Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, August 9, 2018

قربانی پر ایک ایمان افروز تحریر۔

ہے ادائے عاشقانہ,
نہ کھیل ھے نہ تماشہ
➖➖➖➖➖➖

محمدعدنان وقارصدیقی*

۔۔۔۔۔ ۔۔ صداۓ وقت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہ ذی الحجہ کی آمد آمد ھے, حیوانات کی منڈیاں لگنی شروع ہوچکی ہیں, جانوروں کی خریداری کی بات سب کی زباں زد ھے, سب اپنی اپنی مالی استطاعت کی بقدر عید قرباں کی تیاریوں میں جٹنے کو ہیں, اہل اسلام میں خوشیوں کے شادیانے, بجنے والے ہیں, نرالی ادائے عشق کے اظہار کی تیاری ھے, وہ لوگ بہی ان مکرم و محترم حیوانات کی خدمت و دیکھ بھال کے لیے کوشاں و کمر بستہ ہیں جنکو جانوروں کے فضلات سے گھن و متلی آتی ھے؛ کیونکہ اپنی تمام تر عادتیں و طبیعتوں کے تقاضے بہی اس عید قربان پر قربان کیے جاتے ہیں, خواتین کو در و دیوار کی صفائی و نظافت کا بہت خیال ہوتا ھے؛ لیکن اس موقع پر سب اپنا اپنا محبوب جانور  خوشی خوشی اپنے آشیانہ میں لاتے ہیں اور ان کے فضلات و بول و براز کی صفائی میں ذرا پیشانی کو شکن آلود نہیں کرتے, وجہ ظاہر ھے کہ ان حیوانات کی ﷲ اور اسکے حکم سے نسبت ہوگئ ھے, اور اس نسبت کی بدولت ان کو ایک مقام و مرتبہ حاصل ہوگیا ھے, سب کے قلوب میں ان کی محبت پیوست ہوگئی, اور ان کی خدمت باعث سعادت بن گئی۔

ایک طرف تو قربانی و عید الاضحی کی آمد سے ہر دل مومن فرحاں و شاداں ھے, اور بے صبری سے سنت ابراہیمی پر عمل پیرا ہوکر رب کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوشاں و جویا ھے؛ لیکن دوسری طرف کچھ نابلد اور اسلام سے بغض رکہنے والے ملحدانہ نظریات کے افراد اس کار عظیم اور اہم عبادت پر  اعتراضات و سوالات کرکے سادہ لوح مسلمانوں کو شک کے گڑھے میں دھکیل کر اپنی مذموم و مسموم کوششوں کو بار آور کرنا چاہتے ہیں,  اور اپنے فاسد خیالات کو اسلامی معاشرے میں عام کرنا چاہتے ہیں۔

*ہمیں تو حکم ھے حکم پورا کرنے کا*

  قربانی ﷲ و رسول کا حکم ھے, جسکا مقصد رضائے خداوندی کا حصول اور بارگاہ صمد میں مقربین کی فہرست میں نام درج کروانا ھے یعنی  ”اللہ کے حکم کو حکم سمجھ کر پورا کرنا ھے ، اس کی مصلحتوں اور حکمتوں کے پیچھے نھیں پڑنا ھے“،

جیساکہ مذکور ہوا کہ اس ماہ کے شروع ہوتے ہی جدید تہذیب کا دلدادہ اور مغربیت سے متأثر ذہنیت رکھنے والا شخص سادہ لوح اور مذہب پسند مسلمانوں کا ذہن خراب کرنا شروع کر دیتا ہے کہ قربانی کی وجہ سے جانوروں کی نسل کُشی ہوتی ہے، لاکھوں لوگوں کی یہ رقمیں بلا وجہ ضائع ہوتی ہیں، اس کے بجائے اگر اتنا مال رفاہِ عامہ کے مفید کاموں ، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے خرچ کیا جائے ، تو معاشرے کے بہت بڑے غریب اور مفلس طبقے کا بھلا ہو جائے گا، یہ افراد بھی زندگی کی ضروری سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکیں گے، وغیرہ وغیرہ، اس طرح منکرینِ قربانی اپنی عقلِ نارسا سے کام لیتے ہوئے بزعمِ خود قربانی کے نقصانات اور ترکِ قربانی کے فوائد بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ نیز ذبح حیوانات کو ایک ظالمانہ بہیمانہ اور وحشیانہ عمل باور کراتے نظر آتے ہیں؛  اس کی وجہ سے عام مسلمان ان نام نہاد دانشوروں کے زہریلے پروپیگنڈے اور بہکاوے میں آ کر اسلام کے اس عظیم الشان حکم کو ترک کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔

