Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, August 12, 2018

ایکبار پھر مسلمانوں کے دل آزاری کی کوشش۔

ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کی ناپاک جسارت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,۔۔
تحقیق و تحریر ازعثمان صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
30 ستمبر 2005 وہ سیاہ دن تھا جب ڈنمارک کے ایک اخبار Jyllends-Posten کے ثقافتی ایڈیٹر Fleming Roose کی سرکردگی میں نبی پاک علیہ السلام کے گستاخانہ خاکے بڑے پیمانے پر شائع کئیے گئے۔
ہوا یوں کہ اس ایڈیٹر کے پاس ایک بچوں کی کہانیوں کا مقامی مصنف Carey Blotken آیا اور اپنی خواہش بتائی کہ میں نے بچوں کے لئے ایک کہانی لکھی ہے جس کے لئے مجھےمسلمانوں کے نبی علیہ وسلم کے خیالی خاکے درکار ہونگے۔چناچہ ایڈیٹر کی جانب سے اخبار کے کارٹونسٹ کو ٹاسک دے دیا گیا ۔ اس اخبار کے پینل پر 37 کارٹونسٹ تھے مگر 12 نے حامی بھری۔خاکوں کی صورت قبیح فعل جب سامنے آیا تو مصنف کو  اسےدینےکےبعد ایڈیٹر کے دماغ میں شیطانی منصوبہ آیا مشاورت کے بعدطے پایا کہ ہم ان گستاخانہ خاکوں کی تشہیر اپنے ثقافتی صفحےپربھی کیوں نہ کریں ؟
چناچہ اس اخبار کے ثقافتی صفحے پر ہمارے پیارے آقا سیدی سرکار علیہ وسلم کے 12 خاکے شائع کردئیے۔ اس کے ساتھ ہی آزادی صحافت کے موضوع پر ایک متنازعہ مضمون بھی شائع کیا گیا۔
اس اخبار کی اشاعت کم وبیش 50,000 پرچے سے زائد نہ تھی۔
اخبار ڈنمارک میں متعین مسلمان ممالک کے سفرا کے ہاتھ لگ گیا۔ چناچہ مناسب انداز میں احتجاج کے لئے مسلم ممالک بشمول پاکستان کے سفارت کاروں نے ڈینیش وزیراعظم Andress Fogh Rasmussen سے احتجاج کے لئے ملاقات کرنا چاہی مگر اس نے انکار یہ کہہ کر کردیا کہ آزادی اظہار پر ہم سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ معاملہ طول پکڑنےلگا گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے یورپی صحافتی برادری ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنے لگی وقت گزر رہا تھا گستاخی کےاس عمل کے پیچھے آزادی صحافت کا بیانیہ پورے یورپ میں پھیلایا جانے لگا۔ مسلمانان عالم میں بھی غیض و غضب شدت سے بڑھنے لگا جگہ جگہ احتجاج شروع ہوگیا اس اشاعت کے 5 ماہ بعد 4 فروری، 2006 کو ڈینیش اخبار کے بدبخت ایڈیٹر نے BBC کے مشہور زمانہ پروگرام Hard Talk میں کہا کہ ”ہم تو اس توہین کا سب کو عادی بنانا چاہتے ہیں اگر ہم چاہیں تو ہم ہرہفتے ایسے گستاخانہ خاکے شائع کریں کہ یہ ہمارا صحافتی حق ہے“
یہ دل آزاری مسلمانان عالم کے لئے کیا کم تھی کہ ناروے کے انٹر نیٹ اخبار The Magzinet نے یہی ڈینیش اخبار والے خاکے پوری دنیا تک پہنچانے کی غرض سے انٹرنیٹ پر شائع کر ڈالے۔
فرانس کے اخبار The France Soir نے بھی انہی ڈینیش خاکوں کو شائع کیا ساتھ لکھا”توہین کا حق جمھوری آزادی میں سے ایک ہے“
