Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, September 17, 2018

جماعت اسلامی پاکستان کا المیہ۔

"
تحریر/ طاھر سواتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدائے وقت بشکریہ ابو نافع اعظمی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو عشروں تک جماعت اسلامی کی امارت پر فائز رہنے والے قاضی حسین احمد نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل ایک کالم میں اس تاسف کا اظہار کیا کہ جماعت اسلامی اپنے مخصوص دائرے سے نکلنے کے لیے تیار نہیں۔
مسلئہ یہ ہے کہ جس جماعت کی طرز فکر کو امیر جماعت تبدیل نہ کرسکے۔
جس کو خرم مراد جیسی شخصیت اپنے روایتی ڈگر سے ہٹا نہ سکے ۔
وہاں مجھ جیسے عام گناہ گار کی کیا حیثیت ہے ۔
جو جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے پالیسیوں پر نظر انداز ہو سکے ۔
لیکن میرے ذاتی علاقائی دوستوں میں ایک کثیر تعداد جماعت کے لوگوں کی ہے ۔
لہٰذا چند سطور عرض کر رہا ہوں۔
تاکہ بار بار گالیوں کی بجائے ایک بار ہی یہ سوغات حاصل کر سکوں۔
جماعت اسلامی ایک تنظیم کے ساتھ ساتھ ایک نظریاتی تحریک کی دعویدار ہے۔
لیکن اس وقت صرف یہ ایک تنظیم کی حد محدود ہو کر رہ گئی۔
جو کارکنان جماعت بک پڑھتے تھے اب صرف فیس بک ہی ان کا نصاب ہے ۔
اور جو احباب جماعت اپنے ادارے سمع و بصر سے رہنمائی حاصل کرتے تھے اب ان کا ذریعہ معلومات صرف اے آئی وائی اور سما ٹی وی جیسے حولدار چینل ہی رہ گئے ہیں۔
اگر میں کہوں کہ اس وقت سب سے کنفیوز کارکنان کا  مجموعہ رکھنے کا اعزاز جماعت اسلامی کے پاس ہے تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔
ایک دوست نے عرصہ قبل کہا تھا کہ سراج الحق جماعت اسلامی کے گورباچوف ثابت ہونگے۔
لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ اس معاملے میں قبلہ گوربا چوف کو شکست فاشست دیں گے۔
ھمارے حلقے میں ایک دوست جو ہفتہ وار درس قرآن کا اہتمام کرتے ہیں اس کی تحقیق کا عالم یہ ہے کہ ہر بات پر حوالہ حولدار میڈیا کا دیتے ہیں۔
جماعت اسلامی میں اس وقت دو شدید ذہنی تضادات پائے جاتے ہیں۔
ستر کی دھائی میں جب امیر جماعت میاں طفیل بھٹو کی جمہوریت میں باقی سیاسی قائدین کی طرح ریاستی جبر کا نشانہ بنے تو  اس نے نہ صرف اس کے ذہن بلکہ پوری جماعت کی سوچ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
اسی ماحول میں ان لوگوں نے ضیاء الحق کے مارشل لاء کو گلے لگایا اور یوں بوٹ پالشی کا ایک ایسا وائرس جماعت کے اندر سرایت کر گیا جو آج تک ختم نہیں ہو سکا ۔
دوسرا دور قاضی حسین احمد کا تھا جس میں وہ نواز شریف کے اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ تھے لیکن پاکستان بھر میں اور خصوصی طور پر پنجاب میں اسلامی جمعیت طلبہ باقی تنظیموں کی طرح ایم ایس ایف سے برسر پیکار رہی ۔ سراج الحق صاحب اس وقت جمعیت کے ناظم تھے۔
یوں جمعیت آئی جی آئی کے دور میں بھی اینٹی نواز بیانیے پر عمل پیرا رہی۔
سراج الحق صاحب وہی سوچ لیکر  جماعت اسلامی میں آگئے ۔ امیر جماعت بننے کے بعد وہ سوچ جماعت اسلامی کی جڑوں میں سرائیت کر گئی۔
اب چند باتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں جب تک جماعت اسلامی اپنا فکری بیانیہ واضح کرنا پڑیگا۔

1. جیسا کہ جماعت کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک پرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے اسلامی انقلاب یا تبدیلی کے لیے کوشاں ہیں۔
تو پھر طالبانائزشن اور عسکری تنظیموں کے بارے میں نرم گوشہ اور ان کی اس بنیاد پر بے جا حمایت کہ وہ ھمارے دشمن کے دشمن ہیں واضح تضاد کے علاؤہ کچھ نہیں۔
جب جمہوری جدوجہد ہی منزل کی طرف واحد راستہ ہے تو پھر ہر قسم کی غیر جمہوری قوتوں کی مخالفت کرنی پڑیگی۔
بیشک ان کا بیانیہ آپ کے فکر سے قریب تر کیوں نہ ہو۔