*قربانی کیا ھے*

یوں تو ابو البشر حضرت آدم کے وقت سے ہی قربانی کا سلسلہ جاری ھے؛ لیکن خدا کے نام پر قربانی کا حکم سب سے اول حضرت سیدنا ابراہیم خلیل ﷲ  کو دیا گیا وہ خواب میں اپنے لخت جگر, نور نظر پیارے فرزند اسماعیل ع کو ذبح کرنے کا خدائی اشارہ  پاتے ہیں, اور فرزند سے گفت و شنید کرتے ہیں : بیٹے میں نے خواب میں دیکہا کہ تجہے ذبح کرتا ہوں, اس امر کو تعمیل کی منزل تک پہونچانے کے متعلق تو کیا کہتا ھے؟ (الصٰفٰت:102)

تاریخ عالم میں اطاعت شعاری اور تابعداری کے انوکھے باب کا اضافہ ہوا, لخت جگر نے والد بزرگوار کے خواب کو جہٹلایا نہیں, نہ ہی اسکی تاویلات پیش کیں,نہ کوئی بہانہ تراشا کہ خود کو بچاسکیں؛ بلکہ بڑی لجاجت اور خوش دلی سے فرمایا:  ابا جانی! جو حکم ربی ملا ھے بلا تامل کر گزریئے, جان پدر کی زباں پر شکوہ یا ماتھے پر شکن کی ایک بہی سلوٹ نہ پاؤگے( الصفت:102)

مقصد اس امر سے خدا کا بیٹے کو درحقیقت ذبح کرانا نہیں تہا؛ بلکہ اطاعت گزاری کی اعلی مثال رہتی دنیا تک کے لوگوں کو دکہانی تہی, اور اس پر ابھارنا تہا کہ فرمان رب کے آگے تمام تر جذبات و علاقات کو قربان کرنا ھے, امر خدا کو اعلی و بالا رکہنا ھے, اور اسماعیل کے فدیہ میں قربان کیے جانیوالےجانور کے ذبح کی سنت اور محبوب عمل آئیندہ جاری و ساری رکہنا ھے۔

*قربانی کے فضائل*

  جس کام کا حکم من جانب ﷲ بذریعہ وحی انبیاء کو ملا کرتا ھے گو وہ انسانی طبیعتوں کو بار گزرے؛ لیکن وہ شاق و مشکل نہیں ہوتا, اگر اطاعت و محبت خداوندی کا سنگم ہو تو ہر حکم کی تعمیل میں انسان پیش پیش ہوتا ھے, اور اس پر ابہارنے کے لیے کچھ انعامات و فضائل اور اجر وثواب کا مژدۂ جانفزا وقت کے انبیاء و رسل کے ذریعہ ملا کرتا ھے, تو قربانی بہی بہت سے بڑے فضائل کی حامل ایک عبادت ھے, اسی کے پیش نظر ایام عید میں اس عمل کو سب سے بہترین عمل قرار دیا گیا, اور خون کے قطرات زمین پر گرنے سے قبل عندﷲ مقبولیت کا پروانہ پالیتے ہیں, یہ نوید مسلمانوں کو سنائی گئی:

🔰عن عائشة - رضي الله عنها - قالت : قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - : ( ما عمل ابن آدم من عمل يوم النحر أحب إلى الله من إهراق الدم ، وإنه ليؤتى يوم القيامة ، بقرونها وأشعارها وأظلافها ، وإن الدم ليقع من الله بمكان قبل أن يقع بالأرض ، فطيبوا بها نفسا )

(ترمذی. حدیث: 1493,ط: دار الغرب الاسلامی,بیروت)

چونکہ حضرت ابراہیم ع اہل شرک کے یہاں بہی مقدس و محترم شخصیت ہیں, تو اس قربانی کی اہمیت و فضیلت میں احادیث میں ان کے حوالہ سے بہی ترغیب وارد ہوئی ھے, کہ یہ تمہارے باپ (ابراہیم) کی سنت ھے, اور جانور کے بالوں کے بدلے نامہ اعمال میں اجر و نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں:

🔆 عَنْ  زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ , قَالَ : قُلْنَا " يَا رَسُولَ اللَّهِ ،  مَا هَذِهِ الأَضَاحِي ؟ قَالَ  : سُنَّةُ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلامُ . قَالَ : قُلْنَا : فَمَا لَنَا مِنْهَا ؟ قَالَ : بِكُلِّ شَعْرَةٍ حَسَنَةٌ . قُلْنَا : وَالصُّوفُ , قَالَ : بِكُلِّ شَعْرَةٍ فِي الصُّوفِ حَسَنَةٌ "  .

