Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, July 14, 2021

مولانا اسماعیل میرٹھی بچوں کے ساتھی....

                      تحریر
(پروفیسر داکٹر سید فضل اللہ قادری)
نائب  قومی  صدر آل انڈیا  یونانی  طبی گانگریس] دہلی[
حسن پلازہ،فلیٹ نمبر:۱۰۳،خلیل پورہ روڈ،پھلواری شریف،پٹنہ(بہار) موبائل نمبر:9835426836
                         صدائے وقت                                       ====================================                                                   
مو لانا محمد اسماعیل میرٹھی کا نسبی سلسلہ محمد بن ابوبکر صدیق خلیفہ اول سے ملتا ہے۔ مولاناقاضی حمیدالدین خجندی کی۵۲۵۱ء میں محمد ظہیر الدین بابر مغل اول کے ہمراہ ہندوستان مین تشریف آوری ہوئی،اسی عہد سے یہ خاندان میرٹھ میں آباد ہے۔آپ کے والد۸۳۸۱ء میں میرٹھ میں قیام پزیر ہوئے۔تعلیم حسب دستورپہلی درسگاہ گھر سے شروع ہوئی۔۰۱ سال کی عمر مین قرآن مجیدشروع کیا۔فارسی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔فارسی کی اعلی تعلیم مرزا رحیم بیگ کی نگرانی میں انجام پائی۔اس وقت میرٹھ میں تعلیم کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا؛اس لیے ایک نارمل اسکول بھی قائم ہو گیا تھا،جس کے صدر مدرس(ہیڈماسٹر) ایم کنیز تھے۔ محمد اسما عیل اپنے والد کی خواہش پر مذ کورہ اسکول میں داخل ہو گئے اور امتحان مین کامیاب وکامران رہے۔نارمل اسکول مین منشی ایسری پرشاد علم ہند سہ کے استاد تھے،مولاناکو اس مضمون مین بہت دلچسپی تھی۔اپنے شفیق استاد سے فیزیکل سائنس اور علم ہیئت. اپنی دلچسپی کی بناپر نصاب تعلیم کے علاوہ سیکھ لیا اور تکمیل کی منزل سے ہمکنارہوئے۔نارمل اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلی تعلیم حاصل کرنے کے مقصد سے رُڑکی،اترپردیش(موجودہ اتراکھنڈ) کے کالج مین داخلہ لیااوردرس کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا،ادھرمو لا نا کو گھر کی یاد ستانے لگی،نیز اجنبی طلبہ کے ساتھ نباہ نہ کر سکے ا ور کچھ عرصہ بعد گھر واپس آگئے۔
ملازمت: اُس دور میں معلمی کا پیشہ قابل فخر و افتخار سمجھا جاتا تھا۔حکومت اور سماج دونوں حلقوں میں استاد کی حیثیت با وقار سمجھی جاتی تھی اوراس کو عزت و احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا، چنانچہ موصوف نے اپنے لیے معلمی کے پیشہ کوانسب سمجھا اور ۶۱ برس کی عمر میں ۰۶۶۱ء میں انسپکٹر آف مدارس میرٹھ سرکل میں ایک کلرک کی حیثیت سے تقرر ہو گیا، ۷۶۸۱ء تک میرٹھ میں مقیم رہے۔اس کے بعد۰۷۸۱ء تک ڈسٹرک اسکول سہا رنپورمیں فارسی کے استاد رہے، یہیں سے آپ کو زبان عربی مین دلچسپی پیدا ہو گئی۔کچھ مددت کے بعد انسپکٹر مدارس میرٹھ کے دفترمیں واپس بلا لیاگیا۔۸۸۸۱ء تک یہیں خدمت انجام دیتے  رہے،اسی سال نارمل اسکول کو بند کردیا گیااور ایک سنٹرل اسکول آگرہ میں قائم کیا گیا، جولائی۸۸۸۱ء میں مولانا کا تقرربحیثیت فارسی استاد کردیاگیا اور۹۹۸۱ء تک خدمت انجام دیتے رہے اور اسی سال یکم دسمبر۹۹۸۱ء مع پینشین سبک دوش ہو گئے اور باقی زندگی اپنے وطن مالوف میں گزاری۔
