Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, July 24, 2021

مہاراشٹر ‏کے ‏شہر ‏مہاڈ ‏میں ‏سیلاب ‏کی ‏تباہی۔۔۔صرف اللہ نے رحم فرمایا اور جانیں بخش دیں، ‏


پانی اتر چکا ہے، دوسرا دن ہے، لیکن ہر طرف قیامت کا منظر ہے، ہمارے شہر مہاڑ میں کوئی ایک گھر سلامت 
نہیں، کوئی ایک دوکان بچی نہیں، 
از۔۔۔سمیع اللہ خان۔۔۔صدائے وقت۔
+++++++++++++++++++++++++++++++++++
خود ہماری دوکان میں بھی پانی نے تباہی مچائی 
پانی اترنے کے بعد کا جو منظر ہے اس کے لیے صرف یہی کہہ سکتاہوں کہ ناقابل بیان ہے، بجلی اور پانی کا تو پتا نہیں ناہی نیٹورک ہے، ابھی دسیوں دن تو صرف لائن درست کرنے میں لگ جائیں گے، جانی نقصانات کا ابھی کوئی حتمی ڈاٹا نہیں ہے، لیکن ان کی تفصیلات بھی دردناک ہے، مہاڑ شہر میں نکل جائیے تو لگتاہے کوئی عذاب کوئی تباہی غضبناک ہو کر گزری ہے، ہزاروں کروڑ روپے کی املاک برباد ہوگئی ہیں، دوکانیں جڑ سے اکھڑ گئی ہیں، گاڑیاں جیسے لگتا ہے اٹھا اٹھا کر پٹخ دی گئی ہیں، میرے سامنے سے کئی ہزار کلو وزن کے ٹیمپو اور کاریں کاغذ کی طرح بہتی رہیں، اور اب مارکیٹ میں ڈھونڈنے پر ایک دوا کی ٹیبلٹ بھی نہیں مل رہی، انڈا پانی، تیل راشن برائے نام بھی نہیں ہے، راشن اور دوائیوں کی ساری دوکانیں بہہ گئی ہیں، میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھا ہے کہ، ہمارے یہاں کوئی امدادی ٹرک آتاہے کچھ راشن کا سامان لے کر تو اچھے خاصے گھرانے والے بھی جھپٹ پڑتے ہیں اور چھین بٹور کے اپنے گھر والوں کے لیے کھانا پانی لے جاتے ہیں، 
دو سال سے لاکڈاؤن کی مار جھیلتے رہنے کے بعد یہ تباہی بھی مقدر میں تھی جس کی اذیت ناقابل برداشت ہے اور اس سے ابھرنے میں سالوں لگ جائیں گے
اس سے پہلے، 
جس غضبناک انداز میں پانی تباہی مچارہا تھا اور اونچی آبادیاں بھی ندیوں میں تبدیل ہوچکی تھیں اس میں بچنے کی امید بہت مشکل ہوگئی تھی 
 ہم لوگ جہاں رہتےہیں وہاں چونکہ ہم لوگوں کے مکان کا محل وقوع بلندی پر ہے، اسلئے سخت سیلابی صورتحال میں بھی اب تک پانی نہیں آیا، اگر آتا بھی تھا تو برائے نام بلڈنگ کی پارکنگ کو چھوتے نکل جایا کرتا تھا، لیکن اس دفعہ، پارکنگ میں پانی بھر کے گراونڈ فلور پر بھی پورا بھر گیا، دونوں زینے پار کرکے فرسٹ فلور پر داخل ہونے لگا، اور تیزی سے بڑھنے لگا، کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ ایسا بھی ہوسکتاہے، پاس کی مسجد جہاں کبھی پانی نہیں بھرتا تھا وہاں تو پہلا منزلہ ڈوب ہی گیا، دماغ دنگ رہ گیا اور ہوش اڑنے لگے تھے جلدی سے 
 ہم لوگ کھانے پینے اور پہننے کا جوکچھ سامان ساتھ لے سکتے تھے وہ لے کر والدین کے ساتھ چھت پر چڑھ گئے 
