Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, December 15, 2019

مکہ سے سفر ماوراء نہر – پانچویں قسط۔ (داستان سفر ازبکستان۔

الحمدللہ شام دس بج کر چالیس منٹ پر ٹرین بخارہ ریلوے اسٹیشن پہنچی۔ اپنے اپنے سامان لیکر جب ٹرین سے باہر نکلے تو ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں نے گلے لگ کر ہمارا استقبال کیا۔ بخارہ کا موسم بہت خوشگوار اور تاشقند کے مقابلے میں زیادہ ٹھنڈا لگ رہا تھا۔ سب نے گرم کپڑے اور جیکیٹس وغیرہ پہن رکھا تھا۔ ریلوے پلاٹ فارم پر میڈیا اور ٹورزم گروپ کے لوگ اس وفد کے انتظار میں کیمرے لیے کھڑے نظر آرہے تھے۔
ریلوے اسٹیشن کے باہر نکلے تو ولوو بسیں اور پولیس کی گاڑیاں، اور ایک ایمبولینس، انتظار میں کھڑے تھے۔

ہم سب کے آںٔی- ڈی کارڈ کے پیچھے ہوٹل کا نام اور بس کا نمبر وغیرہ لکھا ہوا تھا۔ سب اپنی اپنی بسوں میں بیٹھ گںٔے۔ حضرت کے خلفاء کو مخصوص گاڑیوں میں بٹھایا گیا۔ پولس کی گاڑیاں ایک آگے اور ایک پیچھے سارںٔن لگا کر چل رہی تھیں، اور پورے سفر میں اس قافلہ کے گزرنے تک ہر جگہ ٹرافک کو روک دیا جاتا تھا، بعد میں پتہ چلا کہ پولیس کمشنر کی جانب سے پولیس ڈیپارٹمنٹ کو خصوصی احکامات دیںٔے گںٔے تھے۔ ہر سگنل پر موجود پولیس والے کو اطلاع ہوتی تھی، لہذا وہ قافلہ کے قریب پہنچنے سے پہلے پہلے ٹرافک کو روک دیتا تھا۔ حکومت ازبکستان کی طرف سے ہماری جماعت کے ساتھ پورا وی آںٔی پی والا برتاؤ کیا جارہا تھا۔ جیسے ہمارے ملکوں میں کسی منسٹر یا وزیر کے لیے کیا جاتا ہے۔

بخارا کی کھلی سڑکیں، پاک و صاف رستے، پارک اور جھاڑیوں کا نظارہ کرتے ہوںٔے، جب ہوٹل پہنچے تو رات کے 12 بجے سے زیادہ کا وقت ہوچکا تھا۔
وہ ایک فور اسٹار ہوٹل تھا، بہت معیاری، نظیف، اور کشادہ تھا۔ اس پورے سفر میں یہ سب ہوٹلوں میں سب سے اچھا ہوٹل رہا۔ بندہ کا کمرہ چوتھی منزل پر تھا، اور بندہ کے ساتھ کمرے میں دہلی کے ایک بڑے کنٹریکٹر جناب ذیشان صاحب تھے۔ جو حضرت مولانا سید محمد طلحہ صاحب نقشبندی حفظہ اللہ کے مرید ہیں، اور دہلی میں حضرت کے میزبان بھی ہیں۔
ساتھیوں نے عشاء کی نماز اور تہجد وغیرہ ادا کی اور آرام کیا۔ اگلے دن صبحِ اطلاع ملی کہ حضرت جی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی حفظہ اللہ بھی پہنچ چکے ہیں، اور اسی ہوٹل کے گراؤنڈ فلور میں حضرت کا کمرہ ہے۔ حضرت کی آمد کی خبر سن کر دل مسرور ہوگیا۔ اور آنکھیں چمکنے لگیں۔
“شکریہ تیرا ترے آنے سے رونق تو بڑھی
ورنہ یہ محفل جذبات ادھوری رہتی۔”
صبح کا ناشتہ اور نماز ظہر ہوٹل میں ہی ادا کرکے نکلے۔ افسونا (AFSONA) نامی ایک فنکشن ہال میں نقشبندی فیسٹیول (غالباً حکومت نے ٹورزم کو پروموٹ کرنے لیے یہ نام دیا ہوگا) کی افتتاحی تقریب تھی اور اس کے بعد دوپہر کا کھانا تھا۔
وہ ایک بڑا خوبصورت اور ہال تھا، جس میں بڑے بڑے گول ٹیبل اور کرسیاں بڑے سلیقے سے رکھے ہوںٔے تھے۔ ہال کے سیدھ میں اسٹیج کی طرح بنا ہوا تھا، جس میں رنگ برنگے پھول سجاںٔے گںٔے تھے۔ ایک طرف کو بہت بڑی سکرین لگی ہوںٔی تھی جس میں ازبکستان کے اہم مقامات کی ویڈیو چل رہی تھی۔
اوپر سے بڑے بڑے فانوس اور جھومر لٹک رہے تھے جو محفل کو روشن کررہے تھے۔ پھر حضرت جی حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد صاحب نقشبندی حفظہ اللہ وہیل چیںٔر پر تشریف لاںٔے۔ حضرت نے اپنے نورانی چہرے پر حسب معمول سفید پگڑی سجاںٔی ہوںٔی تھی، اور آپ نے سفید کرتا پاںٔجامہ اور اس پر سنہرا عربی عبایا پہنا ہوا تھا، جو آپ کے حسن میں چار چاند لگا رہا تھا۔ حضرت کی جلوہ افروزی سے جو محفل میں رونق آںٔی، اس کے سامنے وہاں موجود فانوس و جھومر ماند پڑ گںٔے۔ اگر بندہ یہ بات کہے تو قطعاً مبالغہ آرائی نہ ہوگی کہ اس وقت اس محفل میں سب سے زیادہ اگر کوںٔی پرکشش اور جاذب نظر تھا تو وہ حضرت جی کی شخصیت تھی، جن کی طرف ہر صاحب محفل کی نظر بار بار اور بے اختیار اٹھ جاتی تھی۔ شاعر کہتا ہے۔

