Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, December 27, 2020

معروف ‏و ‏مشہور ‏شاعر ‏” ‏غالب ‏“ ‏کے ‏یوم ‏ہیداٸش ‏27 ‏دسمبر ‏کے ‏ضمن ‏میں ‏


*( اردو کے سب سے مشہور شاعر، زبان اور لہجے کے چابک دست فنکار، استدلالی اندازِ بیاں، تشکک پسندی، رمز و ایمائیت، جدت ادا اور اردو فارسی کے ممتاز و عظیم شاعر” مرزا اسد اللہ خاں غالب“ کا یومِ ولادت*

            صداٸے وقت /ماخوذ
========-====================
*نام مرزا اسد اللہ خاں اور تخلّص غالب*
*27 - دسمبر 1797 کو پیدا ہوئے*
غالب کی اولین خصوصیت طرفگئی ادا اور جدت اسلوب بیان ہے لیکن طرفگی سے اپنے خیال تا ، جذبات یا مواد کو وہی خوش نمائی اور طرح طرح کی موزوں صورت میں پیش کرسکتا ہے جو اپنے مواد کی ماہیت سے تمام تر آگاہی اور واقفیت رکھتا ہو ۔میر کے دور میں شاعری عبارت تھی محض روحانی اور قلبی احساسات و جذبات کو بعینہ ادا کردینے سے گویا شاعر خود مجبور تھا کہ اپنی تسکین روح کی خاطر روح اور قلب کا یہ بوجھ ہلکا کردے ۔ ایک طرح کی سپردگی تھی جس میں شاعر کا کمال محض یہ رہ جاتا ہے کہ جذبے کی گہرائی اور روحانی تڑپ کو اپنے تمام عمن اور اثر کے ساتھ ادا کرسکے ۔ اس لیے بے حد حساس دل کا مالک ہونا اول شرط ہے اور شدت احساس کے وہ سپردگی اور بے چارگی نہیں ہے یہ شدت اور کرب کو محض بیان کردینے سے روح کو ہلکا کرنا نہیں چاہتے بلکہ ان کا دماغ اس پر قابو پاجاتا ہے اور اپنے جذبات اور احساسات سے بلند ہوکر ان میں ایک لذت حاصل کرنا چاہتے ہیں یا یوں کہئے کہ تڑپ اٹھنے کے بعد پھر اپنے جذبات سے کھیل کر اپنی روح کے سکون کے لیے ایک فلسفیانہ بے حسی یا بے پروائی پیدا کرلیتے ہیں ۔ اگر میر نے چر کے سہتے سہتے اپنی حالت یہ بنائی تھی کہ * " مزاجوں میں یاس آگئی ہے ہمارے" نہ مرنے کا غم ہے نہ جینے کی شادی " * تو غالب اپنے دل و دماغ کو یوں تسکین دیتے ہیں کہ غالب کی شاعری میں غالب کے مزاج اور ان کے عقائد فکری کو بھی بہت دخل ہے طبیعتاً وہ آزاد مشرب مزاج پسند ہر حال میں خوش رہنے والے رند منش تھے لیکن نگاہ صوفیوں کی رکھتے تھے ۔ باوجود اس کے کہ زمانے نے جتنی چاہئے ان کی قدر نہ کی اور جس کا انہیں افسوس بھی تھا پھر بھی ان کے صوفیانہ اور فلسفیانہ طریق تفکر نے انہیں ہر قسم کے ترددات سے بچالیا۔(الخ) اور اسی لیے اس شب و روز کے تماشے کو محض بازیچہِ اطفال سمجھتے تھے ۔ دین و دنیا، جنت و دوزخ ، دیر و حرم سب کو وہ داماندگیِ شوق کی پناہیں سمجھتے ہیں۔(الخ) جذبات اور احساسات کے ساتھ ایسے فلسفیانہ بے ہمہ دبا ہمہ تعلقات رکھنے کے باعث ہی غالب اپنی شدت احساس پر قابو پاسکے اور اسی واسطے طرفگیِ ادا کے فن میں کامیاب ہوسکے اور میر کی یک رنگی کے مقابلے میں گلہائے رنگ رنگ کھلا سکے۔ ’’ لوح سے تمت تک سو صفحے ہیں لیکن کیا ہے جو یہاں حاضر نہیں کون سا نغمہ ہے جو اس زندگی کے تاروں میں بیدار یاخوابیدہ موجود نہیں۔‘‘ لیکن غالب کو اپنا فن پختہ کرنے اور اپنی راہ نکالنے میں کئی تجربات کرنے پڑے۔ اول اول تو بیدل کا رنگ اختیار کیا لیکن اس میں انہیں کیامیابی نہ ہوئی سخیوں کہ اردو زبان فارسی کی طرح دریا کو کوزے میں بند نہیں کرسکتی تھی مجبوراً انہیں اپنے جوش تخیئل کو دیگر متاخرین شعرائے اردو اور فارسی کے ڈھنگ پر لانا پڑا۔ صائب کی تمثیل نگاری ان کے مذاق کے مطابق نہ ٹھہری میر کی سادگی انہیں راس نہ آئی آخر کار عرفی و نظیری کا ڈھنگ انہیں پسند آیا اس میں نہ بیدل کا سا اغلاق تھا نہ میر کی سی سادگی ۔ اسی لیے اسی متوازن انداز میں ان کا اپنا رنگ نکھر سکا اور اب غیب سے خیال میں آتے ہوئے مضامین کو مناسب اور ہم آہنگ نشست میں غالب نے ایک ماہر فن کار کی طرح طرفہ دل کش اور مترنم انداز میں پیش کرنا شروع کردیا ۔ عاشقانہ مضامین کے اظہار میں بھی غالب نے اپنا راستہ نیا نکالا شدت احساس نے ان کے تخیئل کی باریک تر مضامین کی طرف رہ نمائی کی گہرے واردات قلبیہ کا یہ پر لطف نفسیاتی تجزیہ اردو شاعری میں اس وقت تک (سوائے مومن کے ) کس نے نہیں برتا تھا ۔ اس لیے لطیف احساسات رکھنے والے دل اور دماغوں کو اس میں ایک طرفہ لذت نظر آئی ۔ *ولی*میر* و سودا* سے لے کر اب تک دل کی وارداتیں سیدھی سادی طرح بیان ہوتی تھیں۔ غالب نے متاخرین شعرائے فارسی کی رہ نمائی میں اس پر لطف طریقے سے کام لے کر انہیں معاملات کو اس باریک بینی سے برتا کہ لذت کام و دہن کے ناز تر پہلو نکل آئے ۔ غرض کہ ایسا بلند فکر گیرائی گہرائی رکھنے والا وسیع مشرب، جامع اور بلیغ رومانی شاعر ہندوستان کی شاید ہی کسی زبان کو نصیب ہوا ہو موضوع اور مطالب کے لحاظ سے الفاظ کا انتخاب (مثلاً جوش کے موقع پر فارسی کا استعمال اور درد و غم کے موقع پر میر کی سی سادگی کا ) بندش اور طرز ادا کا لحاظ رکھنا غالب کا اپنا ایسا فن ہے جس پر وہ جتنا ناز کریں کم ہے - 
*15 - فروری 1869 کو غالب انتقال کر گئے*
===========