بلکہ ایک خاکہ ایسا شائع کیا جس میں حضرت عیسیَ و حضرت موسیَ علیہ السلام کو بادلوں میں اڑتے دکھایا گیا معاذاللہ۔ ساتھ لکھا ہم صحافی ہیں ہمیں تو خدا کی توہین کابھی حق ہے۔
ڈینیش گستاخانہ خاکوں کو چھاپنے کی ناپاک صحافتی مہم شدومد سے پورے یورپ میں جاری کردی گئی۔ یورپ کے  30 ممالک ہنگری، ہالینڈ، چیک ریپبلک، سوئٹزرلینڈ اور اسرائیل کے اخبارات جن میں بالخصوص جرمنی کے اخبار Diewelt سپین کے Elperiodico اٹلی کے اخبار Lastampa جیسے بڑے اخبارات سرفہرست ہیں نے ڈینیش گستاخانہ خاکے شائع کئیے۔
اکثر نے تو یہاں تک لکھا کہ ”ہمیں تو خدا کی تصویر بنانے کا بھی حق ہے “
بعض نے اپنی یورپی عوام سے کہا ”آپ ہمیں خاکے بھیجیں ہم شائع کریں گے“
ایک صحافتی کمپنی 1and1 نے 2 سالہ معاہدے کے تحت یہ تمام خاکے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم، ازواج مطہرات و دیگر شعائر اسلام حج نماز روزہ وغیرہ کے حوالے سے زہریلا مواد شائع کردیا۔
اس سب پر چونکہ ڈنمارک مرکزی ملزم وفساد کی جڑ کی حیثیت سے سامنے آیا تھا تو اس کے خلاف مسلمانوں نے معاشی بائیکاٹ کی مہم شروع کر دی۔ اسٹراس برگ میں یورپی وزرا نے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کو آزادی صحافت قرار دیتے ہوئے قرار داد منظور کی جس میں پریس کی آزادی مطلب (توہین رسالت جیسے عوامل) پر سختی سے کاربند رہنے کا اعلان کیا۔ تمام دنیا کے مسلمانوں کی صدائے احتجاج کو مسترد کر دیاگیا ساتھ ہی ڈنمارک کے خلیجی مسلمان ممالک کے جاری معاشی بائیکاٹ کے بارے یہ دھونس دی کہ یہ پورے یورپ کا بائیکاٹ متصور ہوگا۔ اسی طرح یورپی کمیشن کے صدر Jose Menoel نے ڈنمارک سے اظہاریکجہتی کی اور اسے معافی نہ مانگنے کا مشورہ دیا۔
اٹلی کا ایک وزیر ایسی شرٹ پہن کر قومی ٹی وی پر ظاہر ہوا جس میں گستاخانہ خاکے بنے ہوئے تھے۔ امریکہ کے وائٹ ہاؤس کےترجمان نے مسلمانان عالم کے احتجاج کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ ”احتجاجی مظاہروں سے مسلمانوں کےاس دعوے کی تردید ہوگئی ہے کہ یہ امن پسندہیں“ حالانکہ یہ مسلمانان عالم کا احتجاج ہی تھا کہ حکومتِ ڈنمارک یہ کہنے پر مجبور ہوگئی کہ ”گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد اسے دوسری جنگ عظیم سے بھی بدتر صورتحال کا سامنا ہے“
ڈنمارک ڈیری مصنوعات کی بدولت دنیا میں جانا جاتا ہے مسلمان ممالک نے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر اس کا معاشی بائیکاٹ کر دیا۔ اس حوالے سے ڈنمارک کی معیشت کو 8 دن میں 5.60 کروڑ ڈالرز کا خسارہ ہوا۔ عرب ممالک کے 50,000 سٹورز سے ڈنمارک کا کاروباری ٹرن اوور 1ملین ڈالر سے کم ہوگیا۔
یہ معاشی ضرب اس گستاخانہ خاکوں کے جواب میں یورپی گستاخ ممالک کو  زبردست پیغام دے گئی۔ بالاخر ڈنمارک کو معذرت کرنا ہی پڑی۔