چاند بھی حیران دریا بھی پریشانی میں ہے
عکس کس کا ہے کہ اتنی روشنی پانی میں ہے۔  (فرحت احساس)

حضرت جی کے ساتھ ان کے دو فرزندان جناب سیف اللہ صاحب اور جناب حبیب اللہ صاحب اور دوسرے خلفاء اور خدام بھی تھے۔
مفسر قرآن حضرت مولانا طلحہ صاحب نقشبندی حفظہ اللہ باہر وضو وغیرہ فرمارہے تھے۔ حضرت جی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی حفظہ اللہ نے جب محسوس کیا کہ حضرت مولانا طلحہ صاحب نظر نہیں آرہے ہیں تو حضرت جی نے پوچھا کہ مولانا طلحہ صاحب کہاں ہیں۔۔۔؟؟؟
طلحہ حضرت دامت برکاتہم کو فوراً اطلاع دی گںٔی کہ حضرت جی آپ کو یاد فرمارہے ہیں، تو حضرت اپنی آستینوں کو درست کرتے ہوںٔے جلدی جلدی چلتے ہوںٔے ہال میں تشریف لاںٔے۔ آپ کے چہرے سے وضو کے پانی کے آثار نظر آرہے تھے۔ آپ پورے وقار کے ساتھ تیز چلتے ہوئے سیدھے حضرت جی کے پاس گںٔے مصافحہ کیا اور ہاتھ پر بوسہ دیا۔ پھر وہیں حضرت جی کے قریب ہی آپ کو بھی بھٹایا گیا۔ اس منظر کو دیکھ کر دل میں بہت مسرت ہوںٔی کہ حضرت جی دامت برکاتہم اپنے ہندوستان کے خلفاء سے کتنی محبت فرماتے ہیں، خصوصاً حضرت مولانا طلحہ صاحب حفظہ اللہ سے بہت شفقت فرماتے ہیں۔

پروگرام کی ابتداء مولانا مصطفیٰ کمال صاحب مکی‌ حفظہ اللہ کے فرزند ارجمند کی قرأت سے ہوںٔی۔
اس کے بعد نائب مفتی اعظم ازبکستان نے استقبالیہ پیش کیا، جسکا ایک نوجوان نے انگریزی میں ترجمہ کیا۔
پھر ناظم کارواں اور انٹر نیشنل صوفی کونسل کے ہیڈ، حضرت عبدلکریم صاحب نقشبندی حفظہ اللہ (ملیشیاء) نے انگریزی میں تقریر فرمائی اور اس نقشبندی فیسٹیول کی تیاری اور حکومت کی تائید اور ہلال ٹراولس والوں کی خدمات وغیرہ کے متعلق جانکاری دی۔ اخیر میں حضرت جی دامت برکاتہم العالیہ کی دعا پر مجلس کا اختتام ہوا۔
پھر کھانے کی محفل لگی۔ وہاں ایک طرف میزوں پر قسم قسم کے پھل اور کیک، گوشت، مرغی چاول، سلاد اور دوسری بہت ساری نعمتیں ترتیب سے سجا کر رکھی ہوںٔی تھیں۔ احباب اپنی اپنی پلیٹوں میں کھانے کی چیزیں لے لے کر بیٹھ کر کھانے لگے۔ کھانا بہت معیاری تھا لیکن ان کھانوں کا مرچوں کی ساتھ دور دور کا بھی کوںٔی واسطہ نہیں تھا۔