*ممتاز عظیم شاعر غالب صاحب کے یومِ ولادت پر موصوف کے اشعار جس کی تعداد کافی زیادہ ہے ان میں سے چند اشعار بطورِ خراجِ عقیدت پیش خدمت ہیں*

آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے 
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
---
آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہوتے تک 
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک
---
اس انجمنِ ناز کی کیا بات ہے غالب
ہم بھی گئے واں اور تری تقدیر کو رو آئے
---
بازیچہِ اطفال ہے دنیا مرے آگے 
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
---
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا 
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
---
بے خودی بے سبب نہیں غالب 
کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے
---
پلا دے اوک سے ساقی جو ہم سے نفرت ہے 
پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے شراب تو دے
---
ثابت ہوا ہے گردنِ مینا پہ خونِ خلق 
لرزے ہے موجِ مے تری رفتار دیکھ کر
---
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا
---
دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں
---
درد منّت کشِ دوا نہ ہوا 
میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا
---
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن 
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
---
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے 
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
---
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا 
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
---
کعبہ کس منہ سے جاوگے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
---
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو 
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
---
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا 
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
---
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل 
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
---
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق 
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
---
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے 
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
---
ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
---
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
---
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحہ غم ہی سہی نغمہِ شادی نہ سہی
---
بس ہجوم ناامیدی خاک میں مل جائے گی
یہ جو اک لذت ہماری سعی لاحاصل میں ہے
---
موت کا ایک دن معیّن ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
---
جوئے خون آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شامِ فراق
میں يہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیں
---
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا 
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
---
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے 
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور۔