(  السنن الكبرى، للبيهقي، جلد: 9، ص: 438،  رقم: 19016،  ط: دار الكتب العلميه، بيروت. )

غرضیکہ مزید متعدد روایات کا ذخیرہ کتب احادیث میں اس موضوع کے متعلق موجود ھے؛ جن تمام سے اس عظیم سنت کی ترغیب ملتی ہے۔

*یہ ادائے عشق ھے, کھیل تماشہ نہیں*

   قرآن نے واضح طور پر اعلان کیا کہ عید قرباں یا حج کے موقعہ پر جو نحر و ذبح کا عمل اللہ کی اطاعت کرنیوالے, اور اسکے فرامین پر سر تسلیم خم کرنیوالے انجام دیتے ہیں ایکے خون گوشت و پوست سے ﷲ کو کوئی سروکار نہیں ھے, نہ وہ گوشت کا بھوکا ھے نہ تمہاری روزی کا؛ اسکو تو فقط تمہارا تقوی و اخلاص و للہیت اور نیت کی صفائی اور بندگی مطلوب ھے, قربانی آسان لفظوں میں ایک درسگاہ ھے,جہاں جاہل و عالم سب پڑھ سکتے ہیں, جہاں خدا یہ سکہاتا ھے کہ تم بہی خدا کے حضور اسی طرح قربان ہوجاؤ, اور تمہارا اپنے پیارے و پسندیدہ جانور کو خوش نیتی سے قربان کرنا گویا خود تمہارا ہی قربان ہونا ھے۔ در ایزدی کا غلام ہی اس کو انجام دیگا, خواہ اس عمل و حکم کی حکمتیں و مصالح عقل میں نہ آئیں,
*سر تسلیم خم ھے جو مزاج یار میں آئے* ع


*کیا قربانی خلاف عقل ھے*؟

  اس برقی اور میڈیائی دور میں کسی شوشہ کا چھوڑنا اور لوگوں کو اس کی جانب مبذول کرانا نہایت آسان ہوگیا ھے, اسی طرح کا ایک شوشہ کج فہموں و کوتاہ بینوں کی جانب سے یہ اچھالا جاتا ھے کہ قربانی کرنا عقل کی سمجھ سے ورے ھے, اور انسانی عقل کے تقاضوں کے خلاف ھے-  تو حکیم الامت مجدد ملت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تہانوی رح کی مایہ ناز کتاب " احکام اسلام عقلطکی نظر میں"  سے کچھ اقتباسات کا خلاصہ پیش ھے کہ:

ساری دنیا میں قربانی کا رواج ھے,اور تاریخ اقوام پر اگر نظر ہو تو آشکارا ہوگا کہ ادنی چیز اعلی کے لیے قربان ہوتی ھے, مثلا: انگلی میں ناسور ہو تو دیگر بدن کو بچانے کی خاطر انگلی کو کاٹ دیا جاتا ھے تو یہ انگلی کی سارے جسم کے لیے قربانی ہوئی۔
اسی طرح حلقۂ احباب میں دوستوں و اقارب کی خوشی کی خاطر اپنی محبوبات و مرغوبات کو قربان کرنا پڑتا ھے, جیسے: مال و دولت وغیرہ اشیاء جنکی اپنے پیاروں کے سامنے کوئی ہستی نہیں۔

اسی طرح طب و میڈیکل میں دیکہیں کہ وہ لوگ جو خود قربانی کے مخالف ہیں اپنے زخموں سے سینکڑوں جاندار کیڑوں کو مارکر اپنی جان پر قربان کردیتے ہیں, مزید ادنی لوگوں کو اعلی پر قربان کیا جاتا ھے, صفائی عملہ ھے, جو تیوہاروں اور فیسٹیولوں کے موقع پر اپنی خوشیوں کو نظر انداز کرتے ہیں اور اپنے افسران بالا کے امر و آرڈر کی تعمیل و تکمیل میں تیوہاروں کی خوشیاں قربان کرتے ہیں, اسی طرح سیکورٹی و حفاظتی دستہ حکام و امراء اور وزراء کی خاطر دھوپ سردی بارش غرض ہر طرح کی مشقتیں برداشت کرتا ھے, اور خود کے جذبات و خواہشات اور آرام و استراحت کو دوسروں کے لیے قربان کرتا ھے.