اسی محفل میں ہانگ کانگ سے حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب نقشبندی حفظہ اللہ بھی تشریف لائے۔ یہ حضرت جی دامت برکاتہم کے ہم وطن اور ان کے خلیفہ ہیں۔ قاری صاحب برطانیہ کے شہری ہیں، اور بہت طویل عرصے سے ہانگ کانگ میں مقیم ہیں اور وہاں کی تمام دینی ، علمی ، دعوتی ، سرگرمیوں کے روح رواں ہیں۔ قاری صاحب دامت برکاتہم کا فیض دور دور تک جاری ہے۔ ان کے متعلق حضرت مولانا سید محمد طلحہ صاحب نقشبندی حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ انکا علم پختہ اور خطابت برجستہ ہے۔ اور وہ واقعی جب قرآن پڑھتے ہیں تو بس سنتے رہنے کو دل چاہتا ہے۔ قاری صاحب کے ساتھ ان کے فرزند جناب علی طیب صاحب بھی آںٔے ہوںٔے تھے۔ کھانے کے بعد سب نے لاںٔن میں کھڑے ہوکر حضرت جی پیر ذلفقار احمد صاحب نقشبندی دامت برکاتہم سے مصافحہ کی سعادت حاصل کی۔
حضرت جی ہوٹل سے باہر نکل کر اپنی سواری میں بیٹھتے ہوںٔے۔


وہاں سے فارغ ہوکر سب اپنی اپنی بسوں میں جاکر بیٹھ گںٔے۔ سب سے آگے پولیس کی گاڑی ساںٔرن بجاتی ہوںٔی نکلی، اس کے پیچھے ایک بڑی مخصوص وین میں حضرت جی اور ان کے فرزندان تھے۔ اس کے پیچھے کی وین میں حضرت جی کے خلفاء اور دمشق وغیرہ کے شیوخ مع فیملی کے تشریف فرما تھے۔ اس کے پیچھے کی الگ وین میں مولانا مصطفی کمال صاحب مکی حفظہ اللہ الگ سے اپنی فیملی اور بچوں کے ساتھ تھے۔ اس کے پیچھے چار بسیں اور اس کے پیچھے ایمبولینس اور آخر میں ایک اور پولیس کی گاڑی تھی۔



جب یہ قافلہ اس فنکشن ہال کے کمپاؤنڈ سے باہر نکلا تو دیکھا کہ پولیس نے راستے کے دنوں طرف کی ٹرافک کو روکا ہوا ہے، تاکہ پہلے یہ قافلہ روانہ ہوجائے۔ وہاں کی عوام اپنی اپنی کاروں کے اندر سے سے بیٹھ کر اس گرزتی ہوںٔی جماعت کی نورانیت کو حیرت و مسرت سے دیکھ رہے تھے‌۔

سید شمس الدین امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ کی مسجد میں حاضری:







اس محفل سے فارغ ہو کر سیدھا شمس الدین امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ کی مسجد میں پہنچے اور نماز عصر ادا کی اور حضرت کے مزار کے پاس پہنچ کر دعا و ایصال ثواب کیا۔



حضرت امیر کلال ؒ حضرت بابا سماسی رحمہ اللہ کے خلیفہ اور حضرت شاہ بہاؤالدین نقشبند ؒ کے شیخ ہیں۔
حضرت سید شمس الدین امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ عالی نسب سید سادات میں سے ہیں۔ آپ کی جائے ولادت بخارا ہے۔ شہر بخارا سے چھ میل کے فاصلہ پر سوخار نامی قریہ میں ۶۷۶ ہجری میں پیدا ہوئے۔ معاش کا ذریعہ زراعت تھا۔ طاقت ور پہلوان تھے، شوق سے کشتی کھیلا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ لوگوں کا مجمع لگا ہوا تھا، کشتی کا کھیل شروع تھا کہ وہاں سے حضرت بابا سماسی قدس سرہ کا گذر ہوا، جب آپ نے سید صاحب کو کشتی لڑتے ہوںٔے دیکھا تو آپ وہیں کھڑے ہوگئے، کسی نے کھڑے ہونے کی وجہ پوچھی تو آپ فرمانے لگے ”یہاں موجود ایک شخص سے بندگان خدا کو فیض پہنچے گا، میں اسی لیے کھڑا ہوں“۔