شادی: آپ کی شادی۲۶۸۱ء میں ہوئی،اہلیہ محترمہ(جومولاناقاضی حمید الدین خجندی کی اولادمیں تھیں) کا نام بی بی نعیم النساء بنت شیخ محبوب بخش تھا۔اہلیہ تعلیم یافتہ نہیں تھیں؛ مگر صالحیت و نیک سیرت میں درجہ کمال کو پہنچی ہوئی تھیں۔ ازدواجی زندگی بہت خوشگوار گزری۔مولانا اپنی عادت کے مطابق صبح چار بجے جاگ جاتے؛ لیکن اہلیہ ان کے جاگنے سے قبل ہی بیدار ہو جاتیں اور گھر کی صفائی کرتیں، حقہ تیار کرتیں۔ صفائی کے دوران مولانا کے کاغذات منتشر ہو جاتے تھے؛مگر مولانا نے کبھی اس پر نکیر نہیں کی، ان کے صاحبزادہ محمد اسلم صیفی کہتے ہیں: وہ صفحات کو ترتیب دیکرمسودات کو قاعدے کے مطا بق رکھ دیا کرتے تھے۔
بچوں کے ادیب: مولانا اسماعیل میرٹھی بچوں کے ادب کے خالق ہیں۔آپ نے بہت ہی انہماک، استقلال و دلجمعی کے ساتھ بچوں کے لئے اردو کی پانچ کتا بیں ترتیب دیں، جوتدریسی نصاب کے طور پر  پہلے درجہ سے لے کر پانچویں درجہ تک شامل نصاب تھیں اور آج بھی ہیں۔ آپ نے اس دور کے شعرا اور ادبا میں اپنا ایک منفرد مقام بنایا اور آج تک ان کی اطفال کے سلسلہ شاعری و نثر مستند ہے۔آپ کو یہ اعزازبھی حاصل ہے کہ  بچوں کے نفسیات اور ذہنی نشوو نما کو ترجیحی مقام دیا۔اس عہد کے آپ پہلے ادیب ہیں، جنہوں نے باقاعدہ بچوں کے ادب کی جانب اپنی توجہ مبذول کی اور زبان اردو کی خد مت کے لیے وقف کرلیا۔اردو زبان کی تدریسی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے باقاعدہ نظمیں اوراردو کی درسی کتابیں لکھیں اور درسی ضرورتوں کی تکمیل کوبحسن و خوبی انجام دیں،اردو زبان کی پہلی کتاب سے پانچویں کتاب تک لکھیں۔یہ کتابیں اس قدر مقبول ہوئیں کہ ہر مکتب،ہر اسکول، یہان تک سرکاری سطح پر جب درسی کتابیں تیار کی گئیں تو شامل نصاب کی گئیں۔
پروفیسر گو پی چند نارنگ لکھتے ہیں: بچون کا ادب اسماعیل میرٹھی کی ادبی شخصیت کا محض ایک رخ ہے۔ان کا شمار جدید نظم کے ہیئتی تجربوں کے بنیاد گزاروں میں بھی ہونا چاہیے، وہ صرف عجیب،چڑیا،گھوڑا،اونٹ،ملمع کی انگوٹھی،محنت سے راحت اور ہر کام میں کمال اچھا ہے کے شاعر نہیں تھے۔انہوں نے مناقشہ ہوا و آفتاب،مکالمہ سیف و قلم،باد مراد،شفق، تاروں بھری رات،آثار سلف، جیسی نظمیں بھی لکھیں۔آزاد، حالی نے جدید نظم کے لیے زیادہ تر مثنوی اور مسدس کے فارم کو برتا تھا، اسماعیل نے ان کے علاوہ مثلث، مربع، مخمس، مثمن، سے بھی کام لیا۔ انہوں نے بے قافیہ نظمیں بھی لکھی ہیں،]چڑیا کے  بچے[ اورایسی نظمیں بھی جن میں مروجہ بحروں کے اوزان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے مصرعہ ترتیب دے گئے ہیں ]تاروں بھری رات[، بعد میں حلقہئ ارباب ذوق کے شاعروں اور ترقی پسند شاعر وں نے آزاد نظم اور نظم معری کے جو تجربے کئے، ان سے بہت پہلے عبدالحلیم شرر،نظم طباطبائی اور نادرکاکوروی اور ان سے بھی پہلے اسما عیل میرٹھی ان راہوں سے کانٹے نکال چکے تھے،،مو صوف نے نثر کی بھی بیش قیمت خد مت کی ہے۔اسماعیل میرٹھی کو صرف بچوں کا شاعر سمجھناایسی ادبی و تاریخی غلطی ہے، جس کی اصلاح ہونی چاہیے۔