خود بعضے ہنود جو خود کو گئؤ رکھشک سے فخریہ انداز میں تعبیر کرتے ہیں اسی گائے کی اولاد سے سخت کام لیتے ہیں, اور اسکو اپنے کاموں کے لیے زد و کوب بہی کرتے ہیں, یہ بہی ایک قسم کی قربانی ھے,
بس معلوم ہوا کہ قربانی کسی بہی درجہ ومرتبہ میں ہو یہ فطری و طبعی امر ھے, اور ادنی کو اعلی کے لیے قربان ہونا  ہی پڑتا ھے تو اگر انسان جو کہ اعلی ھے اسکے لیے چند حلال جانور کو قربان کردیا جائے تو کونسا خلاف عقل ہوا,؟   اور خالق بہی اسی کی تعلیم دیتا ھے۔

*کیا ذبح رحم کے خلاف ھے*؟

خلاق عالم و صناع کائنات کے وجود کو تسلیم کرنیوالی اقوام ہر گز خدا کو ظالم تسلیم نہیں کرتیں, بلکہ وہ خدا کو جس نام سے بہی پکاریں اسے رحمن و رحیم مانتی ہیں, اس ذات نے کارخانہ عالم کا ایک بے مثال نظام جاری کیا ھے , فضائی درندے و چرندے: باز, شاہین, چیل, کوا, سب شکاری موذی ہیں جو غریب پرندوں کا گوشت کہاتے ہیں, آگ کو دیکہو کہ پروانہ کا کیا حشر کرتی ھے, پانی میں غور کریں, کہ کس قدر گوشت خور ذی روح وہاں بستے ہیں, جو اپنے سے کمزور و چھوٹوں کا شکار کرکے انکو لقمہ اجل اور اپنی غذا و خوراک بناتے ہیں, ہر ما فوق ما تحت کو مار رہا ھے کہا رہا ھے, انسان کے بدن و سر میں جویں پڑ جاتی ہیں ان کو مارنے کے لیے کیسی بے باکی کی جاتی ھے, مچھر , پسو چوھے چچوندر سب کو انسان نت نئے آلات سے ختم کرتا ھے, کیا اسکا نام ظلم ھے؟ جواب ظاہر ھے کہ نہیں,! تو پھر عید قرباں یا دیگر مواقع پر ذبح حیوانات ظلم کیوں قرار دیا جاتا ھے؟
( *یا آپ خود اصول کو اپنے نہ توڑئیے, یا پھر کوئی اصول بنایا نہ کیجئے*)

نیز غور کریں! اگر عید الاضحی پر جانور قربان نہ کیے جایئں کہ یہ رحم کے خلاف ھے تو کیا یہ ہمیشہ زندہ رہینگے ؟ کیا ان کو موت آشنا نہیں ہونا؟ کیا یہ ابدی و سرمدی ہیں؟ کیا ان پر زوال و فنا طاری نہ ہوگا؟
اچھا ایسا کریں کہ تمام اونٹ گائے بیل بھینس اور بکری وغیرہ جو حلال جانور ہیں ان کی حفاظت کیجائے اور پرورش کیجائے پھر انجام میں غور کیا جائے , تو انجام بہت خطرناک ہوگا کہ ساری دنیا کا سبزہ بہی ان کی غذا کو کم پڑجائے گا اور قلت غذا و چارہ کی بنا پر خود ہی بہوکے پیاسے تڑپ تڑپ کر مر جاینگے, تو بہتر و احسن طریقہ اور دنیا کی سلامتی اسی میں ھے کہ جو جانور حلال ہیں ان کو ذبح کیا جائے , اور ذبح میں نرمی و آسانی ھے بالمقابل از خود مرنے کے۔اور اس حقیقت کو سائنس بہی تسلیم کرچکی ھے.