اس طرح کے قبیح افعال ویسے تو روزبروز جاری ہی رہے مگر 14 جنوری، 2015 کو مشہور مزاحیہ اخبار Charlie Hebdo نے نبی پاک کی شان میں پھر بڑے پیمانے پر ناپاک خاکے شائع کئے۔
مسلمانوں میں ایک بار پھر سخت تشویش کی لہر دوڑ گئی۔
7 جنوری ، 2015 اخبار کے دفتر پر ایک قاتلانہ حملہ کیا گیا جس میں اخبار کے 12 صحافی سمیت دیگر عملہ واصل جہنم ہوئے۔
اس قاتلانہ حملے کے بعد فرانس بھر میں اس اخبار کے حق میں عوامی مہم چلائی گئی اخبار میں ایک بار پھر یہ خاکے پورے ملک سے بطور مہم چندہ جمع کر کے شائع کئیے گئے اور اسکی 3 لاکھ سے زائد کاپیاں ملک بھر کے بس سٹاپس ریلوے سٹیشنز دیگر عوامی مقامات پر مفت تقسیم کی گئی۔ 12 افراد کی موت پر پورے ملک میں سرکاری سوگ منایا گیا۔
اب آتے ہیں ہالینڈ میں جاری خاکوں کے مقابلے کی جانب تو اس بار یہ ناپاک جسارت  منفردانداز میں جاری ہے۔ یہ فعل اب پچھلی ہر بار کی طرح کسی اشاعتی ادارے کی جانب سے نہیں بلکہ ہالینڈ(نیدرلینڈ) کی ایک منظم اسلام مخالف سیاسی پارٹی کی جانب سے کیا جارہا ہے۔
موجودہ ناپاک جسارت کے حوالے سے ناچیز کی تحقیق ملاحظہ کیجیے
13 جون، 2018 کو ہالینڈ میں باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت گزشتہ عام انتخابات میں دوسرے نمبر پر آنے والی اسلام مخالف سیاسی جماعت دی فریڈم پارٹی کے سربراہ Geert Wilders نے ہمارے ملجا و ماوی سب کی عزتوں سے زیادہ عزت والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف گستاخانہ خاکوں پر مبنی ایک مقابلے کا اعلان کیا ہے ان تمام خاکوں کو نمائش میں ظاہر کرنے کا عندیہ دیاگیا ہے۔ رمضان شریف کے مہینے سے شروع ہونے والی اور دو ماہ سے جاری اس مہم مقابلے کے نتائج و نمائش کی تاریخ کا اعلان تاحال نہیں کیا گیا ہے ۔
ایک برطانوی جریدے “The Week” نے کچھ دن قبل اس مقابلے کے حوالے سے ایک مفصل رپورٹ جاری کی ہے۔ یہ سب اب پہلی بار ایک منظم و مستحکم سیاسی جمھوری پارٹی کے زریعے کیا جا رہا ہے جسکی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ یقینناً یہ اقدام پوری دنیا کے مسلمانوں کو اضطراب میں مبتلا کررہا ہے ایسی مسلمان مخالف مہم اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں دریدہ دہنی یقینا دنیا بھر میں نقص امن کی منظم سازش ہی کہی جاسکتی ہے۔
ڈچ حکومت کی کاونٹر ٹیرارزم سے درخواست کی گئی ہے کہ اس نمائش کو سیکیورٹی فراہم کی جائے،
ہالینڈ کی حکومتی پارٹی بھی اپوزیشن کی اس ناپاک جسارت کی حامی بن گئی اور حکومتی پارٹی کی درخواست پر اور سیکیورٹی اداروں کے باور کروانے پر اس نمائش میں کچھ سیکیورٹی حصول کے لئے تاخیر کی گئی ۔
تازہ اطلاعات کے مطابق اب اس مقابلے کے لئے آن لائن گستاخانہ خاکوں کے ساتھ حصہ لینے کا بھی اعلان کردیا گیا ہے، اس سلسلے میں ڈچ حکومت نے باقاعدہ اعلان کیا ہے کہ اسے سوشل میڈیا پر اور براہ راست بھی دکھایا جائے گا۔