بچوں کے مشہور و معروف شاعر و ادیب مائل خیرا ٓ بادی نے رسالہ’نور رامپور‘میں بچوں کے لیے بہت ساری نظمیں لکھیں،انہوں نے سہ روزہ ’دعوت‘ میں بچوں کے شاعر اسماعیل میرٹھی کے متعلق تحریر کیا ہے، یہ ان کا حق بھی تھا کہ اسماعیل میرٹھی کے بعد”اس میدان میں اردو کے منفرد ادیب ہیں“۔]محمود عالم[
جب میں ۷۱۹۱ء تا ۵۲۹۱ ء لائر پرائمری،اپر پرا ئمری کلاسز میں زیر تعلیم تھاتو پرائمری اردو ریڈر اور اپر پرائمری درجات میں ’سواد اردو‘ پڑھتا تھا،ان کے اسباق اتنے دلچسپ اور دلکش تھے کہ آج مین نوے برس کا پیر ضعیف ہو نے کو ہوں اور بے شمار واقعات بھول چکا ہوں؛لیکن اردو ریڈروں اور’سواد اردو‘ کے اسباق یاد ہیں اور نظمیں بچوں کو سناتا ہوں تو بچے تالیاں بجا بجا کے خوش ہو تے ہیں اور میں ہوں کہ میرا دل بھی جھومتا ہے اور روح بھی سر شار ہو تی ہے۔
مولانا اسما عیل میرٹھی کا یہی قابل تحسین کارنامہ ہے کہ بچوں کے لیے نظمیں اور سبق آموزکہانیاں لکھیں،جو دل دماغ قلب و روح کو نشاط افزا ہوئی ہے۔ یہ موصوف کی خدا داد صلاحیت ہے،اسی طرح  بچوں کی نفسیات، افتاد طبع]عادت،فطرت[مزاج اور فطری صلاحیتوں کے پیش نظر جو ادب اطفال تخلیق کیا ہے،وہ ایسا گراں مایہ ادبی سرمایہ ہے، جس کی آج بھی ا ہمیت ہے۔ ان کی نظمیں،کہانیاں پڑھنے کے بعد ہربا شعور بچہ بڑا بد مست ہو جاتا ہے۔ ان کی نظموں میں سادگی، سلاست،بچوں کے فہم و ادراک کے مد نظر اختیار کی گیئں ہیں۔بچے بہت ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں اور بآسانی ازبر بھی ہو جاتی ہیں، آپ کی اسی جبلی خصوصیت نے اس دور کے تمام ادباوشعرا میں امتیازی منصب پر فائز کردیا۔
ادب اطفال پران کی لکھی گئیں تمام کتا بیں ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی اپنی اہمیت بر قراررکھے ہوئی ہے اور آج بھی دلچسپی کے ساتھ پڑھی جاتیں ہیں۔
یہ کہنا کہ اسماعیل میرٹھی صرف بچوں کے شاعر ہیں، صحیح نہیں ہے۔انہوں نے نظم نگاری میں مختلف تجربے کئے،ان کی اردو کی پہلی معری کہلاتی ہے۔ان کی نظموں میں ایسے متعدد اشعار موجود ہیں،جو آ بھی زباں زدخاص وعام ہیں۔
ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں
ناؤ کاغذ کی سدا چلتی نہیں
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
کبھی بھول کر کسی سے  نہ کرو سلوک ایسا
کہ جو تم سے کوئی کرتا تمہیں ناگوار ہو تا
خواہشوں نے ڈ بو دیا دل کو
ورنہ یہ بحر  بیکراں ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا کے تصنیفی کار ہائے نمایاں کا جائزہ لیا جاتاہے تومعلوم ہوتا ہے کہ وہ بیک وقت شاعر بھی ہیں اور نثر نگار بھی، اس عہد کے آپ پہلے ادیب ہیں، جنہوں نے باقاعدہ بچوں کے ادب کی جانب اپنی توجہ مبذول کی اور اپنے آپ کو  نہایت دلجمعی کے ساتھ منہمک کر لیا، نتیجتاً اس غرض کی تکمیل اردو زبان کی تدریسی ضرورتوں کو پورا کیا اورا س کے لیے باقاعدہ نظمیں اور اردو کی درسی کتابیں لکھیں۔
