Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, June 2, 2021

علم وادب کاایک اورستارہ ڈوبامولانانذرالحفیظ ندوی ازہری دیوبند. ‏. ‏

                      تحریر 
محمدصدرعالم ندوی ویشالی 9661819412. 
                    صدائے وقت 
============================
مولانانذرالحفیظ ندوی ازہری،دارالعلوم ندوةالعلما۶کےسینیراستادتھے،بلکہ استاذالاساتذہ تھے،کٸ نسلوں کےاستادتھے،عربی فیکلٹی کےڈین تھے،مولانا علی میاں ندوی کےصحبت یافتہ تھے،ان کی کتابوں کےحافظ تھے،اگرمولاناعلی میاں کو کسی کتاب کی ضرورت پڑتی تومولانانذرالحفیظ ندوی کھڑےنظرآتے،صبح شام،سفروحضرمیں مولانا کےمعاون ہوتے ،حضرت مولانا رابع حسنی ندوی ناظم دارالعلوم ندوة العلما۶ کےمعتمدتھے،ایسےوقت میں مولانا کاجانا ہم سب کےلیےبڑاحادثہ ہے،ابھی کچھ دن پہلےمولاناحمزہ حسنی ناٸب ناظم دارالعلوم ندوة العلما۶ لکھنوکاانتقال ہوا ،ابھی غم تازہ ہی تھاکہ دوسراغم مولانا نذرالحفیظ ندوی کےانتقال کی شکل میں آیا ،لیکن اللہ کےفیصلہ ہمیں یقین بھی کرناہے ،اوردعابھی کرنی ہے،اللہ دونوں حضرات کی بال بال مغفرت فرمائے ،اورجنت میں قبرکی کھڑکی کھول دے،بس میری یہی دعاہے
مولانا کومیں نےدوران طالب علمی میں ندوہ میں چلتے پھرتےدیکھا،پروگرام میں بیان کرتےہوۓسنا عصربعد حضرت مولاناکی مجلس میں دیکھا،مہمان خانہ سےنکلتےہوۓدیکھا،تعمیرحیات میں مضامين کوپڑھا ،بڑاتحقیقی مضمون ہواکرتاتھا خاص طورسےمغربی افکار پرلکھاکرتے،چونکہ مولانا نےکچھ وقت عرب ممالک میں گذاراتھا،قاہرہ ریڈیو اسٹیشن میں کام بھی کیاتھا،جسکی وجہ سےمغربیت کوسمجھنےاورپرکھنےمیں آسانی ہوٸ،مولانا ویسےعربی ادب کےاستادتھی ،اس کےباوجودمغربی میڈیاپربھی نگاہ تھی،اسی وجہ سےمولاناکی لازوال کتاب "مغربی میڈیااوراس کےاثرات"چھپ کرآٸ توہاتھوں ہاتھ لی گٸ ،میں نےاس کتاب کوخریدا ،پڑھا،اورٹیچرٹریننگ کرتےوقت خوب استعمال کیا،اس کتاب میں صحافت ،نیوزایجنسی،اورذراٸع ابلاغ پرآسان زبان میں بحث کی گٸ ہے،اس کتاب کےدسیوں ایڈیشن ہندوپاک میں نکالےگۓ،کٸ زبانوں میں ٹرانسلیٹ کیاگیا،مولانا اپنی نادر تصیف کےذریعہ ہمیشہ یادکیےجاٸیں گے،مولانا سےمجھےعلیک سلیک کافی ہے،امارت شرعیہ پٹنہ میں کٸ ملاقاتيں ہوٸیں ،مولانا کم گوتھے،اس لیےبات چیت کی زیادہ نوبت نہیں آٸ،امارت شرعیہ کی میٹینگوں میں بھی کم بولتےتھے،لیکن اپنی اصابت راۓکی وجہ سےممتازتھے،راقم الحروف بہارکےندوی علما۶پرکام کررہاتھا تواس  سلسلہ میں ندوة میں مولانا سےایک ملاقات ہوٸ،مولانا بہت محبت سےملے،بہت دیرتک بات کی ،مولانانےاپناایک عربی مقالہ دیاجوبہارکےندوی علما۶پرتھا،لیکن