2. جب جمہوریت پر یقین ہے تو پھر اپنے حریف جمہوری جماعتوں کا مقابلہ جمہوری میدان میں کرنا پڑیگا ۔
ان کرپٹ ، موروثی اور نااہل جماعتوں کو جمہوری میدان میں شکست دینی ہوگی ۔
پھر کبھی مشرف اور کبھی راحیل شریف کے قصیدے بند کرنے پڑیں گے۔

3. اگر جمہوریت پر یقین ہے تو پھر تمام مسائل کا حل جمہوریت میں ہی تلاش کرنا پڑیگا ۔ اور اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑیگا کہ اب تک اس ملک کی مسائل کی بینادی وجہ جمہوریت پر بار بار شب خون ہے ۔
لہذا جمہوری نظام کو لپیٹنے کے لیے دھرنوں، لاک ڈاؤن وغیرہ کی جو بھی کوششیں غیر جمہوری قوتوں کے ایما پر کئے جاتے ہیں ان کی مخالفت کرنی پڑے گی۔
بیشک وقتی طور پر وہ کتنے ہی دلکش اور دلربا کیوں نہ ہوں ۔

4. جماعت کو اب یہ بھی فیصلہ کرنا ہے کہ اسے اس میدان میں اپنی الگ شناخت برقرار رکھنی ہے یا اتحادی سیاست کی کشتی میں سوار ہو کر آگے بڑھنا ہے۔
کبھی آئی جی آئی ، پھر اس سے توبہ ، پھر ایم ایم اے پھر اس پر پشیمانی پھر ایم ایم اے کے لئے جانفشانی ۔ یہ ناٹک اب بند کرنا پڑیگا۔

5. سیاست ایک کل وقتی کام ہے ۔ کیا امیر جماعت اور امراء اضلاع اس کل وقتی شغل میں مصروف ہوکر اپنے جماعت کی فکری و اخلاقی نشونما کر سکیں گے۔
اور کیا باقی ذیلی تنظیموں کی طرح سیاست کے لئے بھی ایک ذیلی تنظیم ہونی چاہیئے ۔
جو ھمہ وقت اسی کام کے لیے برسرِ پیکار ہو ۔
خرم مراد کا اسلامک فرنٹ والا آئیڈیا اس سلسلے کی ایک کڑی تھی لیکن اس کو جذباتی انداز میں شروع کراکے پھر اسی طرز پر لپیٹ دیا گیا۔

اگر ان باتوں کے بارے میں جماعت واضح پالیسی نہیں اپناتی تو پھر یہی ہوگا کہ

ایک دن جماعت کرپٹ نواز شریف کے حکومت کے خاتمے اور محب وطن مشرف کے آنے پر جشن منایئگی اور پھر اسی مشرف سے جان خلاصی کے لیے اسی کرپٹ نواز کا ہاتھ تھامنے لندن کے چکر کاٹے گی۔

ایک دن طالبان بھائی ہوں گے اور مہربانوں کی سرپرستی کے بعد ان سے ہاتھ کھینچ لیا جائے گا۔

ایک دن منور حسن قادری کے دھرنوں کے خلاف کرپٹ نواز شریف کے ہاتھوں پر بیعت کریں گے۔
لیکن اگلے سال اسی قادری اور عمران کے دھرنوں سے لیاقت بلوچ خطاب کریں گے۔

ایک دن سراج الحق مولانا فضل الرحمان کو ایم ایم اے کی تشکیل کے لئے پورا اختیار دیں گے لیکن ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے پارلیمنٹ میں پہنچ کر بغیر مشورے اور اجتماعی فیصلے کے اجلاس سے بائیکاٹ کریں گے۔

ایک دن غیر جمہوری قوتوں کے سجائے گئے پانامہ ڈرامے میں مرکزی کردار ادا کریں گے۔
عدالتوں کے ذریعے ووٹ کی حرمت کو تار تار کریں گے۔
اور سال کے اندر پانامہ کو عالمی سازش قرار دیکر ان ہی کرپٹ اور سزا یافتہ شریفوں کے زیر کمان ووٹ کی حرمت کے لیے کمربستہ ہوں گے۔

پتہ نہیں اس قسم کے کتنے تضادات ہیں جس کو لیکر سراج الحق اس کشتی کو منجدھار سے پہلے ہی ڈبونے کی فکر میں ہیں ۔

اور کوئی آواز اٹھائے تو قوم یوتھ سے زیادہ منظم جماعت اسلامی یوتھ کے مجاہدین ان پر حملہ آور ھو جاتے ھیں۔
لگے رہو ۔ منزل بہت قریب ہے۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  . . . . . . .  نوٹ!! مضمون نگار کی آرا سے ادارہ صدائے وقت کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