 رات بھر دردناک ماحول تھا، کبھی کہیں کبھی کہیں اور سے عورتوں اور بچوں کے چیخنے چلانے کی آواز آنے لگتی، جو لوگ دوسرے منزلے پر پناہ لیے ہوئے تھے جب ان تک بھی پانی پہنچنے لگا تو وہ حواس باختہ ہوکر مدد کے لیے پکارنے لگتے، جانوروں کی صورتحال تو مزید دل چیرنے والی تھی، کیونکہ ہم ان کی مدد نہیں کرسکتے تھے، میں نے جب اپنے گھر کی کھڑی کھولی تو سامنے جیسے سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا اور ایک گائے میری کھڑکی کے سامنے جان بچانے کے ليے ہاتھ پیر مار رہی تھی، یہ منظر الم انگیز تھا 
 بہرحال، میں ابھی اپنے گھر سے دور پانی کی تلاش میں نکلا ہوں، تقریباﹰ ۲۰ کلومیٹر آگے پہنچنے کےبعد نوٹیفکیشن آنے لگا تو میں ایک جگہ ٹھہر کر یہ احوال لکھ رہا ہوں 
*کئی سارے میسج کئی لوگوں کی طرف سے ملے ہیں کہ وہ ریلیف کا کام کرنا چاہ رہےہیں، سب کو ایک ہی جواب دوں گا کہ اسوقت اگر آپ کوکن والوں کی مدد کرنا چاہ رہے ہیں تو اپنی تنظیمی سیاسی و سماجی وابستگیوں سے اوپر اٹھ کر یہاں آئیے، اور بحیثیت ایک انسان دوسرے انسان کی مدد کیجیے،* راشن کے سامان پہنچائیے، یہاں پر آپ ممبئی سے پینے کے پانی کی بوتلیں اپنی گاڑیوں میں ڈال کر لائیے اور کسی محلے یا چوراہے پر کھڑے ہوجائیے وہ پانی ختم ہوجاے گا، سیلاب کی وجہ سے گندگی کا ڈھیر ہے اور سرکاری امداد اور کاموں کا کہیں کوئی پتا نہیں ہے، ہسپتال اور بازار بند نہیں ہوئے ہیں وہ ختم ہوگئے ہیں، آپ اینٹی بایوٹک دوائیاں لے کر آئیے، آپ ایک گاڑی میں کچھ ڈاکٹروں کو لے کر دوائیوں کےساتھ یہاں آئیے اور اطراف کے دیہاتوں میں پھیل جائیے، 
آپ اس طرح کام کریں گے تو ہمارے علاقوں میں زیادہ بہتر طورپر کام کرسکیں گے، 
 ہمارے مہاڑ سے لیکر ہمارے دوسرے شہر چپلون تک  احباب انسانیت ایک قیامت سے گزر رہےہیں، بازآبادکاری میں نجانے کتنا وقت لگ جاے گا، بدحالی کا ایسا وقت کبھی سنا ہی نہیں کبھی دیکھا ہی نہیں ۔ 
میں کوشش کررہاہوں کہ دو ایک روز میں والدین کو مطمئن کرکے یہاں سے ممبئی پہنچ جاوں اور وہاں سے نیٹورک میں رہ کر کوئی منظم ترتیب راحت کی جاری کروا سکوں، کیونکہ یہاں تو میں مفلوج ہوں پوری طرح، اور پتا بھی نہیں ہے کہ لوگ کس رخ پر کام کررہےہیں، اور ہمارے کارواں کے ممبئی و دیگر شہروں میں موجود ذمہ داروں اور دوستوں سے کوئی رابطہ بھی نہیں ہے، ناہی اور دوستوں اور قارئین تک کوئی رسائی، 
سب کو سلام اور دعاؤں کی درخواست ہے، جلد رابطے میں آنے کی کوشش کرتاہوں، ان شاءالله 
سیلاب کےبعد پھیلنے والی گندگیوں اور بیماریوں سے اللہ سب کی حفاظت فرمائے، کیونکہ گندگی ہٹانے کا اور ملبہ منتقل کرنے کا کوئی سرکاری کام ہو نہیں رہاہے، این ڈی آر ایف کی ٹیموں کا کام اتنا ہی ہے جتنا آپ نے فوٹو دیکھا ہوگا، میں گراؤنڈ سے آپکو اب تک کی رپورٹ بتارہا ہوں کہ سب سے بھدا مذاق ہے کہ سرکاریں کام کررہی ہوں گی، ویسے بھی نکمی سرکاروں سے ہمیں کوئی امید نہیں ہے، سرکاری کام اپنی فطرت کےمطابق سیاستاً جاری ہے۔

سب سے پہلی ضرورت ہے دعا کی_

✍: سمیع اللّٰہ خان
24 جولائی 
ksamikhann@gmail.com