Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, September 23, 2018

دعائے نیم شبی،،تمیزخواب حقیقت ہے شرط بیداری۔


جاگو مسلمانوا، جاگو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدائے وقت بشکریا مولانا طاہر مدنی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
(میرے ایک بھائی نے جب ہریانہ کے ایک گاووں میں مسلمانوں کے ساتھ ہورہے ظالمانہ فسطائی برتاؤ  کے تعلق سے میرے پرسنل وھاٹساپ پر  ایک رپورٹ بھیج کر میرا تاثر جاننا چاہا تو  مجھ  سے رہا نہیں گیا، اور اپنا درد دل بھی میں نے برادر عزیز کے سامنے کھول کر  رکھ دیا۔۔۔ لیجئے اب آپ بھی اس میں شریک ہو لیں)

آج کل مسلمانوں کے تعلق سے ہندوستان میں تقریبا ہر روز  خون آشام واقعات کی کی کوئی نہ کوئی خبر سننے کو مل جاتی ہے، خوف و ذلت نے اسے بالکل معذور کرکے رکھ دیا ہے، اس کے ساتھ غلاموں جیسا ویسا ہی ذلتناک سلوک ہورہا ہے جو متعصب و انسانیت دشمن حکومتیں کسی ملک کی سب سے کمتر، مظلوم و مقہور، پس ماندہ اور بے یار و مددگا ر ملت کے ساتھ کرتی ہیں۔ یہ اس بات کا صاف اشارہ ہے کہ اب  وہ دن گئے جب اچانک کسی وجہ سے فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑتے تھے، لڑنے مرنے کے بعد پھر سب کچھ پہلے جیسا ہوجاتا تھا، کچھ دنوں بعد جب امن بحال ہوجاتا تو ایک بار  پھر سارے ہندو و مسلمان بے خوف اور شیر و شکر ہو کر اپنی اپنی بستیوں میں پر امن زندگی گذارنے لگتے، یہی ایک ایسے انسانی معاشرے کی پہچان ہے جس کو ابھی زاغ و کرگس تاکے نہ ہوں ، جو فسطائی بھیڑیوں کے  ابھی بھینٹ  نہ چڑھا ہو اور جہاں کسی خاص فرقہ کے خلاف نسل کشی کی تیاری نہ ہو۔۔۔۔ لیکن ان دنوں سر زمین ہند  میں اہل اسلام کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ ایک خوفناک سفر کی تمھید ہے۔ مسلمانوں کے خلاف موجودہ موب لنچنگ کی لہر اور مسلم کش واقعات  نسل کشی کے اسی  نقشے کی کڑی ہیں جو جارح و فسطائی ہندوتوا کی حامل ہندو تنظیموں کے دفاتر میں ستر سال سے بہت سنبھال کر رکھا ہوا ہے اور  ہر نئے دن اس میں نیا رنگ بھرنے کی پہلے سے تیاری ہوتی ہے۔

*پہلے ایک واقعے حوالہ:*
راجدھانی دہلی سے  قریب ہریانہ کے روہتک ضلع میں ٹٹولی نامی گاﺅں میں گذشتہ ماہ جو کچھ پیش آیا امید ہے اس سے آپ سب واقف ہوں گے ۔ تقریبابیس ہزار آبادی والے اس گاؤں میں  لگ بھگ 125 مسلم خاندان بستے ہیں،  باقی آبادی اکثریتی طبقہ ہندووں پر مشتمل ہے جوآر ایس بی جے پی کے زیر اثر ہیں۔

عید الاضحی کے دن (22 اگست2018ء) یہاں یہ واقعہ پیش ایا کہ یامین نام کے ایک مسلم شخص کی ڈھائی سالہ بھتیجی کو خود اس کے آنگن میں گائے کے  ایک آوارہ بچہ (بچھیا) نے  سینگ ماردی۔بچی کو بچانے کے لئے چچا دوڑا ہوا ایا اور حملہ آور جانور کو بھگانے کے لئے اسے ڈنڈا مارا اور اسے وہاں سے بھگا دیا، بعد میں  پتہ نہیں کس سازش کے تحت بچھیا مری ہوئی پائی گئی اور اس ایک چھوٹے سے واقعہ کی وجہ سے بستی کے سارے مسلمانوں کا جینا دوبھر کردیا گیا۔

