Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, August 24, 2018

لکھنو ضلع عدالت بم دھماکہ معاملہ

خصوصی جج نے دفاعی وکلاء کے دلائل کی مکمل سماعت سے قبل ہی فیصلہ سنا دیا !
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  
نچلی عدالت کے فیصلہ کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا :  گلزار اعظمی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔. . . . . .  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(صداۓوقت)
ممبئی ۔ 25؍اگست 2018
     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سال 2007ء میں لکھنؤ ڈسٹرکٹ کورٹ میں رونما ہونے والے بم دھماکہ معاملہ میں گذشتہ کل لکھئنو کے مضافات میں واقع موہن گنج علاقے میں قائم لکھنؤ سینٹرل جیل میں قائم خصوصی عدالت کی جج ببیتا رانی نے فریقین کے دلائل کی مکمل سماعت سے قبل ہی ملزمین کے خلاف فیصلہ سنا دیا جس کے بعد سے ملزمین کے اہل خانہ اور دفاعی وکلاء پریشانی کا شکار ہیں ۔(عموماً ایسا ہوتا نہیں ہیکہ عدالت فریقین کی بحث مکمل ہونے سے قبل ہی فیصلہ صادر کردے لیکن اس معاملے میں عدالت کے اس رویہ سے انصاف پسند عوام سکتے میں ہیں)
اس مقدمہ کا سامنا کررہے ملزم حکیم طارق قاسمی کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے مقدمہ کے تعلق سے مزید بتایا کہ حالانکہ اس بم دھماکہ معاملے میں کسی بھی شخص کو کوئی چوٹ وغیرہ نہیں آئی تھی اونہ ہی کسی بھی شخص کی بم دھماکہ کے مقام سے گرفتاری عمل میںآئی تھی اس کے باوجود پولس عملہ نے محض شک کی بنیاد پر حکیم طارق قاسمی، خالد مجاہد (مرحوم) کو 22؍ دسمبر 2007ء کو تعزیرات ہند کی دفعات 115/120B/121A/122/124/307 ، غیر قانونی سرگرمیوں کے روک تھام والے قانون کی دفعات 16/18/20/23 اور دھماکہ خیز مادہ کےء قانون کی دفعات 3/4/5 کے تحت مقدمہ قائم کرکے گرفتار کیا تھا ۔
گلزار اعظمی نے بتایا کہ ایڈیشنل سیشن جج لکھنؤ کے روبرو اس معاملے کی سماعت ہوئی جس کے دوران استغاثہ نے 44؍ سرکاری گواہوں کو عدالت میں پیش کرنے کے ساتھ 71؍ دستاویزات کو عدالت کے ریکارڈ میں درج کرایا جبکہ جمعیۃ علماء کی جانب سے ملزمین کے دفاع میں ایڈوکیٹ ارون سنگھ اور ایڈوکیٹ عارف علی بحث کرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری گواہوں سے جرح بھی کی تھی ایڈوکیٹ شعیب نے بھی ملزمین کے اختر اور دیگر کے لیئے بحث کی تھی۔ دفاعی وکلاء کے علاوہ ملزم حکیم طارق قاسمی نے بھی عدالت کی اجازت اور دفاعی وکلا ء کی معاونت سے عدالت کے سامنے اپنے دلائل پیش کیئے تھے۔
گلزار اعظمی نے کہا کہ 23؍ اگست کی تاریخ عدالت نے اس لیئے مقرر کی تھی کہ اگر فریقین کو مزید زبانی بحث یا تحریری بحث عدالت میں داخل کرنا ہو تو کریں لیکن کل اس وقت دفاعی وکلاء چونک گئے جب عدالت نے ملزمین کو قصور وار ٹہراتے ہوئے فیصلہ سنادیا حالانکہ ابھی اس پر فیصلہ ہونا باقی ہیکہ ملزمین کو کتنی سزائیں ملی ہیں ۔
گلزار اعظمی نے کہا کہ عدالت کے رویہ سے انہیں بھی سخت مایوسی ہوئی ہے اور انہوں نے فیصلہ کیا ہیکہ عدالت کا مکمل فیصلہ آجانے کے بعد ہائی کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔
ایڈوکیٹ عارف علی نے کہاکہ ان کی بحث کے اختتام کے بعد عدالت نے اپنی روزانہ کی کارروائی میں یہ درج کیا تھا کہ 23؍ اگست کو فریقین کی بقیہ جرح کے بعد عدالت اپنا فیصلہ محفوظ کرے گی لیکن 23؍ اگست کی دوپہر عین عدالت کے وقت کے اختتام سے قبل عدالت نے اپنا فیصلہ سنادیا جس سے وہ خود بھی چونک گئے ہیں کیونکہ 23؍ اگست فیصلہ صادر کرنے کی تاریخ مقرر کی نہیں گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