*انسان کا ذبح*
 
کوئی کہے کہ جب ذبح کی موت خود بخود موت کے مقابل آسان ھے تو پھر انسانوں کو بہی ذبح کیا جانا چاھئے؛ تاکہ سکرات موت اور اسکی سختیوں سے دوچاری نہ ہو؟
  تو اس سلسلے میں عرض اتنا ھے کہ ذبح انسانی بہی گو کہ عمدہ ھے ؛یہی وجہ ھے شہید باتفاق اعلی موت پاتا ھے, لیکن انسان چونکہ اشرف و اعلی ھے, احسن تقویم کی تصویر ھے, اور ایک انسان کو خدا سے کم تر کے لیے ذبح کرنا یہ انسانیت پر ظلم ہوگا؛ البتہ یہی ذبح اگر راہ جہاد میں ہو یعنی ایک اسلامی سپاہی جان جان آفریں کے سپرد کرے تو یہ شہادت خدا کے لیے ہوگی, جو ادنی کی اعلی کے لیے قربانی ہوگی,  مزید برآں انسان کے ذمہ متعدد حقوق اور ان کی ادایئگی کا ذمہ بہی ھے, اگر ذبح انسانی کا حکم دیا جائے تو بہت مشکل ہوگی ۔اور حقوق کی پامالی اور ان کا ضیاع دکھوں کا باعث و موحب  بنے گا۔

( احکام اسلام عقل کی نظر میں, صفحہ: 164 تا 168,ط: دار الکتاب دیوبند)

*ذبح کرنے پر اعتراض اور اس کا جواب*
      منکرین اور ملحدین کی طرف سے ایک اعتراض یہ بھی سامنے آتا ہے کہ زندہ جانوروں کے گلے پر چھری پھیر دینا بھی عقلِ سلیم کے خلاف ہے، یہ فعل مسلمانوں کی بے رحمی پر دلالت کرتا ہے، اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے حضرت مولانامحمد اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
        ”ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ شریعتِ اسلامیہ سے زیادہ رحم کسی مذہب میں نہیں ہے، اور ذبحِ حیوان رحم کے خلاف نہیں؛ بلکہ ان کے حق میں اپنی موت مرنے سے مذبوح ہو کر مرنا بہتر ہے؛ کیوں کہ خود مرنے میں قتل وذبح کی موت سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے، رہا یہ سوال کہ پھر انسان کو ذبح کر دیا جایا کرے؛ تا کہ آسانی سے مر جایا کرے، اس کا جواب یہ ہے کہ حالتِ یاس سے پہلے ذبح کرنا تو دیدہ ودانستہ قتل کرنا ہے اور حالتِ یاس پتہ نہیں چل سکتی؛کیونکہ بعض لوگ ایسے بھی دیکھے گئے ہیں کہ مرنے کے قریب ہو گئے تھے، پھر اچھے ہو گئے اور شبہ حیوانات میں کیا جائے کہ ان کی تو یاس کا بھی انتظار نہیں کیا جاتا، جواب یہ ہے کہ بہائم اور انسان میں فرق ہے، وہ یہ کہ انسان کا تو اِبقا (باقی رکھنا) مقصود ہے، کیونکہ خلقِ عالم سے وہی مقصود ہے؛ اس لیے ملائکہ کے موجود ہوتے ہوئے اس کو پیدا کیا گیا؛ بلکہ تمام مخلوق کے موجود ہونے کے بعد اس کو پیدا کیا گیا؛ کیونکہ نتیجہ اور مقصود تمام مقدمات کے بعد موجود ہوا کرتا ہے؛ اس لیے انسان کے قتل اور ذبح کی اجازت نہیں دی گئی، ورنہ بہت سے لوگ ایسی حالت میں ذبح کر دیے جائیں گے، جس کے بعد ان کے تندرست ہونے کی امید تھی اور ذبح کرنے والوں کے نزدیک وہ یاس کی حالت میں تھا اور جانور کا اِبقاء مقصود نہیں؛ اس لیے اس کے ذبح کی جازت اس بنا پر دے دی گئی کہ ذبح ہو جانے میں ان کو راحت ہے اور ذبح ہو جانے کے بعدان کا گوشت وغیرہ بقائے انسانی میں مفید ہے، جس کا اِبقاء مقصود ہے، اس کو اگر ذبح نہ کیا جائے اور یونہی مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے تو وہ مردہ ہو کر اس کے گوشت میں سمّیت کا اثر پھیل جائے گا اور اس کا استعمال انسان کی صحت کے لیے مضر ہو گا، تو اِبقاء انسان کا وسیلہ نہ بنے گا اور قصاص، جہاد میں چونکہ افناء ِ بعض افرادبغرضِ اِبقاء جمیع الناس متیقن ہے؛ اس لیے وہاں قتل ِ انسانی کی اجازت دی گئی؛ مگر ساتھ ہی اس کی رعایت کی گئی کہ حتی الامکان سہولت کی صورت سے مارا جائے، یعنی: قصاص میں جو کہ قتلِ اختیاری ہے، تلوار سے۔ اور جہاد میں مُثلہ وغیرہ کی ممانعت ہے۔“