حضرت بابا سماسی رحمۃ اللہ علیہ وہیں کھڑے کھڑے ان پر توجہ ڈالتے رہے۔ جب سید امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت کو کھڑے ہوںٔے دیکھا اور ان کے چہرے پر نظر ڈالی تو اللہ نے دل کو حضرت کی طرف ماںٔل کردیا اور وہ سید زادے کشتی چھوڑ کر اسی وقت حضرت بابا سماسی علیہ الرحمۃ کے ساتھ روانہ ہوگئے۔
ان کی صحبت و خدمت میں رہ کر علم و فیض حاصل کیا، آپ کے خلیفہ بلکہ جانشین بنے۔ آپ کے باکمال اور صاحب فیض ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے عظیم پیشوا حضرت سید بہاؤالدین نقشبند بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیر و مرشد ہیں۔

بروز بدھ ۲ جمادی الآخر ۷۷۲ ہجری کو اس دار فانی سے دائمی ملک بقا روانہ ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس وقت آپ کا مزار سوخار ہی میں موجود ہے۔ اس کے ساتھ ہی امیر کلال مسجد بھی ہے۔

ایک اشکال:
اس طرح کے واقعات کو سن کر غیر مقلدین حضرات یہ اشکال کرتے ہیں، کہ کیا امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ بابا سماسی قدس سرہ کو علم غیب تھا جو انہوں نے ان کو دیکھ کر یہ بات کہی تھی۔۔۔؟؟؟

أشکال کا جواب:
علم غیب اور کشف یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
اہل سنت والجماعت علماء دیوبند کا عقیدہ یہ ہے کہ علم غیب اللہ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے۔

وَعِندَهُ مَفاتِحُ الغَيبِ لا يَعلَمُها إِلّا هُوَ ۚ وَيَعلَمُ ما فِى البَرِّ وَالبَحرِ ۚ وَما تَسقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلّا يَعلَمُها وَلا حَبَّةٍ فى ظُلُمٰتِ الأَرضِ وَلا رَطبٍ وَلا يابِسٍ إِلّا فى كِتٰبٍ مُبينٍ {6:59}

اور اُسی کے پاس کنجیاں ہیں غیب کی کہ انکو کوئی نہیں جانتا اسکے سوا، اور وہ جانتا ہے جو کچھ جنگل اور دریا میں ہے اور نہیں جھڑتا کوئی پتا مگر وہ جانتا ہے اسکو، اور نہیں گرتا کوئی دانہ زمین کے اندھیروں میں اور نہ کوئی ہری چیز اور نہ کوئی سوکھی چیز مگر وہ سب کتاب مبین میں ہے۔

کیونکہ غیب (یعنی پوشیدہ بات/چیز) جو کسی واسطہ سے معلوم ہوجانے کے بعد، غیب (پوشیدہ) نہیں رہتی. اور نہ ہی وہ علم غیب کہلاںٔی جاسکتی ہے۔

علمِ غیب :
وہ چیزیں جو ابھی وجود میں نہیں آئیں یا آچکی ہیں لیکن ابھی تک کسی مخلوق پر ان کا ظہور نہیں ہوا، بدرجہ کسی رسول یا نبی کو بذریعہ وحی یا کسی ولی کو بذریعہ کشف و الہام کی باتوں کا علم دیا گیا ہے تو وہ غیب کی حدود سے نکل گیا، اسی طرح جن چیزوں کا علم اسباب و آلات کے ذریعہ بھی ہو تو اس کو بھی غیب نہیں کہیں گے۔ جیسے اگر کوںٔی سونولجسٹ الٹراساؤنڈ سکینگ کے ذریعے سے بچہ کی جنس کا پتہ لگا لے تو اس کو علم غیب نہیں کہا جاںٔے گا۔