بس کیا تھا موب لنچنگ کے ذریعہ درجنون مسلمانوں کے قتل پر خاموشی اختیار کرنے والی گاؤں اور اس کے باہر کے ہندوتواوادی تنظیمون سے جڑے شرپسندوں نے بچھیا مرنے کے واقعے کو بہانہ بنا کر پورے گاﺅں میں ہنگامہ برپا کردیا ۔یامین  کو گھیر لیا گیا، اس کی جان کے لالے پڑ گئے، اس کے معافی مانگنے بعد گاوں والوں نے بمشکل اس کی جان بخشی، لیکن ہندوتوا وادیوں کو یہ برداشت نہیں ہوا، وہ اس موقع کا بھر پور فائدہ اٹھانا چاہتے تھے، پھر تو وہی ہوا جو ان کا منشا تھا۔ یامین اور اس کے پڑوس کے  گھروں پر حملہ کیا گیا، مسلمانوں مین اتنا خوف و ہراس پیدا کیا گیا کہ تقریبا تیس خاندان جان بچانے کے لیئے گاوں چھوڑ کر چلے گئے، ہندووں کی پنچایت بیٹھی اور اس میں وہی فیصلے کیئے گئے جو آر ایس ایس پورے ملک میں عملا دیکھنا چاہتی ہے، کیا؟ یہی کہ ' یہاں رہنا ہے تو مکمل ہندو بن کر رہو یا زمین خالی کردو یا مرنے اور برباد ہونے کے لیئے تیار رہو' ۔ بالآخر  پنچایت نے یہاں کے مسلمانوں پر کچھ شرمناک  پابندیاں عائد کی ہیں۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں اپ سے کچھ کہوں ذرا ان پابندیوں پر نظر ڈال لیجئے جسے حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہاں کے مسلمانوں نے مان بھی لیا ہے۔

یہ پابندیاں کچھ اس طرح ہیں
1۔ یامین کے تاعمرگاﺅں میں داخل  ہونے پر پابندی۔۔۔2 مسلمان ٹوپی نہیں پہن سکتے۔3۔۔ کوئی مسلمان اب داڑھی نہیں رکھے  گا۔4۔۔اس فیصلے کے بعد کسی مسلمان بچے کا نام اسلامی نہیں بلکہ ہندو جیسا رکھنا ہوگا۔5۔۔آج کے بعد مسلمانوں پر مسجد میں نماز  پڑھنے پر مکمل پابندی ہوگی۔6۔۔ انھیں محض اپنے گھروں میں نماز پڑھنے کی اجازت ہو گی۔7۔۔ یہاں مسلمانوں کے کسی مذہبی کام کے لیئے باہر سے کسی عالم یا قائد کو بلانے کی اجازت نہیں ہوگی۔8۔۔۔ اب مسلمانوں کے قبرستان کی زمین  پنچایت کا زیر قبضہ رہے گی۔ 9۔۔۔ مسلمانوں کو بطور جرمانہ گوشالہ کو11ہزار روپے دینے ہوں گے۔۔
بی بی سی اور دیگر ذرائع کے مطابق گاوں کے مسلمانوں کی تازہ  ورت حال یہ ہے کہ یہاں بہت سے مسلمانوں نے اپنا نام بدل کر ہندووں جیسا کر لیا ہے، وہ گوشالہ کی خدمت کر رہے ہیں، اسلامی شعار کے اظہار سے گریز کر رہے ہیں اور وہ کچھ کرنے پر مجبور ہیں جو ہندو تنظیمیں اور پنچایت کے لوگ چاہتے ہیں۔

*اب میری دل بیتی بھی سنیں*:

