Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, August 29, 2018

ترکی کی محبت میں ؟؟

ترکی کی محبت میں غیر معتبر ویڈیو اور غیر اقتصادی ماہرین کی آرا کے بغیر پھیلائے جا رہے و دئیے جا رہے مشوروں کے متعلق ایک اہم تحریر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایم ودود ساجد کی قلم سے۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
ترکی میری دلچسپی کے موضوعات میں سے ایک ہے۔لیکن ’امیرالمومنین ‘کے غیر مشروط عقیدت مندوں کاہجوم دیکھ کراس موضوع پرایک عرصہ سے ضبط کا باندھ لگارکھا ہے۔آج بھی مجھے ترکی کے اُن سیاسی احوال پرکچھ نہیں لکھنا جن پرحقائق کی روشنی میں بات کرنے سے امیر المومنین کے عقیدت مند برافروختہ ہوکر مغلظات کی جھڑی لگادیتے ہیں۔۔۔

رجب طیب اردوگان اس وقت ترکی کے ’قانونی‘ حکمراں ہیں۔ترکی کے عوام نے انہیں حالیہ صدارتی الیکشن میں 50فیصد سے زیادہ ووٹ دئے ہیں۔ وہ اس الیکشن سے پہلے ایک اور ریفرینڈم کے ذریعہ لامحدوداختیارات بھی حاصل کرچکے ہیں اورعملاً 2029تک انہیں صدارت کے عہدے سے نہیں ہٹایا جاسکتا۔

لیکن زیر نظر سطور میں مجھے اردوگان کے تعلق سے کوئی سیاسی تجزیہ پیش نہیں کرنا ہے۔مجھے امریکہ اور ترکی کے درمیان جاری معاشی‘اقتصادی اور تجارتی چشمک پر بھی کچھ نہیں کہنا ہے۔ان سطورکو لکھنے کا محرک ہندوستان میں جاری ایک نیا سلسلہ ہے۔مختلف افراداور گروہ‘مختلف ذرائع کا استعمال کرکے ہندوستان کے عوام سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ ترکی کی مددکرنے کے لئے بڑے پیمانے پرترکی کی کرنسی’لیرا‘خرید لیں۔ایسی اپیلوں کی ویڈیوز بھی بناکر (VIRAL)پھیلائی گئی ہیں۔ان ویڈیوز میں اسلام کا حوالہ دے کر ہندوستانی مسلمانوں سے جذباتی اپیل کی گئی ہے کہ وہ جتنی تعداد میں ممکن ہو لیرا خرید کر رکھ لیں۔کہا گیا ہے کہ اس سے ترکی کو فائدہ ہوگااور امریکہ کو نقصان ہوگا۔یہی نہیں ایک ویڈیو میں توخلافت تحریک کے دوران ہندوستان کی مسلم خواتین کے ذریعہ سونے چاندی کے زیورات اپنے ہاتھوں‘پیروں اورگلے سے نکال کرترکی کو دینے کا جذباتی حوالہ بھی دیاگیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ترکی آج تک اس امدادکو بھولا نہیں ہے۔اور آج بھی اسی طرح کی امدادکی ضرورت ہے۔

میں اس وقت ذاتی طورپر اس موقف کا حامل ہوں کہ ترکی کی مددکی جائے۔امریکہ کے بددماغ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ترکی کے اسٹیل کی برآمدات پر محصول بڑھاکرترکی کے لئے مشکلات کھڑی کردی تھیں۔لہذا جواباً ترکی نے بھی امریکی موٹر سائکلوں اور دیگر مصنوعات کی برآمد پر محصول بڑھادیا تھا۔یہ محض ’جیسے کو تیسا‘والی صورت تھی۔محصول بڑھانے کے بعد کیا مشکلات ہوں گی یہ نہ امریکہ کے صدر نے سوچااور نہ ترکی کے صدر نے اس پر غور کیا۔لیکن چونکہ اب دونوں کے لئے اضافی محصول وقار اور انا کا مسئلہ بن گیا ہے اس لئے دونوں میں سے کوئی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔۔

میں اقتصادیات کا طالب علم نہیں ہوں۔لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ امریکہ اور ترکی کے اس عمل سے خود ہندوستان کی کرنسی کی قدر بھی متاثر ہوئی ہے۔اب جو لوگ ترکی کی کرنسی خرید کر رکھنے کی اپیلیں کر رہے ہیں ان سے میرے دو سوالات ہیں:

1عام آدمی لیراکس طرح خریدے اور کہاں سے خریدے؟

2فرض کرلیجئے کہ میں ایک ہزار روپیہ کے لیرا خرید لیتا ہوں تواس سے ترکی کو کیسے اورکتنا فائدہ ہوگا ؟