مغربی ملک ہالینڈ کا یہ مکروہ فعل ہم سب مسلمانان عالم کے لئے سخت تکلیف دہ ہے ۔ہماری سب سے مقرب ہستی سرکار عالی وقار علیہ وسلم کی اس طرح سے گستاخی کا منصوبہ باقاعدہ ریاستی سطح پر منعقد کیا جانا مذھبی انتشار کو دعوت دینےکے مترادف ہے۔
ڈچ حکومت نے اپوزیشن سے مشاورت کے بعد ان گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کے ججز کا بھی اعلان کردیا ہے، ڈھٹائی کا مظاہرہ دیکھیں کہ جیوری کا ایک جج بوش واسٹن (Bosch Fawsten) ہے جس نے 2015 میں امریکہ میں ایک ہیومن رائٹس (امریکن فریڈم ڈیفنس انسٹیٹوٹ) کے تحت منعقد کردہ ایک نمائش میں گستاخانہ خاکوں کے مقابلے میں اول پوزیشن حاصل کی تھی۔
اب تھوڑی معلومات  اپوزیشن جماعت کے سربراہ Geert Wilders اور اس کی پارٹی کےبارے میں، گزشتہ الیکشنز میں پارلیمنٹ میں آنے کے بعدسب سے پہلے جو بل ڈچ پارلیمنٹ میں پیش کئے ان میں قرآن مجید کی ترسیل و اشاعت کا روکنا تھا Geert Wilders نے ہی پیش کئے تھے۔ ہالینڈ میں خواتین کے پردے پر پابندی کا بل بھی اسی نے پیش کیا تھا ۔
دنیا بھر کے مجموعی آبادی کے پانچویں حصے سے تعلق رکھنے والے 1 ارب 80 کروڑ مسلمانوں کی مذہبی دل آزادی کا سبب ریاستی سطح پر کیا جارہا ہے۔
امت مسلمہ کو اس واقعے پر پٗر امن طریقے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت کا ثبوت دینا چاہیئے ۔ ہمارے پاکستان کی حکومت کو بھی اس حوالے سے مناسب اقدامات کرنا ہونگے۔
ہمیں ایک معتبر اور باوقار انداز میں ہالینڈ کے سفیر اور سفارت خانے تک رسائی کرتے ہوئے اپنا احتجاج ای میل فون سوشل میڈیا اور دیگر زرائع سے پہنچانا چاہئے۔ اس آرٹیکل میں گزشتہ عشرے میں مکروہ افعال کے حوالے سے ڈنمارک کے کردار پر مسلمانان عالم کے ردعمل کے طور پر معاشی بائیکاٹ کے حوالے سے میں نے کچھ تحقیق پیش کی تھی آئندہ عنقریب ہالینڈ کی معاشی حالات اور مصنوعات کے حوالے سے ایک تحقیق پیش کرنے کی سعی کروں گا تاکہ منظم انداز میں سوشل میڈیا میں ہالینڈ کے حوالے سے بھی کوئی معاشی بائیکاٹ یا اس قسم کی موثر مہم چلائی جاسکے بہرحال اس وقت ہر پلیٹ فارم پر موثر احتجاج کی اشد ضرورت ہے۔ پرامن انداز میں اپنی آواز اٹھائیں۔ توڑ پھوڑ سے گریز کرتے ہوئے بھرپور انداز میں احتجاج اس معاملے میں ہالینڈ کو پسپائی پر ایسے ہی مجبور کر سکتا ہے جیسے ڈنمارک کو عالم اسلام سے معافی مانگنی پڑ گئی تھی۔
عالم اسلام کے مقتدر حکمرانوں کی بے حسی ہٹ دھرمی غفلت مغرب نوازی سے ہمیں کوئی امید نہیں ہمیں فرداً فرداً بھی اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔
اللہ عزوجل و اسکے محبوب علیہ وسلم آپ کے حامی ہوں۔
لبیک لبیک لبیک یارسول اللہ
خصوصی کاوش از
عثمان صدیقی
ریسرچ اینالسٹ.