حکیم محمد سعید صاحب نے تحریر کیا:بڑے نام اور اچھے کام ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں، زمانہ اگر انہیں بھلانا چا ہے بھی تو نہیں بھلا سکتا،ماضی میں جو شخصیتیں گزری ہیں، جن کی یاد آج بھی دلوں میں تازہ ہے اور جن کے کاموں سے ہماری قومی اور فکری تاریخ کا ہر صفحہ روشن ہے،ان میں مولانا اسماعیل میرٹھی بہت نمایاں ہیں، ان کا وہ کام جس نے ان کو آج بھی زندہ رکھا ہے،وہ نئی نسل کے لیے ذہنی سانچے کی تیاری تھی، مولانا نے استعداد و لیاقت اور قلم کا سارا زور اسی کام پرپورے خلوص، مستعدی کے ساتھ صرف کیااور قوم کے نو نہالوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا۔بچوں سے مولانا کی دوستی بہت با مقصد تھی۔وہ قوم کو ذہنی، فکری اور عملی حیثیت سے جس مقام پر لانا چاہتے تھے اور اس کو جو کچھ دینا چاہتے تھے نو نہالوں ہی ذریعہ دے سکتے تھے، انہی کے ذہن کی تعمیر سے قوم تیار ہو سکتی تھی،،
سر زمیں میرٹھ کو کئی لحاظ سے اور کئی امور میں فوقیت حا صل ہے،خواہ برطانوی سامراج کے خلاف ہندستان کی پہلی جنگ آزادی کا آغاز ہو،یا اردو زبان کی تدوین کا مرحلہ ہو،یا علمائے دین کی تصنیف و تالیف کا ذکر ہو،یا شعرا و ادبا کی فہرست ہو، ان سب میں میرٹھ کو اولین مقام حاصل ہے۔اردو زبان و ادب کی عمومی خدمت کے ساتھ خصوصی طور پر تعلیمی و درسی نصاب کی تدوین کاذکر ہو اور ادب اطفال کی جانب توجہ ہو، ان امور کے حصول میں پہلی نظر میں مولانا اسماعیل میرٹھی کا نام ہی منظر شہود پر نظر آتاہے۔مولانا کی درسی کتابوں اور نظموں میں بچوں کی تربیت،ذہن سازی،کردار سازی کی بھر پور کوشش کی گئی ہے،ان کے شعری و نثری حصے میں کوئی نہ کویی نصیحت آمیز بات پوشیدہ ہے۔مولانا کی نظموں سے زندگی کی مسرت، طمانیت اور شادمانی کے سر چشمے نکلتے ہیں۔
 مو لانا اسماعیل میرٹھی غالب  کے ایک مستند شاگرد جن پر اردو ادب کو ناز ہے،، ڈاکٹر شوکت سبز داری نے ایک جگہ لکھا ہے:۔۔۔۔غالب کے شاگرد بے شمار ہیں۔میرٹھ نے بھی ان سے فیض اٹھا یااور ان کی صحبت اور تربیت نے اس سر زمین کے جن جوہروں کہ چمکایا، اس میں تین قابل ذکرہیں:نواب مصطفی خان شیفتہ،مولا نا محمداسماعیل میرٹھی اور حکیم فصیح الدین رنج۔
مولانا اسماعیل نے اپنے اتھاہ علم و فضل اور تد ریسی تجربوں کی روشنی میں نصابی کتابوں کا ایسا سلسلہ مرتب کیا،جس کی کوئی دوسری نظیر دریافت نہیں ہے۔ہاں، ایک نام مولانا محمد حسین آ زاد کا لیا جاسکتاہے،جنہوں نے نصابی کتابیں مرتب کیں ہیں؛لیکن ان کا دائرہ پنجاب کی حدود میں ہی سمٹ کر رہ گیااور ان کی تحریروں میں وہ بات پیدا نہ ہوسکی، جو اسماعیل صاحب کی تحریروں میں موجود ہے۔تعلیمی نقطہ نظر اور بچوں کی نفسیات کو سمجھ لینے سے آتی ہے،جوکہ مولانامحمداسماعیل کے ریڈروں کا طرۂ امتیاز ہے۔
ڈاکٹر عبدالوحید نے جدید شعرائے اردو میں اس جانب اشارہ کرتے ہوے لکھا ہے:مولانامحمداسماعیل نے جس انہماک  اور بچوں کے نفسیاتی مطالعہ کے بعد یہ کتابین لکھیں تھیں، وہ مولانا آزاد کو بھی نصیب نہ ہو سکا۔