(اشرف الجواب، انیسواں اعتراض: ذبح کرنے پر اعتراض اور اس کا جواب، ص: 86.87مکتبہ عمر فاروق، کراچی, پاکستان)

*کیا قربانی سے جانوروں کی نسل کُشی ہوتی ہے؟*

         ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کا یہ نظام چلا آ رہا ہے کہ انسانوں یا جانوروں کو جس چیز کی ضرورت جتنی زیادہ ہوتی ہے، حق تعالی شانہ اس کی پیدائش اور پیداوار بڑھا دیتے ہیں اور جس چیز کی جتنی ضرورت کم ہوتی ہے تو اس کی پیداوار بھی اتنی ہی کم ہو جاتی ہے، آپ پوری دنیا کا سروے کریں اچھی طرح جائزہ لیں کہ جن ممالک میں قربانی کے اس عظیم الشان حکم پر عمل کیا جاتا ہے، کیا ان ممالک میں قربانی والے جانور ناپید ہو چکے ہیں یا پہلے سے بھی زیادہ موجود ہیں؟!، آپ کبھی اور کہیں سے بھی یہ نہیں سنیں گے کہ دنیا سے حلال جانور ختم ہو گئے ہیں یا اتنے کم ہو گئے ہیں کہ لوگوں کو قربانی کرنے کے لیے جانور ہی میسر نہیں آئے؛ جب کہ اس کے برخلاف کتے اور بلیوں کو دیکھ لیں، ان کی نسل ممالک میں کتنی ہے؟! حالاں کہ تعجب والی بات یہ ہے، کتے اور بلیاں ایک ایک حمل سے چار چار پانچ پانچ بچے جنتے ہیں؛ لیکن ان کی تعداد بمقابل حلال جانوروں کے بہت کم نظر آتی ہے۔