افسوس یہ ہےکہ بہت سارےندوی حضرات اللہ کوپیارےہوگۓ،لیکن اب تک میری یہ کتاب شاٸع نہ ہوسکی،میں نےطالب علمی کےزمانہ میں  اوراس کےبعدبھی  مولاناکے تعلق سے کسی کوشکایت کرتے ہوۓنہیں پایا،مولانا بےضررانسان تھے،اورخاندانی شرافت تھی،مولانا کےاہل خانہ کاتعلق اپنےوقت ولیوں سےتھا داداحافظ محمداسحاق مولانا محمدعلی مونگیری سےبیعت تھے،نانامولانااشرف علی تھانوی کےمریدتھے،خودمولاناکےوالدقاری عبدالحفیظ اورمولاناکاتعلق اپنےوقت کےبزرگ مولانا احمد پرتابگڑھی سےتھا،جس کااثرمولاناکی زندگی پرمکمل طورسےتھا ،مولانا دیکھنےمیں بھی بزرگ نظرآتےتھے ندوہ کےزمانہ میں اپنےاستاداوروقت کےبڑےعالم ومفکرحضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی سےبےانتہامحبت وعشق تھا،مادر علمی سےمحبت تھا،جس کی وجہ سےمولانامادرعلمی کےہوکررہ گۓ،ادھرادھرنہیں جھانکا،ورنہ مولانا اس لاٸق تھےکہ بڑی سےبڑی نوکری حاصل کرسکتےتھے،لیکن مولانا نےفقرکوترجیح دیا اورکنارہ کشی کی زندگی اختیارکی،اوراسی حال میں اللہ کویادکرتےہوۓجمعہ کی نمازسےقبل لکھنوکےایک پراٸویٹ اسپتال میں28مٸ 2021کو آخری سانس لی،عشا۶کی نمازکےبعدحضرت مولانا سعیدالرحمان اعظمی ندوی کی امامت میں نمازجنازہ اداکی گٸ،اورلکھنوکےڈالی گنج قبرستان میں سپردخاک کیےگۓ،
مولانا غیوروخوددارانسان تھے،وہ مذہبی صفات ومیلانات کےحامل انسان تھے،سینکڑوں نۓلکھنےوالوں کی رہ نماٸ وحوصلہ افڑاٸ کی،جوبہترین صدقہ جاریہ ہے
مولانا نذرالحفیظ بن قاری عبدالحفیظ کی ولادت 1939میں بہارکے مدھوبنی ضلع کےمعروف گاٶں ململ میں ہوٸ،ابتداٸ تعلیم اپنےوالدمحترم کےزیرنگرانی مدرسہ کافیة العلوم پرتاپ گڑه میں تعلیم حاصل کی ،والدمحترم پہلےسےاسی مدرسہ میں استاد تھلے،اس کےبعددارالعلوم ندوة العلما۶میں 1955میں داخل ہوئے ،فضیلت تک تعلیم حاصل کی،اس کےبعدایک سال جامعة الرشاداعظم گڑھ میں پڑھایا،اس کے بعداپنےپیرومرشدحضرت مولانا علی میاں ندوی مرحوم کی دعوت پرندوہ آگۓ ،یہاں پڑھایا،مزید اعلی تعلیم کےلیے1975میں مصرگۓعین شمس یونیورسیٹی سےایم اےاورجامعہ ازہرمصرسے عربی تنقید کےحوالہ سےڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ،پھرواپس ندوہ آگۓ،اورعمربھریہیں رہے،عربی زبان کی خدمات کی وجہ سے2002میں حکومت ہندنےصدرجمہوریہ ایوارڈاےپی جےعبدالکلام کےہاتھ سےنوازا ،اورمولانانے صدر جمہوریہ کو ندوہ آنےکی دعوت دی،مولانا کےگاٶں والوں نےمجاہدآزادی محمدشفیع بیرسٹر کےنام سے"شفیع بیرسٹرایوارڈ"2005میں نوازا،حال ہی مجالس علم وعرفاں کےنام سےایک نٸ کتاب آٸ ہے،بس میری یہی دعاہےخدامغفرت کرے،غضب کےآدمی تھے