Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, May 30, 2020

مجتبیٰ ‏حسین ‏کے ‏سانحہ ‏ارتحال ‏پر ‏خواجہ ‏محمد ‏شاہد ‏کا ‏تعزیتی ‏پیغام۔

از/ پروفیسر خواجہ محمد شاہد سابق شیخ الجامعہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حدر آباد /نٸی دہلی۔/صداٸے وقت۔
==============================

مجتبی حسین صاحب کے انتقال کی خبر سن کر ایک دھچکہ سا لگا۔ ان للہ و ان ا للہ راجعون۔ ان کی بیماری کی خبر ملی تھی اور یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ کافی علیل ہیں۔ لیکن پھر بھی انکے انتقال کی خبر سن کر بہت افسوس ہوا۔ ایسا لگا کہ اردو ادب کا ایک بہت بڑا ستون گر گیا۔ مجتبی صاحب ایک دور کے نمائندے تھے۔ اور جس دور کے نمائندے تھے وہاں ان کے آگے پیچھے دور تک ان کے آس پاس ان کا کوئی ہم پلہ نظر ہی نہیں آتا تھا۔ ان کی تحریروں کا، ان کے مزاح کا، ان کے طنز کے ساتھ جڑے ہوئے ان کے تبصروں کا کوئ ثانی نہیں دکھائی پڑتا ہے۔ اردو ادب کو انہوں نے بہت کچھ دیا اور اب ان کے انتقال کی وجہ سے اردو زبان اور ادب ان کے نئے نئے شا پاروں سے محروم رھیگی۔ ویسے تو انکا قلم انکی صحت کی وجہ سے کافی عرصہ سے تھما ہوا تھا لیکن جو لوگ حیدرآباد کے رھنے والے ہیں وہ اس کی تائید کرینگے کہ ان کی گفتگو میں وہ ہی رنگ تھا جو ان کی تحریروں میں ہو تا تھا۔ اب ہم اس سے بھی محروم ہو گئے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی ہم انکار نہیں کرسکتے ہیں کہ اردو کی آنے والی نسلوں کو ایک عزیم ادبی خزانہ چھوڑ گئے ہیں وہ انکو اردو ادب میں ایک اعلی مقام پر فائز رکھیگا۔ ان کی ادبی مقام کے عنوان سے ریسرچ کے تحریری مقالے لکھے گئیں ہیں۔ ان کی علمی خدمات کے اعتراف میں انکو یونیورسٹیوں سے اعزازی ڈگریوں سے سرفراز کیا گیا۔ حکومت ہند نے انکی ادبی خدمات کے اعتراف میں پدم شری کے ایوارڈ سے ان کی عزت افزائ کری۔ 
       پروفیسر خواجہ محمد شاہد

 ان کا ادبی سفر جو سیاست اخبار سے شروع ہو کر این سی آر ٹی اور حکومت ہند کی اعلی سطحی اردو کمیٹی سے ہو تا ہوا حیدرآباد کی ادبی محفلوں پر جاکر ختم ہوا۔ ذندہ دلان حیدرآباد نے اس شہر اور ملک کے طنز نگاروں کو ایک معیاری ادبی پلیٹ فارم مہیا کرایا۔ اس تنظیم کے تحت انہوں نے بڑے بڑے اجلاسوں کا اہتمام کیا۔ 
 میری ان سے قریبی ملاقات دہلی میں اس وقت سے شروع ہوئ جب وہ مجھ سے اس خواہش کے ساتھ ملنے آئے کہ میں نیشنل کاؤنسل برائے فروغ اردو زبان کی ڈاریکٹر کے عہدہ لئے درخواست کنندہ ہو جائوں۔ یہ میرا وہ وقت تھا کہ میں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی رجسٹرار کے عہدہ کی معیاد مکمل کی ہی تھی اور کسی ایسی ایڈمنسٹریٹو ذمہ داری کے لئیے ذہنی طور پر بالکل تیار نہیں تھا۔ لیکن مجتبی صاحب کا اصرار تھا۔ اسی محبت اور اصرار کے تحت انہون نے میری ملاقات اس وقت کے مرکزی ہوم منسٹر ، جو سی پی آئ کے بہت بڑھے رہنما تھے کروائی۔ میرا بھت عمدہ تعارف کروایا اور پھر ساری گفتگو خود ہی کرتے رہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے واپسی کے بعد میری تقرری منسٹری آف انڈسٹری میں ہو گئ تھی ( جس کے لئے میری سروس کے ساتھیوں نے سارا کریڈٹ اس وقت کے کیبنٹ سیکریٹری ظفر سیف اللہ صاحب کو دیدیا ، جنکو میں اسوقت جانتا بھی نہیں تھا) جو بہت عمدہ پوسٹنگ سمجھی جاتی تھی اور بہت تگ و دو سے ملتی تھی اور ملتی ہے۔ میں اردو دنیا کی سیاست اور جھمیلوں کو سمجھتا تھا اور اپ نے آپ کو اس میں الجھا نے میں بالکل تیار نہیں تھا۔ میں نے کچھ بہی خواہوں سے مشورہ بھی کیا اور مجتبی صاحب سے معذرت کرلی۔ ان کو بہت افسوس ہوا جسکا ذکر وہ میرے حیدرآباد کے قیام کے دوران تک کرتے تھے۔ میری ان سے ملاقاتیں پھر سے اعادہ ہوگئیں جب میں نے بطور پرو وائس چانسلر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد میں ذمداراریاں سنبھالیں۔ وہ ہمارے پروگراموں میں بطور صدر یا مہمان خصوصی شرکت کرتے تھے اور ہم سب انکے علمی و ادبی مضامین اور تقاریر سے مستفید ھو تے تھے۔ 
 مجتبی صاحب بہت خلوص کے، بہت محبت کے، بہت اعلی اقدار کے اور حیدرآباد کی قدروں کے مجسم تصویر تھے۔ حیدرآباد کے ہندو مسلم ہر طبقہ میں مقبول اور ہر دل عزیز تھے۔ دہلی کے پولیس کمشنر راجہ کرن آئ پی ایس اور انکی اہلیہ پرتبھا کرن آئ اے ایس ان کے بڑے مداحوں میں تھے۔ مرحوم بہت خوبیوں کے مالک تھے۔ اپنے میں ایک محفل تھے۔ ان کی کمی ہمیشہ محسوس ہوگی۔ کوئ دوسرا مجتبی حسین نہیں پیدا ہو سکے گا۔ اللہ تعالی دوسری دنیا میں بھی ان کے درجات بلند کرے۔

نوٹ۔۔۔مضمون نگار سابق واٸس چانسلر مولانا آزاد اردو یونیورسٹی ، ایک ماہر تعلیم ہیں۔۔کٸی ملکی و بین الاقوامی تعلیمی آرگناٸزیشن و اداروں سے جڑے ہوٸے ہیں۔