*حضرت مفتی محمدشفیع دیوبندی صاحب رحمہ اللہ کا قول*
    
    حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی صاحب رحمہ اللہ قرآن پاک کی آیت﴿وَمَا اَنْفَقْتُمْ مِنْ شَیْءٍ فَھُوَ یُخْلِفُہ﴾ کی تفسیر میں لکھتے
ہیں: ” اس آیت کے لفظی معنی یہ ہیں کہ تم جو چیز بھی خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اپنے خزانہٴ غیب سے تمہیں اس کا بدل دے دیتے ہیں، کبھی دنیا میں اور کبھی آخرت میں اور کبھی دونوں میں، کائنات ِ عالَم کی تمام چیزوں میں اس کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے، انسان اور جانور اس کو بے دھڑک خرچ کرتے ہیں، کھیتوں اور درختوں کو سیراب کرتے ہیں، وہ پانی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا اس کی جگہ اور نازل ہو جاتا ہے، اسی طرح زمین سے کنواں کھود کر جو پانی نکالا جاتا ہے، اس کو جتنا نکال کر خرچ کرتے ہیں اس کی جگہ دوسرا پانی قدرت کی طرف سے جمع ہو جاتا ہے، انسان غذا کھا کر بظاہر ختم کر لیتا ہے؛ مگر اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسری غذا مہیا کر دیتے ہیں، بدن کی نقل وحرکت اور محنت سے جو اجزاء تحلیل ہو جاتے ہیں، ان کی جگہ دوسرے اجزاء بدل بن جاتے ہیں، غرض انسان دنیا میں جو چیز خرچ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی عام عادت یہ ہے کہ اس کے قائم مقام اس جیسی دوسری چیز دے دیتے ہیں، کبھی سزا دینے کے لیے یا کسی دوسری تکوینی مصلحت سے اس کے خلاف ہو جانا اس ضابطہٴ الٰہیہ کے منافی نہیں،․․․․․ اس آیت کے اشارہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جو اشیاء صرف انسان اور حیوانات کے لیے پیدا فرمائی ہیں، جب تک وہ خرچ ہوتی رہتی ہیں، ان کا بدل منجانب اللہ پیدا ہوتا رہتا ہے، جس چیز کا خرچ زیادہ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی پیداوار بھی بڑھا دیتے ہیں، جانوروں میں بکرے اور گائے کا سب سے زیادہ خرچ ہوتا ہے کہ ان کو ذبح کر کے گوشت کھایا جاتا ہے اور شرعی قربانیوں اور کفارات وجنایات میں ان کو ذبح کیا جاتا ہے، وہ جتنے زیادہ کام آتے ہیں، اللہ تعالیٰ اتنی ہی زیادہ اس کی پیداوار بڑھا دیتے ہیں، جس کا ہر جگہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ بکروں کی تعداد ہر وقت چھری کے نیچے رہنے کے باوجود دنیا میں زیادہ ہے،کتے بلی کی تعداد اتنی نہیں؛ حالانکہ کتے بلی کی نسل بظاہر زیادہ ہونی چاہیے کہ وہ ایک ہی پیٹ سے چار پانچ بچے تک پیدا کرتے ہیں، گائے بکری زیادہ سے زیادہ دو بچے دیتی ہے، گائے بکری ہر وقت ذبح ہوتی ہے، کتے بلی کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا؛ مگر پھر بھی یہ مشاہدہ ناقابلِ انکار ہے کہ دنیا میں گائے اور بکروں کی تعداد بہ نسبت کتے بلی کے زیادہ ہے، جب سے ہندوستان میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگی ہے، اس وقت سے وہاں گائے کی پیداوارگھٹ گئی ہے، ورنہ ہر بستی اور ہر گھر گایوں سے بھرا ہوتا جو ذبح نہ ہونے کے سبب بچی رہیں۔
      عرب سے جب سے سواری اور باربرداری میں اونٹوں سے کام لینا کم کر دیا، وہاں اونٹوں کی پیداوار بھی گھٹ گئی، اس سے اس ملحدانہ شبہ کا ازالہ ہو گیا، جو احکامِ قربانی کے مقابلہ میں اقتصادی اور معاشی تنگی کا اندیشہ پیش کر کے کیا جاتا ہے۔“

(معارف القرآن، جلد:7.سورة السباء, آیت: 39.صفحہ:303,ط: مکتبہ دار العلوم کراچی )

*کیا قربانی ضیاع مال ھے*

بعض لوگ جو عقل سلیم سے کورے  روحانیت سے تہی دامن  ہیں کہتے ہیں کہ قوم کا اتنا روپیہ جو تین دن میں جانوروں کے ذبح پر ہر سال خرچ ہو جاتا ہے اور اس کا خاطر خواہ مفاد نظر نہیں آتا، اگر یہی پیسہ رفاہی اور قومی مفادات پر لگایا جائے تو بہت فائدہ ہو ۔

   اس سلسلے میں ان شبہات زدہ اذہانِ مسلمین  سے عرض ھے کہ قربانی کرنا اللہ تعالیٰ کا حکم اور اہم عبادت ہے، جیسے: حج کرنا، زکاة دینا، وغیرہ عبادات۔ تو کیا ان عبادات کے بارے میں بھی یہی کہا جائے گا کہ یہ فضول خرچی اور مال کو بے جا خرچ کرنا ہے؟! اس طرح تو دین کا بہت بڑاحصہ اور بہت سے دینی احکام کا تعلق اسلام سے ختم ہو جاتا ہے۔ پس جب شریعت میں قربانی کا حکم ہے تو اسے عقلی اعتراضوں اور ذہنی ڈھکوسلوں کا شکار بنانا کسی طرح درست نہیں۔