مولوی عبد الحق لکھتے ہیں:ایک کام ان کا ایسا ہے جو اردو زبان کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہے گا، یہ ان کی وہ نظمیں ہیں،جو انہوں نے بچوں کے لیے لکھیں ہیں، ہما ری زبان میں ان کی نظیر نہ پہلے کبھی لکھی گئی تھیں، نہ ان کے بعد تک لکھی گئی۔ مرحوم کو اردو زبان پر بڑی قدرت حاصل تھی،ان کا کلام فصیح اورصحیح زبان کے لیے سند ہے۔
پروفیسراحتشام حسین نے ان کو سعدی ہنداور بچوں کے اسماعیل کہہ کر یاد کیا ہے۔ان کے الفاظ ہیں:  تعلیمی نقطہ نظرسے باضابطہ معیاری کوشش محمد اسماعیل کا حصہ تھا،سعدی ہند اور بچون کے اسماعیل دونوں لقب ان کے لیے مناسب تھے،اردو قواعد کی تدوین انگریزی گرامر کے اندازپر ان سے پہلے قواعد کی کتابین ترتیب ضرور دی گئیں؛ لیکن مولانا نے عربی صرف و نحو کے تتبع سے گریز کیا،جدت سے کام لیا اور زبان کی فطرت پر غور کرکے قواعد کے رسالے تالیف کئے۔
  مولاناکہ اس کام کی تعریف کرتے ہوے اکبر الہ آبادی نے اپنے مکتوب میں لکھا:آپ کی قابلیت مسلم،آپ کی محنت قابل دادہے۔مدت سے میراخیال تھا اورے کہ اردو کو قواعد فارسی و عربی کی قید سے آزادہوناچاہیے۔ البتہ ان زبانوں کی بعض ترکیبیں حسن،یا اختصار کی غرض سے ہم کو لینی چاہیے۔آ پ نے جو اصطلاحیں مقرر کی ہیں، سب اچھی ہیں،اسی طرح علا مہ اقبال، خواجہ غلام الحسنین، سید کرامت حسین نے بھی ا پنے  خطوط میں اس کام کی تعریف کی ہے۔ گویا اردو کے محبین کے لیے بے نظیر    و بے مثال   خدمت ہے۔  
اسماعیل میرٹھی حق گوئی،بہادری، شجاعت،انصاف پروری،یکجہتی،اتحاد،صبر وتحمل،علم دوستی، محنت میل ملاپ وغیرہ صفات بچوں میں اپنی نظموں، کہانیوں ومضامین کے ذریعہ پیدا کر نا چاہتے ہیں۔ درج ذیل کہا نیوں ونظموں میں بچوں کو ایسی نصیحت کی ہے، جن پیر عمل پیرا ہو  کر اپنا مستقبل سنوار سکتاہے،غور و فکر کی اشد ضرورت ہے،مثلا:محمود غزنوی اور بڑھیا،راجہ بکرماجیت،سر کشی کاثمرہ،بارش کا پہلا قطرہ،حکایت روباہ،حکایت کرد کور و بینا،یہ تمام عنوانات نظم و نثر کے ہیں۔
موصوف کی ایک نظم’کوشش، صبروتحمل و علم دوستی ذوق و شوق،استقلال کی نصیحت کا درس دے رہی ہے۔
اگر طاق میں تم نے رکھ دی کتاب٭ تو کیا دوگے کل امتحاں میں جواب
نہ پڑھنے سے بہتر ہے پڑھنا جناب ٭ کہ ہو جاوگے ایک دن کامیاب
کیے جاو کوشش! مرے دوستو
جو بازی میں سبقت نہ لیجاو تم٭خبر دار ہر گز نہ گھبراؤ تم
نہ ٹھٹکو نہ جھجکو نہ پچھتاؤ تم٭ذرا صبر کو کام فرماو تم
کئے جاو کوشش! مرے دوستو!
اسی پیرائے میں پوری نظم کہی گئی ہے۔
اردو ادب کا بے مثل و بے نظیر شاعر و ادیب یکم نومبر ۷۱۹۱ء کو دنیائے بقاکی جانب کوچ کرگیا، دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کی خد مات کو قبول فرمائے،اردو کی بقا کی کوشش مرحوم کے لیے بہترین خراج عقیدت ہوگی۔
قطروں ہی سے ہوگی نہر جاری
چل نکلیں گی کشتیاں تمہاری
اردو کی بقا و ترقی کے  لیے کوشش کرنے والوں کی نظر
٭  ٭  ٭