٩٩١ میں آزادی ملی اور وہ ایک جمہوری ملک کی شکل میں دنیا کے نقشے میں ابھر کر سامنے آیا۔ ( تاریخ ختم)
بہرحال ہم لوگوں نے پورا ایک دن اور ایک رات سے کچھ زیادہ وقت تاشقند کی اسی رہائش میں گزارا، وقت پر باجماعت نمازیں ہوتی رہیں۔ اکثر نمازوں میں امامت مفسر قرآن حضرت مولانا طلحہ صاحب نقشبندی حفظہ اللہ فرماتے رہے۔
برطانوی اسکالر سے ملاقات:
اسی رہائش میں موجود ایک برطانوی اسکالر نے حضرت مولانا طلحہ صاحب نقشبندی حفظہ اللہ سے ملاقات کی۔ یہ آکسفورڈ کے رہنے والے ہیں، مگر 3 سال سے تاشقند میں مقیم ہیں اور یہاں کی تاریخ مرتب کررہے ہیں۔
وہ ہوٹل میں باجماعت نماز کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے۔ ان سے مفسر قرآن حضرت مولانا
محمد طلحہ صاحب حفظہ اللہ نے کچھ دیر گفتگو فرمائی۔ جس کا ترجمہ انگریزی میں پونا شہر کے جناب طاہرصاحب فرمارہے تھے۔
پہلے تاریخ کے موضوع پر گفتگو ہوںٔی، اور احباب مجلس نے انکی تحقیقات سے استفادہ کیا۔ پھر مفسر قرآن حضرت مولانا سید محمد طلحہ صاحب نقشبندی حفظہ اللہ نے حکمت کے ساتھ ان کو انسان کی پیدائش، تخلیق کا مقصد، اور انجام، کے موضوع پر لانا چاہا تو انہوں نے صاف کہدیا کہ اس سلسلہ میں وہ کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں جس ماحول میں پیدا ہوا ہوں اور مجھے اپنے بڑوں سے جوعقائد ملے ہیں ان پر میں مزید کوئی غور وفکر نہیں کرنا چاہتا۔ بہر حال مغربی دنیا کی بڑی تعداد کا یہی حال ہے کہ وہ بظاہر عیسائی اور بباطن لا مذہب ہیں۔ مادیت پرستی کی دوڑ نے مغربی ذہن سے مذہب کی اہمیت کو دھندلا کردیا ہے۔
خیر حضرت والا نے بہت محبت اور احترام کیساتھ ان سے عرض کیا کہ جس طرح آنکھیں بند کرلینے سے دنیا کی حقیقتیں ختم نہیں ہوجاتیں، اسی طرح آپ کے غور وفکر نہ کرنے سے آپکی تخلیق کا مقصد ختم نہیں ہوجائیگا۔ جس نے پیدا کیا ہے وہ حساب ضرور لے گا۔ کیوں نہ ہو جب کہ ہم اپنے بچے یا ملازم کو چند روپیے دیتے ہیں تو اسکا حساب مانگتے ہیں۔ ہمارے رب نے ہم کو اتنی قیمتی اور انمول زندگی عطا فرمائی ہے اور اس زندگی کی معلوم و نامعلوم تمام ضروریات کا ایسا محیر العقول انتظام کیا ہے کہ آج تک کوئی ان سب کو گننا تو دور جان بھی نہیں سکا، تو وہ حساب کیوں نہ لے۔ اسنے اقرار کیا کہ سچ کہتے ہو۔
پھر حضرت نے قرآن پاک کی آیت پڑھی،
إِنَّ إِلَيْنَا إِيَابَهُمْ. ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا حِسَابَهُم.
ہم سب کا خالق اور پروردگار قرآن میں یہ کہہ رہا ہے کہ سب کو ہمارے پاس واپس آنا ہے اور ہمیں سب کا حساب لینا ہے۔
پھر حضرت نے فرمایا کہ اگر کبھی آپ کو اسکی ضرورت محسوس ہو اور آپ اس حساب کی تیاری کرنا چاہیں تو ہمارا خیر خواہانہ مشورہ ہے کہ قرآن کا مطالعہ کریں۔
لیکن وہ اپنی باںٔبل کے علاوہ اور کسی کتاب کو دیکھنے یا پڑھنے کی طرف ماںٔل نہیں تھا۔ گرچہ کے اس کا لہجہ نرم تھا مگر وہ اپنے باطل عقائد پر مضبوط نظر آتا تھا۔ بہر حال ہم اس کی ہدایت کے لیے دعا تو ضرور کرسکتے ہیں، کیونکہ اللہ کے لیے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔ وہ چاہے تو خطاب کے بیٹے کو فاروق اعظم اور ولید کے بیٹے کو صیف اللہ بنا سکتا ہے۔ رضی اللہ عنہما۔
إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ – 28:56
(اے نبی جی) آپ جس کو چاہیں اس کو ہدایت نہیں دے سکتے، بلکہ جس کو اللہ چاہے اس کو ہدایت دیتا ہے۔ اور وہی خوب جانتا ہے کہ کون ہدایت یافتہ ہونگے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