مخلوق پر کوئی غیب کی بات کھلے تو کوئی عاقل اسے علم غیب نہیں کہتا، اسے اس کے سبب کی طرف نسبت کرتے ہیں، ہرشخص یہی سمجھے گا کہ خدا کے بتلانے سے ایسا ہوا ہے، علم غیب اپنے علم کو کہتے ہیں۔ جو بات عالم بالا سے لوح قلب پر اترے اسے علم غیب نہیں کہتے، وہ اس کا محض ایک عکس ہوتا ہے۔

حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

وجدان صریح بتلاتا ہے کہ بندہ کتنی روحانی ترقی کیوں نہ کرجائے بندہ ہی رہتا ہے اور رب اپنے بندوں کے کتنا قریب کیوں نہ ہوجائے وہ رب ہی رہے گا، بندہ واجب الوجود کی صفات یا وجوب کی صفات لازمہ سے کبھی متصف نہیں ہوتا، علم غیب وہ جانتا ہے جو از خود ہو کسی دوسرے کے بتلانے سے نہ ہو؛ ورنہ انبیاء واولیاء یقیناً ایسی بہت سی باتیں جانتے ہیں جو دوسرے عام لوگوں کی رسائی میں نہ ہوں۔
(تفہیماتِ الہٰیہ:۱/۲۴۵)

پتہ چلا کہ غیب کی بات معلوم ہونے میں اگر کوئی اس کا بتلانے والا ہو تو اسے علم غیب نہیں کہتے نہ علم غیب کی کوئی عطائی قسم ہے؛ بلکہ اسے خبر غیب کہا جائے گا،اللہ تعالی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کرکے ارشاد فرماتے ہیں:
“ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ “۔ (آل عمران:۴۴)
ترجمہ: یہ خبریں ہیں غیب کی ہم بھیجتے ہیں تیرے پاس۔

جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی صرف خبر غیب ہے علم غیب نہیں تو اور کون ہے جو علم غیب کا دعویٰ کرے، علم غیب صرف خدا کے لیے‌ ہے جو ہر بات کو خود جانے۔

یہی بات کتب عقائد میں دیکھئے: “شرح عقائد نسفی” کی مشہور شرح “النبر اس” میں ہے:
وبهذا التحقيق اندفع الإشكال فى الأمور التي يزعم أنها من الغيب وليست منه لكونها مدركة بالسمع أو البصر أو الضرورة أو الدليل فأحدها إخبار الأنبياء لأنها مستفادة من الوحي ومن خلق العلم الضروري فيهم أو من انكشاف الكوائن على حواسهم.(النبراس علی شرح العقائد:۵۷۴)

ترجمہ : اور تحقیق یہ ہے کہ غیب وہ ہے جو ہمارے حواس اورعلم بدیہی اورنظری سے غائب ہو، بیشک قرآن نے اللہ تعالی کے علاوہ سب سے اس علم غیب کی نفی کی ہے، پس جو دعویٰ کرے کہ وہ علم غیب رکھتا ہے تو وہ کافر ہوجائیگا اور جوایسے شخص کی تصدیق کرے وہ بھی کافر ہوجائے گا باقی جو علم حواس خمسہ میں سے کسی حاسہ (دیکھ کر یا سن کر یا چھو کر یا سونگھ کر یا چکھ کر) یا ہدایت سے یا کسی دلیل سے حاصل ہو وہ غیب نہیں کہلاتا اور نہ محققین کے نزدیک ایسے علم کا دعویٰ کرنا کفر ہے اور نہ ایسے دعویٰ کی (یقینی امور میں یقین کے ساتھ اورظنی امور میں ظن کے ساتھ) تصدیق کرنا کفر ہے، اس تحقیق سے ان امور سے متعلق اشکال رفع ہوگیا جن کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ وہ علم غیب میں سے ہیں؛ حالانکہ وہ علم غیب میں سے نہیں، اس لیے کہ وہ سمع وبصر یا دلیل سے حاصل ہوئے ہیں،انہی امور میں سے اخبار انبیاء بھی ہیں، انبیاء علیہم السلام کی خبر یں وحی سے مستفاد ہوتی ہیں یا نبیوں میں علم ضروری پیدا کردیا جاتا ہے یا ان کے حواس پر حقائق کائنات کا انکشاف ہوتا ہے۔
(النبراس علی شرح العقائد:۵۷۔
معلوم ہوا کہ انبیاء کرام اور اولیاء عظام سے جو بھی خبریں منقول ہیں وہ سب اللہ کے بتلانے سے تھیں اور یہ بھی نہ تھا کہ اللہ تعالی اپنے کسی مقرب بندے پر ایک ہی دفعہ غیب کے جملہ دروازے کھول دے کہ آئندہ اسے غیب کی بات جاننے میں کسی ذریعہ علم کا احتیاج نہ رہے ؛بلکہ مختلف موقعوں پرحسب ضرورت اور بتقاضائے مصلحت انہیں کچھ نہ کچھ اطلاع بخشی جاتی تھی،خود حضورﷺ ہی کودیکھئے تئیس ۲۳/ سال میں وحی قرآن “نجماً نجماً” اترتی رہی اوراس طرح وحی قرآنی کی تکمیل فرمائی گئی بالتدریج یہ سلسلہ وحی جاری رہا۔