ہاں جناب ہند میں مسلمانوں کے مستقبل کو لیکر وقت کی پیشانی پر تشویش کی لکیرین صاف دیکھی جا سکتی ہیں،  مسلمان شاید انھیں ابھی پوری طرح پڑھ نہیں سکا ہے۔۔۔حالانکہ اب یہ لکیریں روز بروز  گہری ہوتی جارہی ہیں لیکن اس کی نیند بھی ابھی گہری ہے۔۔۔۔جس دن وہ  بیدار ہوگا اس وقت تک پتہ نہیں ندی کا پانی بہ کر کتنے آگے نکل چکا ہوگا اور نہ جانے یہ سیلاب جو ابھی دستک دے رہا ہے، اس قوم سے کتنے قریب آ چکا ہوگا؟
تشویش ہے، اضطراب ہے اور کچھ کرنے کی بیقراری ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم ابھی تشویش اور تعزیت سے آگے نہی بڑھ سکے ہیں۔۔ میرے پاس بھی بہت سے سوالات ہیں، میں بھی دیر پا حل چاہتا ہوں، کیا کیا جائے؟ اس کا جواب چاہتا ہوں، یہ میرے سوالات ضرور ہین تاہم میرے لئے ذاتی طور سے یہ صورت حال حیرت انگیز  بالکل نہیں ہے، طوفان کے آثار تو  مدتون پہلے ظاہر ہونے لگے تھے، اب اس کی امد پر حیرت کیسی، یہ چینخ و پکار کیوں؟ کوئی آنکھ ہی بند کر لے تو اس سے کسی طوفان کی نفی تو نہیں ہوتی۔ ہم تو سکون و عافیت سے بیٹھے کل بھی کسی خوش فہمی کا شکار تھے اور آج بھی تقریبا وہی حالت ہے ،  ہم نے آنکھ کھول کر نہ پہلے دیکھا اور نہ اب  یہ دیکھنے کو تیار ہیں کہ اسلامیان ہند کا جہاز( اگر اسی طرح حالات کے بہاؤ پر بہتا رہا تو) آگے کس خطرناک چٹان سے تکرانے جا رہا ہے۔ اگر ہمارے پاس اس چٹان کو پاش پاش کرنے کی طاقت نہیں ہے تو کیا ہم اپنے جہاز کا رخ موڑنے کی حالت میں بھی نہیں ہیں؟ آپ یقین کریں نہ کریں لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ  دنیا میں کوئی ایسا سوال نہیں پے جس کا
حل نہ ہو۔

یہ بات تو یہ گنہگا تقریبا بیس سال سے کہتا آرہا ہے کہ اب ہمارے سامنے مسلئلہ صرف ایک اقلیت کے انسانی  حقوق کے تحفظ کا ہی نہیں ہے بلکہ ہمارے ملی تھذیبی وجود کی بقا کا ہے۔۔۔،یہ کسی نجومی کی پیشین گوئی نہیں تھی بلکہ حالات کے حقیقت پسندا نہ تجزیئے کا نتیجہ تھا، کیا اب بھی وہ وقت نہیں ایا کہ ہم اس سچائی کو سمجھیں کہ ہندوستان میں وقت مسلمانوں کے ہاتھوں سے بڑی تیزی سے نکلا جا رہا ہے؟ یہ سوالات یا یہ تشویش نئی نہیں ہے،   لیکن مسلمان ہیں کہ کروٹ ہی نہیں لے رہے ہیں، اور نہ یہ طے کر پا رہے ہیں کہ اس وقت کرنے کا کام کیا ہے۔
       کچھ اجتماعات، کچھ رفاہی کام اور دین و ملت کے نام پر کچھ غیر ترجیحی و غیر ضروری  سرگرمیوں  کو انجام دے کر وہ مطمئن ہوجاتے ہیں کہ کام ہوگیا اور انھوں نے فرض ادا کردیا۔ در اصل یہی خوش فہمی ہمارے مرض اور موجودہ ناخوشگوار کیفیت کا بڑا سبب ہے۔ حقیقت یہ ہےکہ مساجد، مدارس، جماعتیں، کارواں،  اجتماعات ، یہ اور وہ ہے، ایک لمبی بھاگ دوڑ ہے، لمبے بجٹ ہیں، بغیر کچھ کیئے اور بغیر کسی خاص محنت و صلاحیت کے شہرت و پذیرائی کے لئے لمبی چھلانگیں ہیں،  کہیں بھی نہ روح ہے، نہ اجتماعی شعور کی جھلک اور نہ مستقبل پر نظر رکھنے والی کوئی قابل لحاظ بیداری جس سے محسوس ہو کہ یہ قوم سچ میں آنے والے نازک وقت کا سامنا کرنےکی تیاری کر رہی ہے۔