میرا خیال ہے کہ اس طرح کی اپیلیں کرنے والوں کے پاس ان دونوں سوالوں کا کوئی مصدقہ‘معقول اور مسکت جواب نہیں ہے۔

اب یہ دیکھتے ہیں کہ ہم لیرا کس طرح خرید سکتے ہیں۔

1ہمیں لیرا سرکاری طورپربنکوں سے خریدنا ہوگا۔یہی جائز اور قانونی راستہ ہے۔

2یا پھر غیر سرکاری طورپریعنی بلیک مارکیٹ سے خریدنا ہوگا۔اور یہ ناجائزاور غیر قانونی راستہ ہے۔

سرکاری طورپریعنی جائز راستہ سے لیرا خریدنے کے لئے آپ کے پاس پاسپورٹ‘ترکی کا ویزا اورترکی کا ہوائی ٹکٹ ہونا ضروری ہے۔ظاہر ہے اس صورت میں آپ کو اس رقم کا ذریعہ بھی بتانا ہوگا۔آپ نہیں بتائیں گے تو حکومت کے مختلف محکمے خود آپ سے معلوم کرنے آجائیں گے۔ اور اگر آپ جائز راستہ سے نہ خرید کربلیک مارکیٹ سے خریدیں گے تو آپ کے پاس اس امر کی کیا ضمانت ہے کہ یہ لیرا مصنوعی نہیں ہیں؟کیا عجب کہ خود ترکی کے دشمنوں اور خاص طورپر امریکہ نے ہی ترکی کی مصنوعی کرنسی ہندوستان کی بلیک مارکیٹ میں ڈال دی ہو۔ایسی صورت میں آپ نہ صرف اپنا نقصان کرلیں گے بلکہ خود ترکی کا بھی نقصان کریں گے۔اور یہ نقصان اس نقصان سے کہیں بڑا ہوگا جو امریکہ اور ترکی کی چشمک سے ترکی کو پہنچ رہا ہے۔

آئیے اب جائزہ لیتے ہیں کہ پھر وہ کون سا پرامن‘موثراور خطرہ سے پاک تیسراراستہ ہے جس کو اختیار کرکے ہم ترکی کی مددکرسکتے ہیں؟

1 ایک راستہ تو یہ ہے کہ صاحب ثروت اور تاجر مسلمان ترکی سے اس کی مصنوعات برآمد (IMPORT)کریں۔

2دوسرا راستہ یہ ہے کہ عام مسلمان ترکی کی مصنوعات خریدیں۔ترکی بہت سی حلال مصنوعات بھی بناتا ہے۔ان حلال مصنوعات کو خریدکر آپ براہ راست اور فی الفورترکی کو فائدہ بھی پہنچائیں گے اور خود اپنے ممکنہ نقصان کے اندیشہ سے بھی بچ جائیں گے۔آپ کو اس کے لئے نہ حکومت کے محکموں کو جواب دینا ہے اور نہ ہی ان مصنوعات کو خرید کر دیر تک رکھنے کا جوکھم مول لیناہے ۔اس وقت ترکی کی کرنسی کی قدرگری ہوئی ہے۔لہذا اس کی یہ مصنوعات بھی سستی شرح پر ہندوستان آئیں گی۔اس کے علاوہ ترکی کو مددپہنچانے کا کوئی اور راستہ خطرہ سے خالی نہیں ہے۔

مولانا عبدالحمید نعمانی تو کہتے ہیں کہ ہمیں دوسرے ممالک کے تعلق سے بہت زیادہ سرگرم نظر نہیں آنا چاہئے۔ملک کے دومعروف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس کمال فاروقی اور کامل قریشی کی بھی یہی رائے ہے۔اس وقت ملک کے جو حالات ہیں ان کے پیش نظر یہی مشورہ درست ہے۔ترکی بہت بڑا ملک ہے۔امریکہ کے مقابلے میں ایران اس کی پشت پر کھڑا ہے۔قطر نے بھی اس کی بڑے پیمانے پرمالی مددکردی ہے۔یوروپی ممالک کے صاحب ثروت باشندے ترکی کے بازاروں کے سب سے بڑے خریدار ہیں۔ایسے میں ترکی آج نہیں تو کل مشکلات سے باہر آجائے گا۔۔۔۔ لیکن یہاں ہندوستان میں جولوگ بغیر سوچے سمجھے مہمات چھیڑے ہوئے ہیں وہ کل اگر مشکل میں پھنس گئے تو انہیں نہ ترکی بچانے آئے گا اور نہ ایران وقطر۔۔۔۔۔۔

صدائے وقت۔