       اور مادہ پرست و الحادی افکار کے حامل حضرات سے یہ عرض ہے کہ دنیا میں ہونے والی دوسری اور اصل فضول خرچیاں (جن کا شریعت نے حکم بھی نہیں دیا) ان لوگوں کو نظر نہیں آتیں؛ جب کہ اصل میں تو ان کے ختم کرنے اور مٹانے کی ضرورت ہے، ملک کی کتنی بڑی تعداد ایسی ہے جو سگریٹ نوشی، منشیات، کرکٹ، ہاکی اور دوسرے کھیل جوئے بازی، گھوڑ دوڑ، ناچ گانا، فحش پروگرام، انٹرنیٹ، ٹی وی، کیبل، وی سی آر، سینما، فضول تصویر سازی اور مووی بازی اور دوسرے فحش میڈیائی پروگرام، فحش اخبار ورسائل اور دیگر ناول اور ڈائجسٹ، بسنت، عید کارڈ، شادی کارڈ، گانوں اور دیگر غلط پروگراموں کی آڈیو وویڈیو کیسٹیں اور سی ڈیز، ویڈیو گیمز، آتش بازی، شادی بیاہ، مرگ وموت اور غمی خوشی کی رسومات، مختلف فیشن، غیر شرعی بیوٹی پارلر وغیرہ کی زد میں ہے۔ یہی پیسہ اگر قومی اور رفاہی مفادات پر خرچ کیا جائے تو بہت جلد ترقی حاصل کی جا سکتی ہے۔“

(ذوالحجہ اور قربانی کے مسائل واحکام، ص: 167, از: مفتی محمد رضوان صاحب)

*کیا قربانی سے غریبی آتی ھے*

کچھ اہل ثروت مسلم حضرات کو یہ خیال ہوتا ھے کہ قربانی غربت کا پیش خیمہ اور اسکا مقدمہ ھے, یہ بوکس خیال ناقابل التفات ھے ؛کیونکہ اگر ایسا ہی ہوتا تو آج دنیا میں تمام صاحب نصاب حضرات تہی دست و کنگال ہوکر فقیرانہ صدا لگاتے گلیوں و بازاروں میں نظر آتے؛ جبکہ ہمارا تو یہ مشاہدہ و تجربہ ھے کہ اہل خیر حضرات کی دولت و ثروت میں روز افزوں اضافہ ہی ہورہا ھے اور وہ ہر سال خود بہی قربانی کرتے ہیں اور دیگر مرحومین کی جانب سے بہی یہ انجام دیتے ہیں۔ اور 5 / 10 ہزار کی کیا حیثیت کہ جو غربت کا رفیق بنادے , ذرا حج و عمرہ کو دیکہو کہ ان کا خرچ کثیر ہونے کے باوجود دیوانے پروانہ وار جوار بیت ﷲ میں ارد گرد سے بے خبر طواف و سعی, وغیرہ مناسک میں مصروف رہتے ہیں, اور چند ہیں جو دوبارہ حاضری نہیں دے۔پاتے لیکن اکثریت تو ان کے کوچے کے بارہا چکر لگاتی رہتی ھے,

الغرض!  یہ سوال کرنے والا درحقیقت قربانی کی حقیقت سے ہی ناواقف ہے، قربانی کے ذریعے تو یہ جذبہ پیدا کرنا مقصود ہے کہ جب اللہ رب العزت کی طرف سے کوئی حکم آ جائے توہم اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے کی بجائے اللہ کے حکم کی پیروی کریں، اس کے حکم کے سامنے اپنا سرِ تسلیم خم کریں، اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عمل میں اشارہ کیا ہے کہ ﴿فَلَمَّا أَسْلَمَا﴾ جب انہوں نے سرِ تسلیم خم کر دیا․․․․․الخ۔ تو اچھی طرح سمجھ لیناچاہیے کہ قربانی محض رسم یا دل لگی نہیں ہے؛ بلکہ اس کے ذریعے ایک ذہنیت دینا مقصود ہے، جسے فلسفہٴ قربانی کا نام دیا جاتا ہے ، وہ یہی ہے کہ جب اللہ رب العزت کی طرف سے کوئی حکم آ جائے توہم اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے کی بجائے اللہ کے حکم کی پیروی کریں، اس کے حکم کے سامنے اپنا سرِ تسلیم خم کریں۔ اور ملک میں اس قربانی جیسے پاک عمل پرجاری زہر افشانی کا جواب مدلل پیرائے میں عقلی و نقلی براہین سے مزین کرکے دیں۔ 
===================
***