علامہ ابن قیم رح بھی “کشف” کے قاںٔل ہیں:
حضرت اپنی کتاب مدارج سالکین میں تحریر  فرماتے ہیں کہ،

والكشف الرحماني من هذا النوع: هو مثل كشف أبي بكر لما قال لعائشة رضي الله عنهما: إن امرأته حامل بأنثى. وكشف عمر- رضي الله عنه- لما قال: يا سارية الجبل، وأضعاف هذا من كشف أولياء الرحمن .[مدارج السالکین ( 3 / 228)]

اور کشف رحمانی یہ ہے ، جس طرح کہ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ کہا کہ ان کی بیوی کو بچی حمل ہے ، اور اسی طرح عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا کشف جب کہ انہوں نے یا ساریـۃ الجبل کہا تھا یعنی اے ساریہ پہاڑ کی طرف دھیان دو ، تو یہ اللہ رحمن کے اولیاء کے کشف میں سے ہے۔

القرآن : وَلا يُحيطونَ بِشَيءٍ مِن عِلمِهِ إِلّا بِما شاءَ [ البقرة:255]؛
اور وہ سب احاطہ نہیں کر سکتے کسی چیز کا اس کی معلومات میں سے مگر جتنا کہ وہی چاہے.

وقال امام ابن تيمية الحنبلي (٧٨٤ ھہ) في مجموع الفتاوى ( 11 / 65 ) : وأما خواص الناس فقد يعلمون عواقب أقوام بما كشف الله لهم …؛

یعنی (الله کے) مخصوص بندے کچھ لوگوں کے انجام بذریعہ کشف معلوم کرلیتے.؛

ولی کا کشف کئی طرح کا ہوتا ہے:

فتارة يري الشئ نفسه إذا كشف له عنه، وتارة يراه متمثلا في قلبه الذي هو مرآته، والقلب هو الرأي أيضا، وهذا يكون يقظه، ويكون مناما، كالرجل يري الشئ في المنام، ثم يكون إياه في اليقظه من غير تغير.[مجموع الفتاوى : 11 / 638]

ترجمہ : ولی بذریعہ کشف کبھی بعینہ اسی شے کو دیکھتا ہے اور کبھی اس شے کی صورت کو اپنے دل میں دیکھتا ہے، اور اس وقت ولی کی شان آئینہ کی ہوتی ہے اور یہ مشاہدہ دل سے ہوتا ہے اور اس طرح کا مشاہدہ بیداری میں بھی ہوتا ہے اور خواب میں بھی ہوتا ہے جس طرح آدمی خواب میں کوئی چیز دیکھتا ہے، پھر وہی چیز اس کو بلا کسی تبدیلی کے بیداری میں نظر آتی ہے.
(المستفاد: راہ دلیل – بلاگ)
اس عنوان پر تفصیلی دلائل و گفتگو اس لنک میں جاکر پڑھ سکتے ہیں۔
http://raahedaleel.blogspot.com/2013/06/blog-post.html?m=1

بہر حال مغرب سے پہلے پہلے مزار پر حاضر ہوکر ایصال ثواب اور اس کے بعد مراقبہ کیا، اور اپنی موت اور عاقبت کو یاد کیا۔ پھر سارے مرحومین کی مغفرت کے لیے دعا کی گںٔی۔ پھر جب مغرب کی‌اذان ہوںٔی تو مسجد امیر کلال ؒ میں قاری طیب صاحب نقشبندی حفظہ اللہ (ہانگ کانگ) نے امامت فرمائی اور اپنی پر رعب آواز میں بہت بہترین انداز میں قرآن کی تلاوت فرمائی۔
پھر شام چھ بج کر چالیس منٹ پر وہاں سے روانہ ہوںٔے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