ایک طرف آر ایس ایس کے پروردہ ہندو طبقے سے وابستہ غنڈے گاؤوں اور شہروں میں غریب اور بے یار و مددگار مسلمانوں کا جینا حرام کر رہے ہیں ، یہاں تک کہ گائے اور راشٹر واد کے نام پر ان کا چلنا پھرنا دشوار ہوتا جا رہاہے تو دوسری طرف حکومت ایک منصوبے کے تحت چہار جانب سے ان کاگھیرا تنگ کر رہی ہے۔۔۔ وزراء۔ و ممبران کابینہ سے لیکر ممبران اسمبلی تک، اس کے تمام کارندے مسلم مخالف قوانین لا کر اور ملک میں مسلم مخالف ماحول تیار کرکے مذہبی لحاظ سے ان کا ناطقہ بند کرنے کی مھم مین مصروف ہیں۔ موجودہ حکومت ایک  جمہوری نظام کی نہیں بلکہ ار ایس ایس کی وفادار حکومت ہے، اسی فسطائی تنظیم کے ایجنڈے اس وقت حکومت کے ایجنڈے بنے ہوئے ہیں اور موجودہ حکام اس کے ایجنٹ کے طور سے سرگرم عمل ہیں، اور یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ اس ملک میں آر ایس ایس کو وجود میں لایا ہی گیا ہے مسلمانوں کا وجود مٹانے کے لئے، اب جب کہ وہ حکومتی و انتظامی قوت و طاقت سے مسلح ہے تو اپنے اس ایجنڈے کے نفاذ میں وہ بھلا تاخیر سے کیوں کام لے گی، اج تین طلاق پر پابندی لگی ہے، حکومتی قانون کے مطابق تین طلاق کے بعد نہ کوئی طلاق نافذ ہوگی، نہ نکاح ختم ہوگا، طلاق دینے والا شوہر جیل بھیجا جائے گا اور اسے ہر حالت میں بیوی کا نان و نفقہ بھی ادا کرنا پڑے گا، اب ذرا سوچیئے  مسلمان شریعت پر عمل کرے گا یا حکومت کے جبری قوانین پر؟ آج طلاق کو حکومتی قا نون کا پابند کیا گیا ہے، کل حکومت کی طرف سے آر ایس ایس کے اشارے پر اسلامی طرز نکاح، تعدد ازواج، پردہ، جمعہ اور دیگر اجتماعی عبادات پر کسی نہ کسی بہانے پابندی لگنا کیا بعید ہے، ۔۔۔ یہ باتیں اتنی باریک تو نہیں ہیں کہ اسے عام مسلمان سمجھ نہ سکیں؟۔۔میں عام مسلمانوں کی بات اس لئے کر رہا ہوں کیونکہ خواص سے مجھے کوئی امید نہیں ہے، وہ تو  بغیر مفاد کے نہ تو حرکت کرتے ہیں اور نہ کبھی اپنے عافیت کدوں سے باہر نکلتے ہین۔   ۔

  حکومت و انتظامیہ کے پلیٹفارم سے ملت مسلمہ کو دینی و تھذیبی طور سےایک ایسی  اپاہج اور  بے دانت قوم بنا نے کے لیئے، جسے صرف غلاموں کی طرح سانس لینے کا حق ہو، بہت کچھ کیا جا چکا ہے اور بہت کچھ وہ آگے کرنے جا رہے ہیں، یہ بات اب ڈراوا نہیں رہی بلکہ ایک بھیانک حقیقت بن کر ظاہر ہو رہی ہے۔ اسے ہم جتنی جلدی سمجھ لیں قوم کے حق میں اتنا ہی بہتر ہے کہ اب تو طوفان کے دباؤ سے افق بھی پوری طرح سرخ ہو چکا ہے، جس کا جی چاہے سر اٹھا کر دیکھ لے۔

لیکن کوئی کیا کرے،  مسلمان تو اب بھی خواب خرگوش میں ہے، اس کی صبح و شام سے لگتا ہی نہیں کہ اس تیزی سے بدلتے وقت کا اسے ذرا سا بھی احساس ہے؟ البتہ اس میں ایک تبدیلی ضرور نظر آرہی ہے، وہ یہ کہ وقت کے دباؤنے اس کی صفوں بزدلوں ، موقع پرستوں، مداہنت پسندوں اور ایمان فروشوں کی تعداد میں اچھا خاصہ اضافہ کردیا ہے اور اس کا اندیشہ قوی ہے کہ ابھی آگے اس میں مزید اضافہ ہوگا۔۔۔ پھر اس وقت کیا ہوگا؟ ان مسائل کے حل کی ہمارے پاس کیا تدبیر ہے؟ قوم کے حوصلوں کو زندہ رکھنے کے لیئے ہم کیا قدم اٹھانے جا رہے ہیں؟  ۔۔۔ حالیہ منظر یہ پے کہ چھلاوے کو شان کا اور سراب کو اب حیات کا نام دے کر عام طور سے ہر ایک اپنی جگہ شاداں و فرحاں نظر اتا ہے۔ اقبال کی یہ پیشین گوئی انھیں شاید کچھ کچھ اس وقت سمجھ میں آنے لگی ہے جب کہ مسلمانوں کو اس ملک میں سجدوں کی اجازت بھی مشکل سے مل رہی ہے۔

ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد۔

یہ کڑوی حقیقت ہے کہ ہندوستانی مسلمان  ایک طویل مدت سے اجتماعی غفلت کا شکار پے اور ان کی اکثریت مذہب و ملت کے نام  پر ان کاموں میں مصروف رہی ہے جن کا ان کے فرائض منصبی سے کوئی خاص تعلق نہ تھا، یہاں تک کہ آج بھی یہاں کے مسلمان حنفی و حنبلی کی فقہی تقسیم و تنازعہ سے باہر نہیں آ سکے، اج بھی وہ علی و معاویہ۔اور  حسین و یزید (رضی اللہ عنھم) کے حق و ناحق ہو نے  کے مجادلے میں  پورے "خلوص" سے مصروف ہیں، (وہ بھی تاریخی تحقیق و مطالعہ کی میز پر نہیں  بلکہ سوشل میڈیا پر)۔ اس طرح  برسوں ںسے یہ اپنے من پسند مذہبی مراسم و تقریبات ، ہنگامہ خیز مذہبی مظاہرات و مناجات،  شخصیتوں کی غلو آمیز منقبت،  اپنے اپنے شیوخ عجم و عرب کی قصیدہ خوانی اور اپنے اپنے مسلکی گھروندوں کی تعمیر میں کچھ یوں  مگن ہیں کہ انھیں منزل سے دور، بہت دورنکل جانے کا اندازہ بھی نہیں ہوا، جب آنکھ کھلی تو خود کو وہاں پایا جہاں نہ منزل تھی  اور نہ منزل کے نشانات، ہاں وہاں شیطانوں کے پیروں کے نقوش بہت صاف دکھ رہے ہیں جن کی پیروی سے انھیں سختی سے روکا گیا ہے اور جنھیں اہل ایمان کا دشمن کہا گیا ہے۔

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ"

کہا جاتا ہے کہ جب جاگے تب سویرا، اگر ہم مسلمان  اپنوں اور غیروں کی ساحری سے باہر اکر اب بھی بیدار ہوجائیں تو ہوائوں کا رخ موڑنا ناممکن نہیں، سیلاب ہے تو سیلاب پر بند باندھنے کا اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو ہنر بھی دیا ہے، حوصلہ ہے تو چٹانوں سے ٹکرا کر بھی زندہ رہا جا سکتا ہے۔۔لیکن اس کے لیئے دل کی بیداری اور احساسات میں تلاطم پہلی شرط ہے، منصوبہ و پیش قدمی کے مراحل تو اس کے بعد آتے ہیں۔
مری دعائے تہجد۔  کو   شاعری  نہ   کہو
یہ دل کی بات ہے، لفظوں کی ساحری نہ کہو
(ایاز)

👆میرے بھائی یہ تو بس درد دل کا اظہار ہے ورنہ ذہن تو ابھی سوالات سے اگے نہیں برھ پا رہا ہے، حالات کا ادراک ، نقصان کا اندازہ، یا احساس زیاں اور تبدیلی کی خواہش ہی کسی ملت کے قلب ماہیت کی پہلی منزل ہے، اس لئے کہ اللہ تعالی کی یہ سنت ہے کہ وہ بس انھیں قوموں کی تقدیر  بدلتا ہے جو سچ میں خود کو بدلنا چاہتی ہیں ، ہر ایک اپنا دل ٹٹول کر دیکھے کہ وہ ہندوستان میں ملت اسلامیہ کی آئندہ نسلوں کے مخدوش مستقبل کے تئیں کتنا فکر مند ہے؟ ۔۔یہ میرے  سوز دروں کی سادہ سی تصویر ہے۔۔۔۔  ورنہ ذہن تو اب بھی تشویش کی اتنی گہری پرچھائیںوں سے گھرا ہے کہ  وہ  سوالات سے اگے نہیں برھ پا رہا ہے،،،،،، ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا کیا جائے؟۔  ایک سوال یہ بھی ہے کہ کس طرح کیا جائے؟
دعا ہے اللہ تعالی ہم ہندی مسلمانوں پر رحم فرمائے اور اپنی نصرت خاص سے ہمیں محروم نہ کرے۔
ایاز احمد اصلاحی